پیر، 18 نومبر، 2013

ایک بم ہزار غم

روسی ادیب چیخوف نے افسانے کی تکنیک پر بات کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر اس میں بندوق کا ذکر آیا ہے تواس سے پہلے کہ افسانہ ختم ہو اس کا چل جانا ضروری ہے۔ پاکستان نے جب سے ایٹم بم بنائے ہیں، تب سے چیخوف کے کچھ پاکستانی پیروکاروں کا مسلسل کہنا ہے کہ اگر انھیں چلانا نہیں تو بنایا کیوں۔

یاد پڑتا ہے کہ واپڈا کے ایک ریٹائرڈ چیئر مین ریٹائرڈ جنرل تھے، وہ کہتے تھے کہ یہ بم کیوں بنا رکھے ہیں ماریں انھیں انڈیا پر۔ وہ کچھ تعداد بھی بتاتے تھے کہ کتنے بم بھارت کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ (انھوں نے اغلباً یہ بھی اندازہ ضرور لگایا ہو گا کہ پاکستان کے لیے کتنے بم کافی ہوں گے اور انھیں یہ اطلاع بھی ہو گی کہ بھارت کے پاس اس سے کہیں کم بم موجود ہیں، جو پاکستان کے لیے کافی ہوںگے!) ایک بہت نامور صحافی اور نظریۂ پاکستان کے ٹھیکیدار بھی پاکستان کے بموں سے بہت تنگ ہیں۔ وہ بھی چیخوف کے بتائے سبق کے مطابق ایک ایسا افسانہ لکھنا چاہتے ہیں، جس میں پاکستان کے پاس موجود تمام ایٹم بم بھارت پر استعمال کر دیئے جائیں۔

چلیں یہ تو خواہشات ہیں۔ مگر ہاں، شکر ہے کہ ایسے افراد، جن کی پاکستان میں کمی نہیں، بلکہ بہتات ہی ہو گی، معاملات کو فیصل کرنے کے مقام سے بہت نیچے ہیں۔ تاہم، اس خطرے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے لوگ کب تھوڑا سا اوپر آ جائیں۔ یہاں طالبان کا پاکستان میں برسرِ اقتدار آ جانا قطعاً مراد نہیں۔ گو کہ ان کے اقتدار پر قابض ہونے کا امکان چیخوف کے ماننے والوں سے کہیں زیادہ قوی ہو گیا ہے۔ صاف بات ہے کہ اگر طالبان کا دائرۂ عمل، جی ایچ کیو، اور پی این ایس کراچی اور پھر بہت سی دوسری حساس جگہوں تک بڑھ چکا ہے تو پاکستان کے پاس موجود ’ایٹم بم، ہزار غم‘ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔

کہانی بڑی دردناک اور عبرتناک ہے۔ اصل میں ایٹم بم بنانا ہمارے خمیر میں تھا۔ بھارت خواہ ایٹم بم بناتا یا نہ بناتا، ہمارے تو مقدرمیں لکھا تھا کہ ہم یہ کارنامہ ضرور سر انجام دیں گے۔ بھارت نے تو موقع فراہم کر دیا اور ہم بیٹھے بٹھائے ایٹمی طاقت بن گئے۔ نہ ہمیں گھاس کھانی پڑی، نہ بحرِ سائینس میں غوطے لگانے پڑے۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں نے ہماری انا کو خوب کچوکے دیے۔ ہم تو ایک اسلامی ملک ہیں، اور بھارت ہم پر حاوی ہو جائے گا۔ کیا خبر کس رات بھارت پاکستان پر قبضہ کر لے۔ ہم ڈر گئے، اور ہم نے بھی کچھ ایٹم بم پھوڑ ڈالے۔

انا کو تسکین مل گئی۔ ہم ایک اسلامی طاقت تو تھے ہی، اب ہم ایک ’اسلامی بم‘ کے مالک بھی ہو گئے۔ یہ بڑے فخر کی بات تھی۔ وقتی طور پر یہ دلیل خوب چلی کہ اگر ہم نے ایٹمی دھماکے نہ کیے تو بھارت ہم پر چڑھ دوڑے گا۔ ہماری انا کو کچھ اور زیادہ تسکین مل سکتی تھی، اگر یوں ہوتا کہ بھار ت ابھی مئی 1998 تک بنگلہ دیش پر قابض رہتا، اور جیسے ہی ہمارے چھ دھماکے چاغئی میں گونجتے، بھارت بنگلہ دیش سے دُم دبا کر بھاگ جاتا۔ مگر بھارت نے بڑی بے وقوفی کی، پہلے ہی، بلکہ فوراً ہی، بنگلہ دیش سے رفو چکر ہو گیا۔

ہمیں ایک اور بخار نے بڑا تنگ کیا ہے: ہم نے اسلامی بم بنا لیا۔ جیسے بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ کہتے ہیں کہ ڈگری، ڈگری ہوتی ہے، خواہ جعلی ہو یا اصلی، اسی طرح کہا جاسکتا ہے کہ بم، بم ہوتا ہے، اسلامی یا غیراسلامی نہیں۔ یہ کوئی بڑا سرخاب کا پر لگ جانے والی بات نہیں تھی کہ پاکستان پہلا اسلامی ملک تھا، جو ایٹمی طاقت بنا۔ بات تو جب ہوتی کہ پاکستان تما م انسانیت سوز ہتھیار تلف کرنے والا پہلا ملک ہوتا۔

چونکہ دنیا میں ایٹم بم بن اور چل چکا تھا اور پاکستان میں چیخوف کے مرید اتارو تھے کہ ایٹم بم نہ صرف بنایا جائے بلکہ اسے چلایا بھی جائے، تو ہتھیاروں کو تلف کرنے کی بات تو دور رہی، یہ لوگ ایسا سوچنے پر یہ بم خود پاکستان پر چلا دیتے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر طرح کے دوسرے بم پاکستانیوں پر چلائے جا رہے ہیں، بس ابھی ایٹم بم ان منچلوں کے ہاتھ نہیں آئے، ورنہ یہ بھی چل گئے ہوتے! سو اگر یہ نہیں ہوسکتا تھا تو کم از کم پاکستان ایک حقیقی جمہوری ملک ہی بن جاتا۔ یہ ہوتی سرخاب کے پر لگنے والی بات۔ اور دیکھیں آج کل کتنے اسلامی ملکوں کو سر خاب کے پر لگ رہے ہیں!

چیخوف کے پیروکار کچھ آ ئیڈیلسٹ سے بھی ہیں۔ کاش ایسا ہوتا کہ اگر یہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرنے کے وقت موجود ہوتے تو کچھ دیکھ سکتے اور کچھ سیکھ بھی سکتے۔ مگر ان کی افتادِ طبع ایسی ہے کہ اگر انھیں آج بھی ہیروشیما اور ناگا ساکی میں تباہی کے اثرات دکھائے اور بتائے جائیں تو ان کا ردِ عمل یہ ہوگا کہ امریکہ کے ساتھ بھی ایسا ہی کرو، نہیں تو ہم کریں گے!

تو اس صورت میں چیخوف کے پیروکاروں کو یہ کیسے سمجھایا جائے کہ افسانے اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایٹم بم بنانے پر پیسے اٹھتے ہیں۔ اسے چلانے پر بھی! اور بنانے سے بھی زیادہ پیسے اس کی حفاظت پر اٹھتے ہیں۔ اور طالبان جیسے چیخوف کے ’موت پسند‘ پیروکار، جو ہر وہ چیز چلا دینا چاہتے ہیں، جس کا ذکر افسانے میں آیا ہو یا نہ آیا ہو، ان سے ایٹم بم کی حفاظت پر تو بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے، اور ہو رہا ہے۔

پھر آج تک کوئی امریکی ایسا ایٹم بم نہیں بنا سکا جو اپنے بنانے کی لاگت کے ساتھ ساتھ اسے چلانے کی لاگت بھی خود ہی اٹھا سکے۔ ہر طرح کے بموں کے اخراجات، چاہے یہ اسلامی ہوں یا غیراسلامی یا کسی اور نام کے، بے چارے خواص کے الّلوں تللوں کے مارے عام شہریوں کو ہی اٹھانے پڑتے ہیں۔ مراد یہ کہ ہر طرح کے بموں سمیت ایٹم بموں کے خرچ کا غم بھی شہریوں کے حصے میں ہی آتا ہے۔ اور سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ جب یہ بم چلتے ہیں تو ان کی تباہی بھی سب سے زیادہ ان شہریوں کے حصے میں ہی آتی ہے۔

اور اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایٹم بم یہ نہیں دیکھتے کہ کون مسلمان ہے، کون ہندو، کون عیسائی۔ ایٹم بم کا نام اسلامی رکھ دینے سے یہ نہ تو مشرف بہ اسلام ہو تا ہے، نہ ہی مسلمانوں کی شناخت کے قابل۔ یہ بم، بم ہی رہتا ہے اور تباہی اپنی فطرت کے مطابق ہی لاتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ بم ریاستوں، سرحدوں، قوموں اور مذہبوں کی منطق نہیں سمجھتے اور اپنے اثرات بلا امتیاز اپنی پہنچ کے مطابق ہر جگہ پہنچاتے ہیں۔

چیخوف کے چیلوں کو ایک چیز اور بہت تنگ کرتی ہے۔ اور وہ ہے امریکہ۔ یہ امریکہ کو ہمارے بم کا غم کیوں کھائے جا رہا ہے: تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔ وہ شاید اس واقعے سے واقف نہیں جس سے ہو سکتا ہے کہ امریکہ بھی ناواقف ہو۔

کسی پاگل خانے میں ایک پاگل ایک اونچے درخت پر چڑھ بیٹھا۔ بہت سمجھایا گیا کہ بھائی نیچے اُتر آ۔ اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ پاگل خانے کے سب ڈاکٹر اور ملازمین اپنی اپنی ترکیبیں لڑا کر ناکام ہو گئے۔ اس مایوسی کے عالم میں ایک اور پاگل نے اپنی خدمات پیش کیں اور یقین دلایا کہ وہ اس پاگل کو نیچے اتار سکتا ہے۔ آ بھائی تو بھی اپنی عقل آزما لے۔ پاگل نے ایک قینچی منگوائی اور درخت پر چڑھے پاگل کو دکھائی: نیچے آتا ہے یا کاٹوں درخت۔ درخت پر چڑھا پاگل سیدھا نیچے اتر آیا۔ سب کے سب حیران اور پریشان، یہ پاگل ہی ہم سے زیادہ عقل مند نکلا۔

درخت سے نیچے اترنے والے پاگل سے پوچھا گیا، بھائی ہم نے تمہیں اتنا سمجھایا تم نیچے نہیں اترے۔ اس پاگل کی بات تمیں فوراً سمجھ آ گئی۔ وہ بولا: کہہ رہا تھا درخت کاٹ دوں گا، پاگل ہے کیا پتہ کاٹ ہی ڈالتا!

کاش ہم بھی کسی ایسے پاگل کی بات ہی سمجھ اور مان لیں!

[یہ تحریر اردو ویب سائیٹ، ’’ہم آزاد‘‘ کے لیے لکھی گئی تھی، اور 7 اگست 2011 کو مکمل ہوئی۔]

سندھ اسیمبلی میں شادی خانہ آبادی

ویسے تو پاکستان کی قومی اور صوبائی اسیمبلیوں سے عام شہریوں کے لیے بربادی کے پروانے جاری ہوتے ہیں۔ مگر اس مرتبہ ایک مختلف خبر آئی ہے۔ پہلے جو خاص پاکستانی منتخب ہو کر قومی اسیمبلی میں پہنچ جاتے تھے، ان کے گھر شادیانے بجنے لگتے تھے، اب تو خود اسیمبلی میں ڈھول ڈھمکا شروع ہو گیا ہے۔ منتظر رہیے کس اسیمبلی میں ناچ گانے کی تقریب کب منعقد ہوتی ہے:


[روزنامہ جنگ، 4 نومبر، 2013]

پاکستان کے طاقت ور قیدی اور کمزور پولیس افسر

یہ خبر ملاحظہ کیجیے اور حیران ہوئیے کہ ایک قیدی نے کیسے ایک پولیس افسر کو تبدیل کروا دیا۔ یہی سبب ہے کہ میں پاکستان کو ایک جرائم پیشہ ریاست کہتا ہوں:


[روزنامہ جنگ، 29 ستمبر، 2013]

پاکستانی سیاست دانوں کی ذہنیت کی ایک مثال

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایم این اے کو سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری رکھنے پر ہمیشہ کے لیے نااہل قرار دیا۔ یہ بات تو علاحدہ رہی۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا انھیں اس پر کوئی شرمندگی ہوئی۔ قطعاً کوئی نہیں۔ بلکہ ان کا ردِ عمل چوری اور سینہ زوری کے مترادف ہے۔ اس سے متعلق کچھ خبریں ملاحظہ کیجیے:




[روزنامہ جنگ، 29 اکتوبر، 2013]

پاکستان کے جاسوس سیاست دان

دنیا میں یا پاکستان میں کہیں کچھ ہو، پاکستانی سیاست دانوں کو فوراً پتہ چل جاتا ہے، یہ کس نے کیا یا اس کے پیچھے کون ہے۔ باقی تفتیشی ادارے ابھی تفتیش شروع بھی نہیں کر پاتے، اور سیاست دان ’’مجرموں‘‘  کو کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ کچھ نمونے کی خبریں ملاحظہ کیجیے، جو سیاست دانوں کی جاسوسانہ ذہنیت کی مثالوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پاکستانی ریاست کو چاہیے، تمام جاسوسی و تفتیشی اداروں میں سے ماہرین وغیرہ کو نکال باہر کرے، اور سیاست دانوں کو بھرتی کر لے:


[روزنامہ جنگ، 21 ستمبر، 2013]


[روزنامہ جنگ، 25 ستمبر، 2013]


[روزنامہ جنگ، یکم اکتوبر، 2013]


[روزنامہ جنگ، یکم اکتوبر، 2013]


[روزنامہ جنگ، 11 اکتوبر، 2013]


[روزنامہ جنگ، 12 اکتوبر، 2013]


[روزنامہ جنگ، 29 اکتوبر، 2013]

اتوار، 20 اکتوبر، 2013

قبائلی شہری اور ڈرون حملوں کی حمایت

پاکستان کے قبائلی علاقوں کے شہری ڈرون حملوں کے حامی ہیں۔ یہ خبر کسی عام اور غیر معتبر ذریعے سے جاری نہیں ہوئی، بلکہ نہایتا مستند سمجھے جانے والے اکانومِسٹ کی طرف سے آئی ہے۔  ملاحظہ کیجیے:


[روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور، 20 اکتوبر، 2013]

تفصیل جاننے کے لیے نیچے دیے گئے لِنک پر جائیے:

:Drones over Pakistan - Drop the pilot

پیر، 7 اکتوبر، 2013

طالبان ـ جنگی معیشت پر پلنے والی ملیشیا

طالبان، جنگی معیشت پر پلنے والی ایک ملیشیا ہے۔ اس ضمن میں یہ رپورٹ نہایت اہم ہے:


[روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور، 7 اکتوبر، 2013]

بدھ، 2 اکتوبر، 2013

ریاستی اشرافیہ کا گھریلو لین دین

کچھ معاملات سیاستی نہیں ہوتے۔ آج جو پارٹی حکمرانی کر رہی ہے، کل وہ بھی حزبِ اختلاف میں بیٹھی ڈنڈے بجا رہی ہو گی۔ سو معاملہ فہمی اچھی بات ہے۔ یہ خبر ملاحظہ کیجییے، اور سر دھنیے:


[روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور، 2 اکتوبر، 2013]

منگل، 1 اکتوبر، 2013

سعادت حسن منٹو اور دو کالم نگاروں کی پنجہ آزمائی

انتظار حسین کی اردو پڑھنے لائق ہوتی ہے۔ اسی لیے میں باقاعدگی سے روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کا ادارتی صفحہ ضرور دیکھتا ہوں۔ گو  کہ ان کے کالم میں کتابت کی غلطیاں کنکر پتھر کا کام کرتی ہیں، اور میں سوچتا ہوں کہ ان کے کالم کو کتابت (کمپوزنگ) کے بعد پرکھا جاتا ہے یا نہیں۔ اور اگر پرکھا جاتا ہے تو کون پرکھتا ہے۔ ظاہر ہے وہ خود تو نہیں پرکھتے۔

خیر ان کا کالم دیکھتے ہوئے دوسرے کالموں پر بھی نظر پڑ جاتی ہے۔ 20 ستمبر کو یہی ہوا۔ ایک کالم کا عنوان تھا: ’’کچھ منٹو کے بارے میں‘‘۔ منٹو کے ذکر کے سبب میں اس کالم پر رک گیا۔ نصرت جاوید نے اس کالم میں ایک ’بڑے ہی محترم ہم عصر‘ کا ذکر کیا، جو ’علم و تقویٰ کی بنیاد پر گنہگاروں کو اکثر شرمسار کرتے ہیں۔‘ نصرت جاوید نے یہ بھی بتایا کہ وہ ’اپنے اندر کے شیطان کو قابو میں رکھنے کے لیے ان ہم عصر کے کالم بہت شوق سے پڑھتے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔‘

پھر نصرت جاوید لکھتے ہیں کہ ’انھیں اپنے محترم ہم عصر کے اس فقرے سے بہت دکھ پہنچا جس کے ذریعے انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ منٹو جیسے افسانہ نگار کی تحریریں پڑھنے کے بعد لوگ عورتوں کا احترام کرنا چھوڑ دیتےہیں۔ احترام کی یہ عادت و روایت ختم ہو جانے کے بعد معاشرے میں پانچ سالہ بچی کے ساتھ وحشیانہ درندگی جیسے دلخراش واقعات رونما ہوتے ہیں۔‘

چونکہ نصرت جاوید نے اپنے کالم میں ان ہم عصر کا نام نہیں بتایا تھا، میں سوچنے لگا یہ کالم نگار کون ہو سکتے ہیں۔ پہلے میرا قیاس معروف کالم نگار ہارون الرشید کی طرف گیا۔ میں نے روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں ان کے تازہ کالموں کو کھنگالا۔ مگر ان میں منٹو کا ذکر کہیں موجود نہ تھا۔ پھر میرا ذہن فوراً اوریا مقبول جان کے نام پر جا ٹکا۔ وہ بھی ’’دنیا‘‘ ہی میں لکھتے ہیں۔ ان کے تازہ کالموں کو دیکھا، اور وہاں ایک کالم میں منٹو پر ان کا لگایا ہوا یہ ’’حکم‘‘ مل گیا، جس کا ذکر نصرت جاوید نے کیا اور پھر اس پر کالم بھی لکھا۔

آپ بھی یہ مباحثہ ملاحظہ کیجیے، اور دیکھیے کہ پاکستان کے پڑھے لکھے لوگوں میں کیا بحث چل رہی ہے۔

اوریا مقبول جان کا کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں 16 ستمبرکو شائع ہوا۔


پھر نصرت جاوید کا جوابی کالم روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں 20 ستمبر کو چھپا۔


اوریا مقبول جان نے جواب در جواب لکھا، جو ’’دنیا‘‘ میں 24 ستمبر کی شائع ہوا۔


اب تک میں انتظار میں رہا کہ نصرت جاوید کوئی اور جواب دیں گے، مگر آج کے دن تک تو ایسا نہیں ہوا۔ یعنی ان کی طرف سے بحث ختم سمجھیے۔

اتوار، 29 ستمبر، 2013

ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ: غلط سوال، صحیح جواب

نوٹ: رپورٹ ڈاؤن لوڈ کیجیے: ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ


[یہ تصویر الجزیرہ کی ویب سائیٹ سے لی گئی ہے۔]

پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا, جو بالآخر لاہور میں مارشل لا کے نفاذ پر منتج ہوا۔ یہ1954-1953  کی بات ہے۔ پہلی پہلی تحقیقاتی عدالت قائم ہوئی، جو دو معزز و محترم جج حضرات پر مشتمل تھی۔ جسٹس محمد منیر اس عدالت کے صدر اور جسٹس ایم- آر کیانی واحد رکن تھے۔ انھوں نے تحقیق کی اور تحقیق کا حق پورا پورا ادا کیا۔ پھر رپورٹ لکھی، اور کیا خوب رپورٹ لکھی۔ چونکہ ابھی حکومت اور اربابِ اختیار و اقتدار نے عیاری و مکاری کے سبق نہیں سیکھے تھے، اور یہ یقین رکھتے تھے کہ ہر کوتاہی اور مجرمانہ غفلت کے لیے وہ شہریوں کو جواب دہ ہیں، لہٰذا، یہ رپورٹ من و عن شائع کر دی گئی۔ نہ صرف اصل انگریزی رپورٹ، بلکہ سرکار کی طرف سے مستند اردو ترجمہ بھی شائع کیا گیا۔ پاکستانی حکومت کی یہ پہلی اور آخری رپورٹ تھی، جو عام شہریوں تک قانونی انداز میں پہنچی۔ اس کے بعد دو بڑے سانحات کی رپورٹیں غیر قانونی انداز میں افشا ہوئیں۔ پہلی رپورٹ، حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ تھی، جس کے متعدد حصے اول اول ہندوستان کے ایک اخبار نے شائع کیے۔ دوسری رپورٹ، حالیہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ ہے۔ حکومت نے ابھی تک اسے شائع نہیں کیا ہے۔ جبکہ الجزیرہ ٹی - وی چینل نے اسے افشا کر دیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ اصل رپورٹ نہیں، تاہم ، حکومت اصل رپورٹ کب عام کرے گی، اس بارے میں کچھ بھی کہنا ناممکن ہے۔ ہاں ،اتنا ضرور ہے کہ افشا ہونے والی ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ، خاصی حد تک مکمل رپورٹ معلوم ہوتی ہے۔

جب سے یہ رپورٹ افشا ہوئی ہے، ٹی- وی چینلز اور اخبارات میں اس پر بحث جاری ہے۔ اس رپورٹ کے بارے میں بالعموم ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ جب تک میں نے اسے پڑھا نہیں تھا، میں بھی یہی رائے رکھتا تھا۔ مطالعے کے بعد میری رائے یکسر تو نہیں، مگر بہت زیادہ تبدیل ہو گئی ہے۔ اوپر جن رپورٹوں کا ذکر ہوا، ان سب کا مطالعہ ہر اس پاکستانی کے لیے ناگزیر ہے، جو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں تشویش رکھتا ہے۔ یہ تینوں رپورٹیں ہزاروں کتابوں سے کہیں زیادہ علمیت اور بصیرت کی حامل ہیں۔ جسٹس منیر انکوائری رپورٹ کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ یہ رپورٹ نہ صرف انٹرنیٹ پر دستیاب ہے، بلکہ اسے ایک نجی ادارے نے ایک بار پھر شائع کر دیا ہے، اور یہ مارکیٹ میں بھی دستیاب ہے۔ حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کا جو ورشن انٹرنیٹ پر موجود ہے، وہ رپورٹ کا صرف ضمنی حصہ ہے۔ اس رپورٹ کو بھی پاکستان کا ایک بڑا اشاعتی ادارہ شائع کر چکا ہے، مگر غالباً اب یہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ خود میں بھی یہی ضمنی رپورٹ دیکھ سکا ہوں۔ مگر یہ ضمنی حصہ بھی مکمل رپورٹ کے جوہر سے آگاہی مہیا کردیتا ہے۔

اب آتے ہیں اس تیسری رپورٹ کی طرف، جسے حکومت تو اخفا میں رکھنا چاہتی ہے، مگر یہ پھر بھی حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کی طرح افشا ہو گئی ہے۔ حکومت کی یہ نااہلی ہم عام شہریوں کے لیے رحمت کا باعث ہے۔ وگرنہ ہم بے چارے یہ دونوں رپورٹیں، اور کارگل سے متعلق رپورٹ بھی، کبھی دیکھ نہ پاتے۔ اور یوں ہم بے چارے عام شہری، ان حالات و واقعات اور ذمے داروں کے کرداروں کی تفصیلات سے کبھی آگاہ نہ ہو سکتے، جنھوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کیا، اور اسامہ بن لادن کو پاکستان میں قائم و دائم اور محفوظ و مامون رکھا۔ اس کا مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ پاکستان کی ریاست اور حکومتیں خود اپنے شہریوں کو اپنے کرتوتوں سے بے خبر رکھنا چاہتی ہیں، اور ایسا کرنے کے لیے جھوٹے اورغیر اخلاقی قوانین کا سہارا لیے رکھتی ہیں۔ مثلاً حکومتوں کے پاس یہ اختیار کہاں سے آ گیا کہ وہ اتنے بڑے قومی سانحات کی رپورٹوں کو ان شہریوں سے چھپا رکھیں، جن کے پیسے سے یہ ریاست اور حکومتیں پلتی اور پھلتی پھولتی ہیں۔ کسی بھی ریاست اور کسی بھی حکومت کو کوئی حق نہیں کہ ان سانحات کے پیچھے کارفرما ”حقائق“ پر مبنی رپورٹوں کو سرد خانوں کی زینت بنائے رکھے۔ ہم عام شہریوں کو اس مطالبے سے کبھی دستبردار نہیں ہونا چاہیے کہ یہ رپورٹیں، ہم شہریوں کی ملکیت ہیں، اور ان کی ملکیت ہمیں واپس ملنی چاہیے!

جسٹس منیر انکوائری رپورٹ غالباً اس اعتبار سے بھی پہلی اور آخری رپورٹ تھی کہ اس کے صدر اور رکن کو مکمل آزادی اور اختیار میسر تھا کہ وہ قانون کے اندر رہتے ہوئے، جو ذمے داری انھیں سونپی گئی تھی، اسے بہ طریقِ احسن پورا کر سکیں؛ اور جن سوالوں کے جواب انھیں تلاش کرنے کے لیے کہا گیا تھا، ان کے جواب بے باکانہ انداز میں مہیا کریں۔ اس کے مقابلے میں ایبٹ آباد کمیشن کی تشکیل اور اس میں شامل ارکان کی موجودگی اس آزادی کو زائل کرنے کے لیے کافی تھی، جو اس درجہ اہم معاملے اور سانحے کی تحقیقات کے لیے ناگزیر تھی۔ مزید برآں، اس کمیشن کو وہ اختیار بھی میسر نہ تھا، جو اتنی بڑی کوتاہی کی تہہ میں کارفرما عوامل کو بے نقاب کر نے کے لیے انتہائی ضروری تھا، جس کا نتیجہ 2 مئی (2011) جیسے شرمناک سانحے کی صورت میں نکلا۔ یقینا 1954-1953 میں حالات بہت مختلف تھے۔ ابھی سول حکومت ہی بااختیار ہوا کرتی تھی۔ کوئی اور ادارہ ابھی ایسا نہیں تھا، جو اس کے آئینی اختیارات پر ڈاکہ ڈال سکے۔ جبکہ 2011 میں، جب ایبٹ آباد کمیشن بنا، اس وقت تک پاکستان کے سیاسی اور آئینی پُلوں کے نیچے سے پانی کے ایسے ایسے ریلے گزر چکے تھے، جنھوں نے کناروں کے ساتھ ساتھ پُلوں کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیا تھا، اور اس وقت کی حکومت، آئینی لحاظ سے پاؤں پر نہیں، بلکہ سر کے بل الٹی کھڑی تھی۔

یہی وہ اسبا ب ہیں، جو اس بات کی توجیہہ مہیا کرتے ہیں کہ جسٹس منیر انکوائری رپورٹ نہایت صاف، کھلے اور براہِ راست انداز میں جواب کیوں مہیا کرتی ہے۔ اس کے برعکس، ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کا انداز، صاف، کھلا اور براہِ راست کیوں نہیں۔ اس رپورٹ میں اشاروں، کنایوں میں، یا بالراست انداز میں جواب مہیا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ دونوں کمیشنوں کے سامنے کیا سوالات رکھے گئے تھے، تا کہ یہ سمجھا جا سکے کہ انھوں نے ان سوالوں کے جواب کیسے اور کس اندا زمیں وضع کیے، اور ان کا اظہار کس انداز میں کیا۔ 1953 میں ہونے والے فسادات کے ضمن میں جو تحقیقاتی عدالت قائم کی گئی، اسے ان تین سوالوں کے جواب تلاش کرنے تھے: (1) وہ کیا کوائف تھے، جن کی وجہ سے 6 مارچ 1953 کو لاہور میں مارشل لا کا اعلان کرنا پڑا۔ (2) فسادات کی ذمے داری کس پر ہے۔ اور (3) صوبے کے سول حکام نے فسادات کے حفظِ ماتقدم یا تدارک کے لیے جو تدابیر اختیار کیں، آیا وہ کافی تھیں یا ناکافی۔ یہ سوال نہایت واضح اور دوٹوک ہیں۔ ان کے جوابا ت ان سے بھی زیادہ واضح اور زیادہ دوٹوک ہیں۔

اب دیکھتے ہیں کہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے سامنے جو سوال رکھے گئے، کیا وہ اس بات کے مستحق تھے کہ ان کے جواب تلاش کیے جائیں۔ یا ان سوالوں کی تشکیل میں گریز سے کام لیا گیا۔ مراد یہ کہ 2 مئی کو ہونے والا سانحہ، جو سوال اٹھاتا تھا، کیا ان سوالوں پر توجہ دی گئی، یا نہیں۔ اس سانحے کے پس منظر میں جو سوال موجود تھے، کیا وہی سوال اٹھائے گئے، یا اصل سوالوں کو نظر انداز کر دیا گیا، اور کچھ اور متعلقہ، مگرغیر ضروری سوال سامنے رکھ دیے گئے۔ ملاحظہ کیجیے وہ سوال جن کا جواب مہیا کر نے کے لیے ایبٹ آباد کمیشن تشکیل دیا گیا تھا: (الف) پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی سے متعلق مکمل حقائق کا پتہ لگانا؛ (ب) 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن سے متعلق حالات و واقعات کی تحقیقات کرنا؛ (ج) متعلقہ حکام کی کوتاہیوں کی نوعیت، پس منظر، اور اسباب کا تعین کرنا؛ اور (د) ان پر مبنی سفارشات پیش کرنا۔ آخری دونوں سوال اس محاورے کی یاد دلاتے ہیں، جس میں سانپ کے چلے جانے کے بعد لکیر پیٹنے کی بات کی گئی ہے۔ چوتھا سوال ہر انکوائری کا لازمی حصہ ہوتا ہے، سو اسے اس انکوائری میں بھی شامل رکھا گیا۔ ہاں، پہلا سوال ہے، جو کسی حد تک 2 مئی کے سانحے سے میل کھاتا ہے۔ لیکن اسے بھی صاف اور سیدھے انداز میں وضع نہیں کیا گیا، اور اس میں ڈنڈی ماری گئی ہے۔ حاصل یہ کہ غلط سوال اٹھائے جانے کے باوجود افشا ہونے والی ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ صحیح جواب مہیا کرنے کی پوری اور کافی حد تک کامیاب کوشش کرتی ہے۔ آئندہ کالموں میں اس رپورٹ کے مختلف پہلووں پر بحث جار ی رہے گی۔

جمعہ، 27 ستمبر، 2013

میڈیا کی کام چلاؤ اردو

کافی عرصے سے پاکستان میں ایک بات دہرائی جاتی رہی ہے کہ تدریس کے شعبے میں صرف وہ لوگ آتے ہیں، جو اور  کسی شعبے میں کھپ نہیں پاتے۔ اس پر میرا ردِ عمل یہ ہوا کرتا تھا کہ جو لوگ تدریس کے شعبے میں کھپ نہیں پاتے، وہ صحافت میں جا بستے ہیں۔ اس کا پس منظر پاکستان میں صحافت کی حالتِ زار تھی، جو اب مزید ابتر ہو گئی ہے۔

کچھ دنوں پہلے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں پھر اسی تعصب کی تکرار سنی گئی۔ ایک ’’ماہرِ تعلیم‘‘ نے فرمایا: ’ہمارے معاشرے میں جو کچھ نہیں بنتا وہ ٹیچر بن جاتا ہے۔‘‘


[روزنامہ ’’جنگ‘‘ 28 اگست، 2013]

اس بات میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے: جو کچھ نہیں بننا چاہتا، بس زندگی کا کام چلانا چاہتا ہے، وہ پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا میں جا گھستا ہے۔ کیونکہ یہاں ہر کوئی ’’ماہر‘‘ ہے۔ بلکہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں میڈیا نے ایک عجیب و غریب معیار قائم کر دیا ہے، یعنی یہ کہ جو اخبار میں چھپ گیا اور کسی ٹی وی چینل پر آ گیا، وہ مستند اور ماہر بن گیا۔ یوں، پاکستان کی یونیورسیٹیوں نے اتنے ماہرین پیدا نہیں کیے ہوں گے، جتنے پاکستانی میڈیا نے پیدا کر دیے ہیں۔

اس ضمن میں اہم ترین بات یہ ہے کہ ہر ٹی وی چینل اور ہر اخبار کام چلاؤ زبان استعمال کر رہا ہے۔ یہ اردو نہیں، کچھ اور ہے۔ آپ کو بھی ایسے لوگوں سے سابقہ ضرور پڑا ہو گا، جنھیں جب یہ کہا جائے کہ آپ نے غلط لفظ بولا یا غلط لفظ استعمال کیا، درست لفظ یہ ہے، تو وہ کہتے ہیں: آپ کو بات سمجھ آ گئی نا، کافی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی کی زبان جیسی اہم ایجاد، جسے خود زندگی کہنا چاہیے، نظر انداز  کی جا رہی ہے۔ میڈیا پر بھی یہی ہو رہا ہے۔ کام چلاؤ زبان سے کام چلایا جا رہا ہے۔ کام چلاؤ ماہرین کام چلا رہے ہیں۔

یہ رویہ پاکستان کا المیہ بن گیا ہے۔

آج (27 ستمبر) کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں رضا علی عابدی کا کالم اسی معاملے پر روشنی ڈالتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:


بدھ، 25 ستمبر، 2013

ڈاکٹر صفدر محمود اور حبیب جالب کے ایک مصرعے کی گت

اب آتے ہیں آج کے ’’جنگ‘‘ میں شائع ہونے والے کالموں کی طرف۔ ان سب کو پڑھنے کے لیے اور پھر ان پر رائے زنی کے لیے بہت وقت درکار ہو گا۔ سرسری انداز میں دیکھنے سے جو چیز فوراً نظر میں آئی، وہ ہے ایک کالم کا عنوان۔

عنوان یہ ہے: ’’زندہ ہیں، یہی بڑی چیز ہے پیارے‘‘

پہلے میں نے سوچا کہ یہ کتابت یا کمپوزنگ کی غلطی ہو گی۔ یہی دیکھنے کے لیے میں نے پورا کالم دیکھ ڈالا۔ کالم کے آخر میں یہ الفاظ درج ہیں:

’’زندہ ہیں، یہی بڑی چیز ہے پیارے‘‘     

کالم لکھنے والے ہیں ڈاکٹر صفدر محمود۔ یہ ایک نامی گرامی بیوروکریٹ رہے ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے محقق اور مورخ ہیں۔ انھیں ان کی تاریخی کتب پر ’’پرائیڈ آف پرفارمینس‘‘ بھی مل چکا ہے۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ’’صبح بخیر‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔

انھوں نے جس شعر کا ایک مصرع درج  کیا ہے، وہ شعر اس طرح ہے:

اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے

یہ حبیب جالب کی نہایت معروف غزل ہے۔ پوری غزل ملاحظہ کیجیے:

یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے
تابندہ و پائندہ ہیں ذروں کے سہارے

حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے

ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم
ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے

کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غمِ جاناں
کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے

یہ غزل شعروں کی تبدیلی کے ساتھ فلم ’’موسیقار‘‘ (1962) میں شامل کی گئی تھی۔ موسیقار رشید عطرے تھے۔ اس غزل کو سلیم رضا نے گا کر امر کر دیا۔

اس اعتراض پر کالم نگار یہ جواب دے سکتے ہیں کہ انھوں نے مصرعے میں تصرف کیا ہے۔ درست ہے کہ کسی شعر یا مصرعے میں تصرف کیا جا سکتا ہے، پر ایسا کرتے ہوئے اس شعر یا مصرعے کا وزن خراب نہیں کیا جاتا۔ اگر مذکورہ مصرعے میں تصرف ہی مقصود تھا تو اسے یوں ہونا چاہیے تھا: زندہ ہیں یہی چیز بڑی چیز ہے پیارے

پھر بھی میرا اعتراض اپنی جگہ قائم ہے۔ ’بات‘ کی جگہ ’چیز‘ سے مصرعے کے مطلب و معنی میں کوئی اضافہ نہیں ہو پاتا، بلکہ مصرعے کی گت بن جاتی ہے۔ یہ حبیب جالب اور شاعری کی روح دونوں کے ساتھ بد مذاقی بھی ہے!

[نوٹ: یہ پوسٹ 11 ستمبر کو شائع ہونے والی ایک طویل پوسٹ، ’’آج کااخبار اور پاکستان کی حالتِ زار‘‘ کا ایک حصہ ہے۔] 

پیر، 23 ستمبر، 2013

سِول پاکستان کا مطلب کیا؟

جب اردو بلاگ کے لیے ’’سول پاکستان‘‘ کا نام میرے ذہن میں آیا تو مجھے یہ ہر اعتبار سے جامع اور مانع محسوس ہوا۔ میں نے چند لغات وغیرہ دیکھیں، اور اس طرح میرے تاثر کی تصدیق ہو گئی۔ یہاں بھی میں صرف لغات اور قاموسوں کی مدد سے لفظ ’’سول‘‘ کے مفہوم و معنی کی تشریح اور تصریح کی کوشش کروں گا۔

فیروزاللغات:

(۱) غیر فوجی ـ شہری (۲) انتظامی ـ تمدنی (۳) خلیق ـ مہذب ـ ملنسار ـ بھلا مانس


فرہنگِ آصفیہ:

(۱) ملیٹری کا نقیض ـ ملکی ـ مالی ـ دیوانی ـ انتظامی ـ تمدنی (۲) خلیق ـ سنجیدہ ۔ مہذب ـ بھلا مانس ـ شریف ـ ملنسار ـ خواندہ ـ تعلیم یافتہ

نوراللغات:

۱ ـ فوجی کا نقیض ـ ملکی ـ مالی ـ انتظامی ـ ۲ ـ سنجیدہ ـ مہذب

انگریزی ـ اردو ڈکشنری، مرتبہ: ڈاکٹڑ ایس ـ ڈبلیو فیلن:

1۔ شہری ـ ملکی
2۔ بھیتری ـ اندرونی ـ آپس کی ـ باہمی ـ خانگی
3۔ انتظامی ـ ملکی ـ محکومانہ
4۔ مالی ـ ملکی
5۔ دیوانی
6۔ خلیق ـ بااخلاق ـ شریف ـ اشراف ـ سوشیل

قومی انگریزی اردو لغت:

حضری؛ مدنی؛ شہری؛ ملکی؛ اجتماعی؛ معاشرتی؛ شایستہ؛ مہذب؛ خوش اخلاق؛ غیر فوجی؛ دنیاوی؛ دیوانی یا غیر فوجداری؛ معاشرے یا مملکت کی پالیسی اور حکومت کے متعلق؛ شہریوں پر مشتمل، ان کے متعلق یا ان کے شایانِ شان؛ نجی حیثیت میں فرد یا انفرادی آزادی کا یا اس کے متعلق؛ شہریوں کے درمیان معاملہ؛ وہ معاملات جو مذہبی یا عسکری نہ ہوں؛ غیر فوجی۔

(قانون) دیوانی قانون کا، اس کے متعلق یا اس کے متعلق یا اس سے اخذ کردہ؛ شہریوں کے انفرادی حقوق کے متعلق، خصوصاً ان حقوق کے دفاع میں قانونی کاروائی کے متعلق؛ طور طریق میں شایستہ؛ متمدن؛ باادب؛ اچھی تربیت یا پرورش پایا ہوا؛ خلیق؛ شریف؛ بااخلاق؛ اشراف؛ شریفانہ؛ قانونی

ڈکشنری اردو ـ انگلش اینڈ انگلش ـ اردو (جان شیکسپیئر)

خلیق ـ مردم ـ ملکی ـ ملنسار ـ مودب

قاموس الاصطلاحات (پروفیسر شیخ منہاج الدین، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور)

(سوشیالوجی) معاشرتی ـ تمدنی
(پالیٹِکس) شہری ـ غیر فوجی ـ حضری
(قانون) دیوانی

اردو یا انگریزی سے اردو کی ان تمام لغات میں لفظ ’’سِول‘‘ کے جو معنی دیے گئے ہیں، یقیناً پاکستان کو ایسا سِول پاکستان ہونا چاہیے!