ہفتہ، 14 جون، 2014

سقراط پر ایک غیر سقراطی کتاب

سقراط
ازعائشہ اشفاق نور
الحمد پبلی کیشنز، لاہور، 2014

مختصر جائزہ :

[نوٹ: عائشہ اشفاق نور کی کتاب ’’سقراط‘‘ کا یہ جائزہ جون 14 کو لاہور میں جدت ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز کے تحت منعقدہ کتاب کی تقریبِ پذیرائی میں پڑھا گیا۔]

اس مختصر جائزے میں کچھ نکات اور معاملات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔

1۔ سقراط ان یونانی فلاسفہ میں سے ہے، جو جس فلسفے پر یقین رکھتے تھے، اپنی زندگی بھی اسی کے مطابق گزارتے تھے۔ اس مفہوم میں یہ کتاب ”عظیم یونانی فلسفی کی داستانِ حیات“ سے بڑھ کر ”سقراط کی داستانِ فکروحیات“ ہے۔ یعنی سقراط کی حیات کا بیان، اس کی فکر کے بیان سے جدا نہیں۔

2۔ اردو میں سقراط پر جامع کتب غالباً دستیاب نہیں۔ ایک کتاب کا ذکر خود مصنفہ نے بھی کیا ہے، وہ ہے سقراط پر ڈاکٹر منصورالحمید کی کتاب ”سقراط“، جس سے انھوں نے استفادہ بھی کیا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے ڈاکٹر منصورالحمید کی کتاب، نوے کی دہائی میں شائع ہوئی تھی۔ ابھی کچھ سال قبل یہ کتاب اضافوں کے ساتھ دوبارہ شائع ہوئی ہے۔ یوں، مصنفہ کی کتاب ایک اچھا اضافہ کہی جا سکتی ہے۔ یہ سقراط کی حیات اور فکر کا ابتدائی اور عمومی تعارف مہیا کرتی ہے۔

3۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ڈاکٹر منصورالحمید سقراط کو ایک پیغامبر ٹھہرانا چاہتے تھے۔ مصنفہ نے بھی اس معاملے کا ذکر کیا ہے، اور یہ دکھانا چاہا ہے کہ سقراط کسی الہامی طاقت سے معمورتھا، جیسا کہ خود سقراط بھی اس نوع کا دعویٰ کرتا دکھایا گیا ہے؛ گو کہ انھوں نے اس بات پر زور نہیں دیا ہے اور صاد بھی نہیں کیا ہے۔ یہاں محض اتنا کہنے پر اکتفا کیا جائے گا کہ خود سقراط کی یہ حیثیت اور اس کا منہاج، جو اس کے فلسفے کی روح بھی ہے، ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے۔ سقراط کا منہاج، مکالماتی اور تحقیقی ہے، الہامی، کشفی یا وجدانی قطعاً نہیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ سقراط ، صداقت کی تحقیق و تلاش کا سبق دیتا ہے، صداقت کو ایک بنی بنائی شے کے طور پر پیش نہیں کرتا۔ اس کا فلسفہ بنیادی طور پر علمیات کی اخلاقیات کی تشکیل کے ابتدائی کام پر مشتمل ہے۔

4۔ جیسا کہ ذکر ہوا، زیرِ نظر کتاب، سقراط کا ابتدائی تعارف پیش کرتی ہے، یہ کوئی تحقیقی کتاب نہیں۔ تاہم، ابتدائی کتاب کے لیے بھی یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کی تالیف میں، جن کتب سے مدد لی جاتی ہے، ان کی تفصیل آخر میں مہیا کر دی جائے۔

= مصنفہ نے کتاب میں مختلف مصنفین اورمحققین کا ذکر کیا ہے، جیسے کہ ڈبلیو- کے- سی- گدری، جنھوں نے چھ جلدوں میں یونانی فلسفے کی تاریخ لکھی۔

= پھر ایڈولف ہولم سے استفادہ کیا گیا ہے، اور انھیں عورت بتایا گیا ہے؛ یہ کتابت کا سہو ہوسکتا ہے (بلکہ تذکیر و تانیث کا سہو کئی مقامات پر موجود دیکھا جا سکتا ہے)۔ ایڈولف ہولم مرد ہیں، اورایک جرمن مورخ، اور انھوں نے چار جلدوں میں یونان کی تاریخ لکھی۔

= پھرڈاکٹر منصورالحمید کی کتاب سے استفادہ کیا گیا ہے، اور گو کہ یہ ایک تحقیقی کتاب ہے، مگراس سے مدد لینا مناسب نہیں تھا۔ مراد یہ کہ جو کتاب خود متعدد مستند کتابوں سے استفادے پر مشتمل ہو، اس پر انحصار بامعنی نہیں کہا جا سکتا۔ جبکہ عالمی ویب پر قریب قریب تمام کتب دستیاب ہیں۔

= اسی طرح ڈاکٹر نعیم احمد کی کتاب، ”تاریخِ فلسفۂ یونان“ کا معاملہ ہے۔ کسی ابتدائی سطح کی کتاب کے لیے بھی اسے ماخذ بنانا مناسب نہیں۔ اور ایسے میں جبکہ لاتعداد مستند ماخذ باآسانی دستیاب ہوں۔

= مناسب تھا کہ ان تمام کتب کا ذکر آخر میں کتابیات کے تحت کر دیا جاتا، جن سے اس کتاب کی تیاری میں مدد لی گئی۔

5۔ کتاب کے صفحہ 127 پرکنفیوشس کا ایک قول نقل کیا گیا ہے۔ جب کنفیوشس سے پوچھا گیا کہ اگر اسے حکومت کی ذمے داریاں سونپی جائیں تو وہ سب سے پہلا کام کیا کرے گا۔ اس کا جواب تھا: ’میں سب سے پہلے زبان کی اصلاح کروں گا۔‘

خود میں بھی کچھ اسی طرح کی رائے رکھتا ہوں، اور یہ سمجھتا ہوں کہ ہم جس ہمہ گیر بحران کا شکار ہیں، ہماری زبان بھی اس کی لپیٹ میں ہے؛ اور زبان پر توجہ اس بحران سے نبردآزما ہونے کے ضمن میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ سو، اب کچھ باتیں کتاب کی زبان و بیان کے بارے میں۔ یہاں زبان و بیان کا معاملہ یوں بھی اہم ہو جاتا ہے کہ فلسفے پر لکھنا، یا کسی فلسفی کے فلسفے پر لکھنا ذمے داری کا بھاری پتھر اٹھانے کے مترادف ہے۔

= کسی بھی کتاب میں کتابت کی غلطیاں بہت کھلتی ہیں۔ اور اگر یہ کتاب فلسفے یا کسی فلسفی کے فلسفے سے تعلق رکھتی ہوتو یہ غلطیاں کچھ زیادہ نمایاں ہو جاتی ہیں۔ اور یہ بات بھی صاف ہے کہ ان کی ذمے داری مصنف پرآتی ہے، ناشر یا کاتب پر نہیں۔ یہاں صرف چند ایک کی نشاندہی کافی ہو گی: کئی جگہ دَورکو پیش کے ساتھ دُور لکھا گیا ہے (ص: 12، 15،20)۔ ٹروجن جنگ کو لڑوجان لکھا گیا ہے (ص:26)۔ وغیرہ۔

= زبان و بیان کے ضمن میں کچھ تراکیب کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہوگا۔ صفحہ 192 پر باب کا عنوان ہے: ”عدالت میں سقراط“؛ جبکہ اسے بغیر کسی تردد کے ”سقراط عدالت میں“ لکھاجا سکتا تھا۔ صفحہ 48 پر باب کا عنوان ”ممدوحینِ سقراط“ باندھا گیا ہے۔ اس سے کیا مراد ہے، یہ سمجھنا مشکل ہے۔ اس کا عنوان ”مداحینِ سقراط“ ہوتا تو بات بن جاتی۔ مگر اس باب میں سقراط کے مخالفین کا ذکر بھی موجود ہے؛ لہٰذا، اس باب کا عنوان کچھ اور ہونا چاہیے تھا۔

= جہاں تک اصطلاحات کا تعلق ہے، گو کہ یہ کوئی بڑا اختلافی معاملہ نہیں، پھر بھی ایک اصطلاح کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔ Scepticism کے لیے ارتیابیت کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ یہ قریب قریب مفقود الاستعمال ہے۔ جبکہ اس کی جگہ تشکیک کا استعمال عام ہے۔ پروفیسر شیخ منہاج الدین کی ”قاموس الاصطلاحات“ (مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور، بار اول 1965؛ بار دوم 1982) میں یہ تراجم دیے گئے ہیں: مذہبِ شکاکیون، شکاکیت، لاادریت، شک پرستی۔ ہاں، فرہنگِ اصطلاحاتِ جامعہ عثمانیہ، جلد دوم، مرتبہ جمیل جالبی (مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، طبع اول 1993) میں ارتیابیت کی اصطلاح دی گئی ہے۔ اور مجھے یاد پڑتا ہے، مولانا عبدالماجد دریابادی اور مولانا نیاز فتح پوری دونوں تشکیک کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ارتیابیت کے مقابلے میں تشکیک کی اصطلاح زیادہ قابلِ فہم ہے؛ اس کا انتخاب مناسب رہتا۔

= متعدد مقامات پر کتابت کی اغلاط نے جملوں کو بگاڑ دیا ہے، اور ان کے معانی سمجھنا ممکن نہیں رہا۔ جیسے کہ: ایڈولف ہولم مزید لکھتی ہیں کہ یونانیوں کے ہاں اخلاق اور زہد و تقویٰ دونوں چیزیں موجود تھیں اور یہ کسی مافوق الفطرت ہستی کے احکامات کو ماننے کی وجہ سے ہرگز نہیں تھیں بلکہ دراصل ان کے باہمی معاملہ داری مظاہرے پر تھی جیسے فطرتاً ہر شخص محسوس کرتا تھا۔“ (ص: 18)

= کچھ مقامات پر مصنفہ کے بیانات میں تضاد بھی موجود ہے۔ سقراط کے خد و خال کے ضمن میں افلاطون کی شہادت کے تحت لکھا گیا ہے: اس کی آنکھیں مینڈک کی آنکھوں کی طرح باہر نکلی ہوئی تھیں۔ (ص:61) جبکہ فوراً بعد یہ بیان دیا گیا ہے: اس کا قد چھوٹا، آنکھیں اندر کی جانب دھنسی ہوئی تھیں۔ (ص:62)

= متعدد مقامات پر غیر ضروری تکرار جگہ پا گئی ہے، جبکہ اس سے بچا جاسکتا تھا: صفحات 38 – 39 پر یونانی شہری ریاستوں کی اقسام بیان کی گئی ہیں۔ پھر صفحہ43 پر ان ہی سطورکو دوبارہ نقل کیا گیا ہے۔ تکرار کی ایک اور مثال صفحات 52 اور 55 پر بھی موجود ہے۔

6۔ امید ہے اوپر جن نکات اور معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے، انھیں خوشدلی سے دیکھا جائے گا۔ ان کی نشاندہی کے پیچھے یہی مقصد کارفرما ہے کہ ایک عام فہم کتاب، جو سقراط کی زندگی اورفکر کا تعارف ضروری تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے، اس کی خوبیاں اور زیادہ عیاں ہو کر سامنے آ سکیں۔ اور قارئین شاعری کے سقراط سے آگے بڑھ کر فلسفی سقراط کی زندگی اور تعلیمات دونوں سے بہتر واقفیت حاصل کر سکیں۔

7۔ تاہم، آخر میں ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔ ضروری ہے کہ ہم اب ابتدائی اور تعارفی نوعیت کی کتابوں کی تصنیف و تالیف سے آگے بڑھیں۔ اور جیسا کہ سرسید کا کہنا تھا، چند کتابوں کی مدد سے ایک نئی کتاب لکھنے سے درگزریں، اور ان مباحث کو چھیڑیں اورسنجیدہ غوروفکر کی طرح ڈالیں، جن سے ہم اور ہمارا وجود، دوچار ہے۔ تاہم، اس سے انکار ممکن نہیں کہ یہ کام سقراط کی حیات و فکر کو بیان کرتے ہوئے بھی کیا جاسکتا تھا۔

جیسا کہ پاکستان ایک اخلاقی بحران کے بھنور میں گرفتار ہے؛ یہاں اخلاقی مباحث کو مہمیز کرنا اشد ضروری ہے۔ کیونکہ اخلاقیات ہی کسی معاشرے کے ستونوں کی بنیاد ہوتی ہے۔ اور اس کے ساتھ سیاسی نظریہ، ریاستی نظریہ، معاشرتی نظریہ، معاشی نظریہ؛ یعنی سیاست کیا ہے، ریاست کیا ہے، معاشرہ کیا ہے، اور معاشیات کیا ہے؛ ایسے معاملات ہیں، جو ناگزیر طور پر سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں۔ اورصرف فلاسفہ نہیں، بلکہ جو لوگ غور و فکر اور لکھنے پڑھنے سے شغف رکھتے ہیں، ان کا فرض بنتا ہے کہ اپنی فکری توانائیاں ان معاملات پر مرکوز و مرتکز کریں۔ زندگی کی روزمرہ تگ و دو کو فلسفیانہ اقلیم میں جا کر ہی سمجھا اورسلجھایا جا سکتا ہے؛ کیونکہ فلسفے کا سرچشمہ، مسائل و معاملات کی تفہیم اوران کے تصفیے کی جدوجہد سے عبارت ہے۔

شکریہ!

اتوار، 1 جون، 2014

زندگی بھر کا عذاب: ایک بد تمیز اور بدمعاش ریاست کے ساتھ

یہ پوسٹ ایک گذشتہ پوسٹ سے جڑی ہوئی ہے، جس میں اسی موضوع پر خامہ فرسائی کی گئی تھی اور پنجاب حکومت کا ایک اشتہار ثبوت کے طور پر منسلک کیا گیا تھا۔

ایک اور اشتہار ملاحظہ کیجیے۔ اس میں ریاست کی بدتمیزی اور بدمعاشی کا مزید ثبوت مہیا کیا گیا ہے۔

مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب کسی عام شہری کا سابقہ کسی سرکاری افسر یا منتخب نمائندے سے پڑتا ہے، اور اس کا جو رعونت آمیز رویہ سامنے آتا ہے، وہ اسی بدتمیزی اور بدمعاشی سے عبارت ہوتا ہے۔ 

ہم سب بے چارے عام شہری بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ریاست ہمارے ساتھ کس طرح پیش آتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ دورِ غلامی میں آقا بھی اپنے غلاموں کے ساتھ اس طرح پیش نہیں آتے ہوں گے۔ 


[روزنامہ جنگ لاہور، 31 مئی، 2014]