الفاظ ہم خود بناتے، گھڑتے اور تراشتے ہیں۔ لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ جواباً الفاظ بھی
ہمیں بناتے، تراشتے اور بگاڑتے ہیں۔ جیسے ایک شعر میں بیان ہوا ہے: کھلتا کسی پہ کاہے کو دل کا معاملہ / شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے۔ اور جیسے شاعر چاؤسر کا کہنا تھا:حکم نہ
لگاؤ، کہیں تم پر حکم نہ لگ جائے۔ اسی طرح، الفاظ ہماری نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ہمارے
عکاس ہوتے ہیں۔ یہ ہماری چغلی کھاتے ہیں۔ یہ ہمارے احساسات اور خیالات کو بے نقاب کرتے
ہیں۔ الفاظ، ہماری دنیا اور ہماری زندگی کو بیان کرتے ہیں۔ یہ ہمیں زبان دیتے ہیں،
یا یوں سمجھ لیجیے یہ ہماری زبان کو بولنا سکھاتے ہیں۔ الفاظ کے اندر تہذیب اور ثقافت
کی تاریخ سموئی ہوتی ہے۔ یہ طرزِفکراور طرزِ حیات کی مٹھاس اور کڑواہٹ دونوں سے بھرے
ہوتے ہیں۔ یہ زندگی دیتے بھی ہیں، اورزندگی لے بھی لیتے ہیں۔ یہ ایک علاحدہ وجود، اور
جداگانہ زندگی کے حامل ہوتے ہیں۔ ہمیں انھیں احتیاط سے برتنا چاہیے۔ یہ نازک آبگینے
اور خطرناک نشتر ہوتے ہیں۔
آئیے ابتداً اس کالم سے تعلق رکھنے والے
دو لفظوں پر توجہ دیتے ہیں۔ اشراف، اور اجلاف۔ فیروزاللغات کے مطابق ”اشراف“ کا مطلب
ہے: شریف کی جمع ؛ بھلے مانس لوگ۔ عالی خاندان؛ عالی نسب؛ ذی رتبہ؛ ذی عزت لوگ۔ مہذب
اور شائستہ لوگ۔ اشراف پاؤں پڑے کمینہ سر چڑھے: (مثل) شریف تو اپنی شرافت کی وجہ سے
نرمی کرتا ہے اورکمینہ سر چڑھتا ہے۔ اشراف وہ ہے جس کے پاس اشرفی ہے: اس زمانے میں
اشراف مالدار کو ہی سمجھا جاتا تھا۔ اسی لغت میں ”اجلاف“ کا مطلب بھی دیکھتے ہیں: جلف
کی جمع۔ کمینے؛ سفلے؛ شودر؛ ذلیل پیشوں کے لوگ۔ اشراف کی ضد۔ نوراللغات میں اشراف کا
یہ مطلب درج ہے: وہ لوگ جن کا حسب و نسب اچھا ہو۔ اشراف سے کمینے ہیں برتر تو کیا ہوا
/ گوہر بزیرِ آب ہے بالائے یم حباب (اسیر)۔ مثال کے لیے دیکھو آگے کا مقولہ۔ اشراف
پاؤں پڑے کمینہ سر چڑھے: کمینہ شریف کی نرمی اور خوشامد پر الٹا اور دلیر ہو جاتا ہے۔
اشراف پرست: صفت، بھلے مانسوں کی قدر کرنے والا۔ اجلاف: اشراف کی ضد۔ رذیل؛ کمینے۔
اب ”فرہنگِ آصفیہ“ کی باری ہے۔ اس میں ”اشراف“ کا مطلب یوں بیا ن ہوا ہے: بھلا مانس؛عالی
خاندان؛ رئیس؛ عالی نسب؛ امیرزادہ؛ ذی رتبہ؛ ذی عزت؛ جنٹلمین۔ سیدھا؛ بے کپٹ؛ غریب؛
نیک۔ مہذب؛ شائستہ۔ اور”اجلاف“ کا مطلب ہے: کمینے؛ سفلے؛ کمین؛ فرومایہ؛ گھٹیل؛ شُدر۔
اگر ان الفاظ کے ماضی اور تاریخ کو کھنگالا
جائے تو پوری ایک تہذیبی دنیا آئنہ ہو کر سامنے آ جائے گی۔ انسانی رشتوں اور طبقاتی
حقیقتوں کی طلسمِ ہوشربا کاایک دفتر کھل جائے گا۔ باقی الفاظ کی طرح، اشراف اور اجلاف
کے الفاظ بھی انسان اورا نسانی رشتوں کو بناتے، بگاڑتے اور ان کا تعین کرتے ہیں۔ انھوں
نے انسانوں کو نہ صرف اشراف اور اجلاف بنایا، بلکہ انھیں اشرافی اور اجلافی دنیاؤں
میں تقسیم بھی کیا اور قید بھی کیا۔ یہ تقسیم بہت حقارت آمیز اور یہ قید بہت صبر آزما
تھی، اور کسی نہ کسی صورت میں ابھی تک جاری ہے۔ ایک طویل سعی و کوشش اور جد و جہد کے
بعد، جس میں لاتعداد چھوٹے اور بڑے انقلابات شامل ہیں، خاصی حد تک اب یہ الفاظ ماضی
کی یادگار بن کر رہ گئے ہیں۔ تاہم، ان کی باقیات کا اثر ابھی تک جوں کا توں موجود ہے۔
بلکہ ہوا یوں کہ اشراف اور اجلاف کا کچھ مفہوم کچھ دوسرے لفظوں میں منتقل ہو گیا۔ ”عوام“
کا لفظ، ان لفظوں میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے، جو بعد ازاں، ”اشراف“ اور ”اجلاف“ کے
جانشین قرار پائے۔
اشراف و اجلاف اور عوام کے الفاظ کے درمیان
ربط و تعلق کو سمجھنے کے لیے، مذکورہ لغات میں ”عوام“ کے لفظ پر نظر ڈالتے ہیں۔ ”فیروزاللغات“
کے مطابق ”عوام“ کا مطلب ہے:عامہ کی جمع۔ عام لوگ؛ مخلوق۔ رعایا؛ پرجا۔ جہلا؛ جاہل
آدمی؛ بازاری لوگ۔ عوام الناس: تمام آدمی؛ عام لوگ؛ بازاری آدمی۔ عوام کالانعام: عام
لوگ مثلا چوپایوں کے ہیں۔ عوامی: عوام سے منسوب۔ عام لوگوں کی؛ جمہوری۔ ”نوراللغات“
میں ”عوام“ کا مطلب یوں بیان کیا گیا ہے:عام لوگ۔ خواص کا مقابل۔ عوام الناس: تمام
لوگ۔ عام آدمی۔ بازاری آدمی۔ جاہل۔ ”فرہنگِ آصفیہ“ میں یہ مطلب درج ہے: عام لوگ؛ تمام
آدمی؛ خلق اللہ؛ مخلوق۔ رعایا؛ پرجا۔ بازاری آدمی؛ جہلا؛ جاہل آدمی؛ ردواکھدوا۔ عوام
الناس: عام لوگ۔ تمام آدمی۔ ہمہ شما۔
یوں نہ صرف الفاظ و لغات کی دنیا میں، بلکہ
حقیقی دنیا میں بھی ایک طرف اجلاف اور عوام ہیں، اور دوسری طرف اشراف ہیں۔ یہ وہی تقسیم
ہے، جسے حاکم اور محکوم کی تقسیم کا نام دیا جاتا ہے۔ تاریخِ انسانی میں یہ تقسیم کسی
نہ کسی صورت میں ہمیشہ باقی و موجود رہی ہے۔ حتیٰ کہ آج کے جدید دور میں بھی، جبکہ
ایک آئینی ریاست وجود رکھتی ہے، اشراف اور عوام کا یہ فرق اور امتیاز پہلے کی طرح جما
کھڑا ہے۔ یہ غالباً انسانوں کے اندر سرایت کر گیا ہے، اور ان کے خون میں شامل ہو گیا
ہے۔ یہی سبب ہے کہ بالخصوص ہر وہ شخص، جسے اجلاف یا عوام کے زمرے میں رکھ دیا جاتا
ہے، یا وہ خود کواجلاف کے طبقے میں محصور پاتا ہے، اس کی ساری زندگی کی تگ و دو کا
مرکز و محور یہ چیز بن جاتی ہے کہ کسی طرح وہ عوام میں سے نکل کر اشراف میں شمار ہو
جائے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب پاکستان میں پہلی پہلی موٹر وے کا افتتاح ہوا تھا۔
ایک ٹی وی چینل کا رپورٹر اپنے کیمرے سمیت لاہور کی ایک سڑک پر موٹر وے کے بارے میں
لوگوں کے تاثرات جاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ ایک کار چلاتے آدمی سے موٹر وے کے بارے
میں سوال کرتا ہے۔ اس آدمی کا جواب مجھے آج تک یا دہے۔ وہ کہتا ہے: ”اس موٹر وے کا
عوام کو تو کوئی فائدہ نہیں!“
اس آدمی کی رائے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ
کیونکہ وہ کار میں بیٹھا ہے، سو وہ تو اشراف میں سے ہے، اور موٹر وے کا فائدہ اشراف
ہی کو ہے، جو کاروں کے مالک ہیں۔ فرض کریں اگر وہ آدمی ”کار“ کو اشراف کی پہچان نہ
بھی سمجھتا ہو، پھر بھی اتنا تو واضح ہے کہ وہ خود کود عام لوگوں یا عوام میں نہیں،
اشراف میں شمارکرتا ہے۔ بلکہ دیکھا جائے تو ہر آدمی جب بھی عوام کا لفظ استعمال کرتا
ہے، وہ خود کو ”عوام“ میں سے علاحدہ کر لیتا ہے۔ یہ تو عام لوگوں کی بات ہے، جہاں تک
خاص لوگوں کی بات ہے، یا وہ لوگ جوخود کو خاص سمجھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ وہ عام
لوگوں سے یا عوام سے بلند اور ماورا ہیں۔ انھیں خواص سمجھ لیں۔ یہ خواص یا خاص لوگ
کس طرح اور کیونکر بنتے ہیں، اس معاملے پر پھر کبھی بات ہو گی۔ یہاں صرف اشراف اور
عوام کی تقسیم زیرِ بحث ہے۔
اب چونکہ پاکستان کے اشراف نے خود کو بالخصوص
ریاست کے سر پر، یا ریاست کی قیمت پر، یا ریاست کی بدولت، خاص اور خواص بنایا، لہٰذا،
پاکستان کا ہر فرد، بالخصوص، عام فرد، بے چارہ اسی تڑپ کا شکار بنا رہتا ہے کہ کسی
نہ کسی طرح وہ ریاست سے وابستہ ہو جائے۔ ریاست سے اس کی وابستگی کا مطلب یہ ہے کہ وہ
کسی نہ کسی طور، کسی نہ کسی سطح کے ریاستی اختیار و اقتدار کے ساتھ منسلک ہو جائے۔
یوں وہ خواص میں شمار ہو گا، اور اشراف بن جائے گا۔ اور جیسے ہی وہ کسی سطح کے ریاستی
اختیار و اقتدار سے جڑتا ہے، وہ وہی کچھ کرنے لگتا ہے، جو وہ خواص اور اشراف کو کرتے
دیکھتا رہا ہے۔ ان میں سب سے اہم چیز ہے، قانون سے انحراف۔ وہ خود کو قانون سے بلند
اور ماورا سمجھنے لگتا ہے۔ یہ خاصیت، اشراف کی پرانی باقیات میں سے ہے۔ اشراف کے قدیم
طبقات خود قانون ہوتے تھے؛ وہ خود قانون کی پیروی کیونکرکر سکتے تھے۔
اشراف کے موجودہ طبقات بھی اسی سوچ اور
فکر کے حامل ہیں۔ پرانے اشراف کی طرح، آج کے جدید اشراف بھی اسی زعم میں مبتلا ہیں
کہ وہ ’عالی خاندان؛ عالی نسب؛ ذی رتبہ؛ ذی عزت لوگ۔ مہذب اور شائستہ لوگ؛ اور رئیس؛
امیر زادے؛ جنٹلمین‘ ہیں۔ جبکہ وہ پرانے اشراف کی طرح، عام لوگوں کو کمینے، سفلے، شودر،
ذلیل پیشوں کے لوگ؛ رذیل؛ کمینے؛ سفلے؛ کمین؛ فرومایہ؛ گھٹیل‘ سمجھتے ہیں۔ یہی سبب
ہے کہ عام لوگ، اشراف بننے کی جھوٹی جدوجہد میں اپنی ساری زندگی ضائع کر دیتے ہیں،
تاکہ وہ بھی اشراف بن کر عالی خاندان، عالی نسب، ذی رتبہ، ذی عزت، مہذب، شائستہ، رئیس،
امیر زادے اورجینٹلمین بن جائیں! پاکستان کے عام لوگوں، نچلے طبقات، اور خاص طو پر
متوسط طبقے اور اس کی مختلف پرتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی زندگی بیشتر اسی کوشش
سے عبارت ہے۔ وہ اپنی زندگی نہیں، بلکہ پاکستانی اشرافیہ کی زندگی جینے کی کوشش میں
جھوٹی زندگی جی رہے ہیں۔ پاکستان کے لوگوں کو اس جھوٹی تقسیم کے طلسم سے باہر نکلنا
چاہیے، اور اپنی اصل زندگی کی طرف لوٹنا چاہیے۔ یہ زندگی ان کے انتظار میں ہے!
نوٹ: یہ کالم 26 جون، 2013 کو روزنامہ مشرق پشاورمیں شائع ہوا۔