[پشاور میں مسیحی
شہریوں کے قتلِ عام پر بے بسی کا اظہار]
(میں سوچتا ہوں اگر شاعری نہ کر سکتا تو ہو سکتا ہے کچھ اور سوچتا اور
عملاً کچھ کرتا کہ پاکستان کو ایک قتل گاہ سے گہوارۂ امن و سکون کیسے بنایا جائے۔)
قاتلوں نے شہر پر قبضہ کیا اچھا کیا
زندگی کی بزم کو چلتا کیا اچھا کیا
وہ جو رنگا رنگ تھیں رنگینیاں سی جا بجا
ہائے بد رنگی انھیں بھدا کیا اچھا کیا
چشمۂ شفاف پھیلاتے تھے ہر سو تازگی
دھوئیں تلواریں انھیں گدلا کیا اچھا کیا
تیشۂ سنگین سے ٹکرائی جو شمع کی لوَ
غیض نے سورج کو ہی بُجھتا کیا اچھا کیا
کونسا پہلے یہاں بہتی تھیں نہریں دودھ کی
ہر روش کو خون آلودہ کیا اچھا کیا
[22 ستمبر، 2013]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں