انتظار حسین کی اردو پڑھنے لائق ہوتی ہے۔ اسی لیے میں باقاعدگی سے
روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کا ادارتی صفحہ ضرور دیکھتا ہوں۔ گو کہ ان کے کالم میں کتابت کی غلطیاں کنکر پتھر
کا کام کرتی ہیں، اور میں سوچتا ہوں کہ ان کے کالم کو کتابت (کمپوزنگ) کے بعد
پرکھا جاتا ہے یا نہیں۔ اور اگر پرکھا جاتا ہے تو کون پرکھتا ہے۔ ظاہر ہے وہ خود
تو نہیں پرکھتے۔
خیر ان کا کالم دیکھتے ہوئے دوسرے کالموں پر بھی نظر پڑ جاتی ہے۔ 20 ستمبر کو یہی ہوا۔ ایک کالم کا عنوان تھا: ’’کچھ
منٹو کے بارے میں‘‘۔ منٹو کے ذکر کے سبب میں اس کالم پر رک گیا۔ نصرت جاوید نے اس
کالم میں ایک ’بڑے ہی محترم ہم عصر‘ کا ذکر کیا، جو ’علم و تقویٰ کی بنیاد پر
گنہگاروں کو اکثر شرمسار کرتے ہیں۔‘ نصرت جاوید نے یہ بھی بتایا کہ وہ ’اپنے اندر
کے شیطان کو قابو میں رکھنے کے لیے ان ہم عصر کے کالم بہت شوق سے پڑھتے اور ان سے
ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔‘
پھر نصرت جاوید لکھتے ہیں کہ ’انھیں اپنے محترم ہم عصر کے اس فقرے سے
بہت دکھ پہنچا جس کے ذریعے انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ منٹو جیسے افسانہ نگار کی
تحریریں پڑھنے کے بعد لوگ عورتوں کا احترام کرنا چھوڑ دیتےہیں۔ احترام کی یہ عادت
و روایت ختم ہو جانے کے بعد معاشرے میں پانچ سالہ بچی کے ساتھ وحشیانہ درندگی جیسے
دلخراش واقعات رونما ہوتے ہیں۔‘
چونکہ نصرت جاوید نے اپنے کالم میں ان ہم عصر کا نام نہیں بتایا تھا،
میں سوچنے لگا یہ کالم نگار کون ہو سکتے ہیں۔ پہلے میرا قیاس معروف کالم نگار ہارون
الرشید کی طرف گیا۔ میں نے روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں ان کے تازہ کالموں کو کھنگالا۔ مگر
ان میں منٹو کا ذکر کہیں موجود نہ تھا۔ پھر میرا ذہن فوراً اوریا مقبول جان کے نام
پر جا ٹکا۔ وہ بھی ’’دنیا‘‘ ہی میں لکھتے ہیں۔ ان کے تازہ کالموں کو دیکھا، اور
وہاں ایک کالم میں منٹو پر ان کا لگایا ہوا یہ ’’حکم‘‘ مل گیا، جس کا ذکر نصرت
جاوید نے کیا اور پھر اس پر کالم بھی لکھا۔
آپ بھی یہ مباحثہ ملاحظہ کیجیے، اور دیکھیے کہ پاکستان کے پڑھے لکھے
لوگوں میں کیا بحث چل رہی ہے۔
اوریا مقبول جان کا کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں 16 ستمبرکو شائع ہوا۔
پھر نصرت جاوید کا جوابی کالم روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں 20 ستمبر کو چھپا۔
اوریا مقبول جان نے جواب در جواب لکھا، جو ’’دنیا‘‘ میں 24 ستمبر کی شائع ہوا۔
اب تک میں انتظار میں رہا کہ نصرت جاوید کوئی اور جواب دیں گے، مگر آج
کے دن تک تو ایسا نہیں ہوا۔ یعنی ان کی طرف سے بحث ختم سمجھیے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں