ایک تاثر عام ہے کہ جو بیٹا زیادہ کماتا ہے، ماں اس کا زیادہ خیال رکھتی ہے۔ مگر کراچی جتنا کماتا ہے، پاکستانی ریاست نے اسے اتنا ہی بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے!
اسی طرح، کراچی ایک اور تاثر کو بھی جھٹلاتا ہے۔ سمجھا جاتا ہے غربت اور بے مائیگی جرم کو جنم دیتی ہے۔ دیکھا جائے تو کراچی میں دولت کی تخلیق نے جرم کو بہار بخشی ہے۔ اس معاملے پر تھوڑا رکتے ہیں۔ پچھلے سال ایک خبر نظر سے گذری تھی۔ ’کراچی میں بہت سے مزدوروں نے جامعۂ بنوریہ میں فتوے کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ جس طرح اسلام میں مرتے ہوئے شخص کے لیے حرام کھانا جائز ہے، اسی طرح انھیں مہنگائی میں جان بچانے کے لیے چوری ڈکیتی کی اجازت دی جائے۔ مہتمم جامعۂ بنوریہ، مفتی محمد نعیم کے مطابق علما مل کر لائحۂ عمل طے کر رہے ہیں۔‘ اگر یہ اجازت مل جاتی ہے تو ’چوریوں ڈکیتیوں سے رسے بسے کراچی‘ کا دائرہ پورے ملک تک پھیل جانے کا خاصا امکان ہے۔ تاہم ایسے فتوے کا امکان غالباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہاں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ کراچی میں غربت بڑھ رہی ہے، تبھی تو اس فتوے کے لیے درخواست دی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں، ایسا نہیں ہے۔ یقیناً ایک تعداد ایسی ہے، جو ایک خاص معیار سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، اور یہ تعداد چاہتی ہے کہ، کیونکہ اسے اپنے معیارِ زندگی کو تیزی سے اوپر لے جانے کے مناسب مواقع مل نہیں رہے، لہٰذا اسے چوری اور ڈکیتی کی آزادی دی جائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ آزادی مل جاتی ہے تو یہ کن لوگوں کو لوٹیں گے۔ مراد یہ کہ کراچی میں ایسے متمول لوگ موجود ہیں، جنھیں لوٹ کر یہ غیر متمول لوگ اپنا معیارِ زندگی بلند کر سکتے ہیں، یا اپنے بڑھتے ہوئے اخراجات پورے کر سکتے ہیں۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ اگر کراچی میں، یا پاکستان میں سب کے سب لوگ ان لوگوں جیسے ہوتے، جواس فتوے کے طلبگار ہیں، تو اس فتوے کے لیے درخواست نہ دی جاتی۔ تب تو حالات انتہائی دگرگوں ہوتے!
ایک بات اور غور طلب ہے کہ اس خبر کو نہ صرف فتوے کے طلب گار لوگوں بلکہ ”غریبوں“ کے حق میں بھی ہمدردی جگانے اور بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا: لیں دیکھیں جی، غربت کتنی بڑھ گئی ہے، اب لوگ چوری ڈکیتی کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ آپ خود بھی اس خبر کو کسی کے سامنے رکھ کر دیکھیں، اس کا ردِ عمل یہی ہو گا کہ بس غریب مر رہا ہے، غربت کتنی زیادہ ہو گئی ہے۔ کوئی یہ نہیں کہے گا کہ اخلاقیات کا نام و نشان مٹتا نظر آ رہا ہے۔ پاکستان میں اخلاقی قدریں ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔
اس کا ایک اور ثبوت خود یہ چیز ہے کہ یہ مزدور اور بے مایہ لوگ تو شاید کچھ شریف نکلے کہ فتوے کی درخواست لے کر ایک جامعہ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ کراچی میں بہت سوں نے یہ تدبیر کی ہے کہ گروہ یا سیاسی پارٹی بن جاؤ اور طاقت کے زور پر چوری ڈکیتی کرو۔ لیکن ان میں اور فتوے کے طلب گار مزدوروں میں ایک فرق ہے: مزدور، بے مایہ اور ضرورت مند ضرور ہوں گے، یہ سیاسی گروہ والے قطعاً بے مایہ اورضرورت مند نہیں۔ مگر ان دونوں میں ایک بات مشترک بھی ہے: انھوں نے خود محنت اور ایمانداری سے کمانے کے بجائے دوسروں کی دولت پر ”حق“ جتانے کو ترجیح دی ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ یہ مزدور، جامعہ سے کہہ رہے ہوتے کہ ہمیں چھوٹا موٹا کاروبار کروا دیں، ہم آپ کا اصل زر واپس لوٹا دیں گے۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ دونوں انداز کی لوٹ مار، یعنی ’جائز‘ اور ’ناجائز‘ چوری اور ڈکیتی، کب تک چل سکتی ہے۔ کتنی دولت موجود ہے، جو اس طرح تقسیم ہوتی رہے گی اور کب تک تقسیم ہوتی رہے گی؟ سوال یہ ہے کہ کیا ایک مستقل بندوبست کے طور پر یہ تو نہیں ہو گا کہ معاشرے میں کچھ لوگ کمائیں اور کچھ بیٹھ کر کھائیں۔ جیسا کہ اردو میں کہا جاتا ہے: کمائے گی دنیا کھائیں گے ہم۔ اور ایسا بھی کب تک چلے گا۔ جو کمانے والے ہیں، وہ بھی ایک دن بغاوت کر دیں گے۔ یا وہ بھی اس ترغیب کا شکار ہو جائیں گے کہ ہم بھی چوری ڈکیتی کا کام کرتے ہیں۔ بالآخر دولت کی تخلیق کا عمل مکمل طور پر سبوتاژ ہو جائے گا۔
اس ضمن میں ایک اور چیز بھی نہایت خطرناک ہے، جس نے معاشرے کے تانے بانے کو بکھیرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ یہ ہے نفسیات۔ جرائم کو جواز مہیا کرنے میں نفسیات کا بہت کردار رہا ہے۔ قتل، چوری، ڈکیتی، اور اسی طرح کے دوسرے جرائم کے لیے نفسیاتی وجوہات تراشی گئیں اور پھر وکلا نے ان کا خوب فائدہ اٹھایا۔ گویا نفسیات نے اخلاقیات اور قانون دونوں کی جڑوں کو کاٹنے کی کوشش کی۔ سوشلسٹوں اوربائیں بازو نے تو نفسیات کو ’نسخۂ کیمیا‘ کی طرح استعمال کیا۔ اور غربت کے حیلے کو ایک ’آفاقی حیلہ‘ بنا دیا۔
اسی طرح، ’سیاست‘ کے ہمہ گیر جواز نے ہر جرم کو انتقام کی کٹھالی میں ڈھال کر سونا بنا لیا۔ پورے پاکستان میں یہاں وہاں خوب سونا بن رہا ہے۔ قانون اور عدل، جس سیاست دان اور جس سرکاری کارندے پر ہاتھ ڈالتے ہیں، وہ ”سیاسی اتنقام“ کی چھتری تان لیتا ہے۔ بلکہ خیر ہوئی کہ سونا بنانے کا ایک سہل نسخہ (این- آر- او) بیچ بازار رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، اور رجسٹر نہ ہو سکا۔ مگر سونابنانے والے، یعنی سیاست دان اور سرکاری لٹیرے باز نہیں آئے، اس نسخے کو نئے احتسابی ضابطے کے لبادے میں پھر کارآمد بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بائیں اور دائیں دونوں بازؤوں کی سیاست نے اخلاقیات کی جڑیں کاٹنے میں انتہائی مجرمانہ کردار ادا کیا ہے۔ کراچی اس کا سب سے بڑا نمونہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ زندگی دوسروں کے لیے گذارتے ہیں یا اپنے لیے۔ آپ کہیں گے ہم زندگی دوسروں کے لیے بھی گذارتے ہیں۔ درست ہے، مگر یہ فیصلہ بھی آپ خود کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی زندگی اپنے لیے گذارنی ہے یا دوسروں کے لیے۔ جیسے عبدالستار ایدھی نے یقیناً اپنی زندگی دوسروں کے لیے گذارنے کا فیصلہ خود کیا ہو گا، کسی نے انھیں مجبور نہیں کیا۔
اسی طرح، یہ سوال بھی اتنا ہی اہم ہے کہ ہم اپنے لیے کماتے ہیں یا دوسروں کے لیے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کراچی یا پورے پاکستان کے شہری اپنے لیے کماتے ہیں یا دوسروں کے لیے۔ مراد یہ کہ ہم اپنے لیے دولت تخلیق کرتے ہیں یا دوسروں کے لیے۔ اس پر تو آپ غالباً یہ کہیں گے کہ اپنے لیے اور اپنوں کے لیے۔ اور یقیناً اس پر حق بھی پھر آپ ہی کا ہے۔ آپ کی اس کمائی اور دولت پر ان جائز یا ناجائز چوریاں اور ڈکیتیاں کرنے والوں کا قطعاً کوئی حق نہیں۔ ہاں، آپ رضاکارانہ طور پر اپنی اس کمائی اور دولت سے ان کی مدد کرنا چاہیں تو یہ آپ کا انسانی جذبۂ ہمدردی ہو گا۔ یہ مدد ان کا کوئی حق نہیں، جیسا کہ پاکستان میں سمجھا جانے لگا ہے۔ بالخصوص جن لوگوں کو مدد درکار ہوتی ہے، وہ بڑی دیدہ دلیری سے ایسا سمجھنے لگے ہیں۔
خود یہ دیدہ دلیری بھی اسی چیز کا ثبوت ہے کہ پاکستان سے ہر طرح کی اخلاقیات کافور ہو چکی ہے۔ اور نجی ملکیت کا تصوراور تقدس پامال ہو کر رہ گیا ہے۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے، جب میں یہ پڑھتا ہوں کہ اٹھارویں صدی کے انگلینڈ میں چوری کی سزا موت تھی۔ بلاشبہ جیسے جیسے نجی ملکیت کے تصور اور تقدس دونوں کو تقویت ملی تو یہ سزا غیرمروج ہو گئی ہو گی۔ مراد یہ کہ جب لوگ نجی ملکیت کے تحفظ میں اپنی ملکیت کے تحفظ کی ضمانت بھی موجود دیکھنے لگے اور یوںان میں نجی ملکیت کے تصور کا تقدس راسخ ہوگیا، تو اس سزا کی ضرورت زائل ہو گئی ہو گی۔ تاہم، کراچی کے موجودہ حالات یہ بتا رہے ہیں، اور سپریم کورٹ نے بھی اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے کہ کراچی میں امن وامان اور قانون کی حکمرانی کو ریاست، سیاست، حکومت تینوں بڑی دیدہ دلیری سے اپنے پاؤں تلے روند رہی ہیں۔ ایسے میں کراچی کے اخلاقی مقدر کاسوال کتنا بے معنی بن جاتا ہے!
[بلاگ: یہ کالم 6 نومبر، 2012 کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں