ہفتہ، 26 اپریل، 2014

سویڈن میں سول پاکستان کی تلاش

سول پاکستان کی تلاش میں اک پاکستانی کس طرح سویڈن میں جا بستا ہے۔

جبکہ بیٹرا تو یہ اٹھانا پڑے گا کہ موجودہ پاکستان کو سول پاکستان کیسے بنایا جائے۔ 

عطاالحق قاسمی کا درجِ ذیل کالم روزنامہ جنگ 24 اپریل میں کو شائع ہوا۔  


اتوار، 20 اپریل، 2014

جمعہ، 18 اپریل، 2014

ریاستی اشرافیہ پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے!

رضا علی عابدی بہت دھیمے انداز میں بات کہتے ہیں۔ دیکھیے انھوں نے پاکستان کی ریاستی اشرافیہ کی کارگزاریوں کو کیسے بیان کیا ہے۔ پڑھیے اور روئیے:


[روزنامہ جنگ لاہور، 11 اپریل، 2014]


[روزنامہ جنگ لاہور، 18 اپریل، 2014]

منگل، 15 اپریل، 2014

مفت خورے اشراف

ریاستی اشرافیہ کی ہوس ماند پڑنے کا نام نہیں لیتی۔ یہ ریاست کو لوٹنے سے باز نہیں آتے۔ اور تب تک لوٹنے سے باز نہیں آ سکتے جب تک قوانین سازی اور ضابطہ سازی پر ان کا کنٹرول باقی ہے۔

دیکھیے ریاستی اشرافیہ کی یہ کھیپ کس طرح مراعات کے لے تڑپ رہی ہے:


[The News Lahore, April 15, 2015]


[روزنامہ جنگ لاہور، 15 اپریل، 2014] 

جمعہ، 4 اپریل، 2014

پاکستان: ایک بدتمیز اور بدمعاش ریاست

پاکستان میں جسے سرکاری نوکری اور ساتھ کچھ تھوڑا بہت سرکاری یعنی ریاستی اختیار مل جاتا ہے، وہ بے چارہ احساسِ کہتری اور کمتری کا مارا فوراً انسان کے درجے سے بلند ہو کر خدا بن بیٹھتا ہے۔ بیوروکریسی یوں ہی افسرشاہی بنتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان میں کسی کو پبلک ٹائلیٹ کے باہر نگرانی پر بٹھا دیں، وہ فوراً بیوروکریٹ بن جائے گا۔

سرکاری یا ریاستی اختیار ان کا دماغ ہی خراب نہیں کرتا، ان کی زبان کو بھی خراب کر دیتا ہے۔

ذیل میں نقل کیا جانے والا سرکاری اشتہار دیکھیے، اس کی زبان ملاحظہ کیجیے، اور پاکستان کی ریاست کی بدزبانی اور بدمعاشی کا ادراک کیجیے:

[اس اشتہار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں قانون کی حکومت کہاں کھڑی ہے، اور قانون کن بدزبانوں اور بدمعاشوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے اور چوری کی موٹر سائیکل خرید لیتا ہے تو کیا وہ زندگی بھر عذاب میں مبتلا رہے گا۔ پاکستان نہ ہوا، کوئی دوزخ یا جہنم ہو گیا!]