فلسفی جان ڈیوی کا کہنا تھا کہ انسانیت کا نہایت اہم مسئلہ اکٹھے مل کر رہنا ہے۔ یعنی انسانوں کا اجتماع کی صورت میں رہنا۔ اس مسئلے سے کسی بھی صورت فرار ممکن نہیں، اور اس کا کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈنا لازمی ہے۔ جب ایک گھر میں چند افراد مل کر رہتے ہیں تو لاتعداد اختلافات جنم لیتے ہیں، اوریوں نئے سے نئے مسائل بھی۔ چونکہ سب جانتے ہیں کہ اکٹھے مل کر رہنا ہے، لہٰذا، وہ اختلافات کا کوئی حل نکالتے اور مل کر رہتے ہیں۔ یا پھر اگر وسائل کے اعتبار سے اور جذباتی طور پر وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ علاحدہ گھر بنا اور بسا لیں تو ایک نیا گھر بن اور بس جاتا ہے۔ پر اس صورت میں بھی، اگر تعلقات خراب ہیں تو اب یا تب بہتر کر لیے جاتے ہیں، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ وہ آپس میں رشتوں اور انسانی تعلقات میں جڑے ہوئے ہیں۔ ملک بھی قریب قریب اسی طرح بنے، اور پھیلے۔ پاکستان بھی ایسے ہی بنا اور پھر بنگلہ دیش بھی۔
قدیم انسان کے ساتھ ایسے ہی مسائل پیش آئے ہوں گے۔ جب کسی قبیلے یا کمیونیٹی میں اختلافات پیدا ہوئے اور بڑھے ہوں گے تو ان کا تصفیہ کرنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈا گیا ہو گا۔ بڑا مسئلہ اس وقت کھڑا ہوا ہو گا، جب کسی نے دوسرے کو کسی اختلاف کی بِنا پر قتل کر دیا ہو گا۔ اسی طرح، چوری کا معاملہ ہو گا۔ کسی نے کسی دوسرے کی کوئی شے چوری کر لی ہو گی۔ یہ دو بڑے اہم مسائل تھے، قتل اور چوری۔ سب سے پہلے جو دو اخلاقی اصول وضع ہوئے، وہ یہی ہیں: قتل نہ کرو، چوری نہ کرو۔ یہ ایسے بڑے مسائل تھے کہ اکٹھے رہنے کے لیے ان کا کوئی حل تلاش کرنا ناگزیر تھا، وگرنہ ہر کوئی ہر دوسرے کو قتل کرتا رہتا، یا اس کی اشیا، چوری کرتا رہتا۔
ان کے پیچھے اصل معاملہ ایک ہی تھا: کیا کسی کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی کی جان لے اور اس کی اشیا، چوری کرے۔ اس بات کا واضح انکار کیا گیا۔ اس وقت کے انسان کی نظر میں اس کی جو بھی وجوہات رہی ہوں، یہ بات صاف ہے کہ اگر ہر کوئی ہر کسی کی جان یونہی لیتا رہتا، کسی دوسرے کی چوری کرتا رہتا، تو انسانوں کا اکٹھے مل کر رہنا ناممکن ہو جاتا۔ یا اگر چند لو گ بھی ایسا کرتے، تو سماجی زندگی ممکن نہ ہو پاتی۔ سو، اول اول یہ دو اصول وضع ہوئے، اور انھیں اخلاقی اصول مانا گیا۔ یوں، قتل اور چوری، فرد کا اختیار نہیں رہے۔ یہ مان لیا گیا کہ کوئی کسی کو قتل نہیں کرے گا، اور کوئی کسی کی چوری نہیں کرے گا۔
یہ ابتدائی اصول تھے، اور شروع میں ان کی پیروی کی گئی ہو گی۔ تاہم، ایسا بھی ہوا ہو گا کہ کچھ لوگوں نے ان سے انحراف کیا ہو گا۔ کسی دوسرے کی جان بھی لی گئی ہو گی اور چوری بھی کی گئی ہو گی۔ اب کیا کیا جائے۔ انسان نے سوچا ہوگا ان اصولوں کے ساتھ مخصوص سزائیں جوڑ دی جائیں۔ جیسے کہ قتل یا چوری کرنے والے کو کمیونیٹی سے نکال دیا جائے، یا اس کا مال ضبط کر لیا جائے۔ یا ہو سکتا ہے کہ پہلے ہی یہ اصول بن گیا ہو کہ قتل کا بدلہ قتل ہے، اور چوری کی صورت میں مال کی واپسی، جرمانہ، یا مال کی ضبطی، وغیرہ۔ جو بھی صورت رہی ہو، قتل اور چوری کے معاملات کی چھان بین اور پھر سزا کے تعین کے لیے کمیونیٹی میں سے کچھ لوگوں کو چُن لیا گیا ہوگا۔ ایک پنچایت یا کونسل بن گئی ہو گی۔ یا کسی کو سردار مان لیا گیا ہوگا۔
اب جو بھی کسی کی جان لیتا یا چوری کرتا، وہ اس فرد اور کمیونیٹی کے ساتھ ساتھ، اس کمیونیٹی کے نمائندہ بندوبست کا مجرم بھی قرار پاتا۔ یہ بندوبست اسے مجوزہ سزائیں دے سکتا تھا، جن میں جان کے بدلے جان، دیس نکالا، جرمانہ، مال کی ضبطی، شامل تھے۔ اس پیش رفت کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو فرد، کسی کی جان لیتا یا چوری کرتا، یہ بندوبست اسے سزا دیتا۔ دوسرے یہ کہ جس فرد کی جان لی جاتی یا چور ی ہوتی، اب اسے یا اس کے خاندان کو خود بدلہ لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ یوں، مقتول کے لواحقین یا متاثرہ لوگ خود قاتل کی جان لینے یا اس کا مال ضبط کرنے کا اقدام نہ کرتے۔ یہ بندوبست، قاتل اور چور کو سزا (بشمول جرمانہ، وغیرہ) دے کر اس خاندان کو انصاف مہیا کرتا۔ یعنی کسی فرد کی جان لینا اوراس کے مال کی چوری، اب پوری کمیونیٹی کا مسئلہ تھی۔ وجہ یہ ہے کہ اگر جان لینا اور چوری، پوری کمیونیٹی کے مسئلے نہ سمجھے جائیں تو اکٹھے مل کر رہنا ناممکن ہو جائے۔
اس بندوبست کے مضمرات بہت دور رس تھے۔ اس نے اکٹھے مل کر رہنے کی صورت میں انسانوں کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوتے، انھیں حل کرنے کا راستہ نکالا۔ یعنی اس نے انسانوں کے لیے اکٹھے مل کر رہنا ممکن بنایا۔ انسانوں کے درمیان جو تنازعات کھڑے ہوتے، اور ان کے نتیجے میں جو تصادم واقع ہوتے، انھیں روکنے، یا ان کے واقع ہونے کی صورت میں ان کی تلافی کا طریقہ قائم کیا۔ دیکھا جائے تو انسانوں کے درمیان یہ اختلافات اور تنازعات، حقیقتاً دوچیزوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلی چیز ہے، انسان کی جان، اور دوسری چیز ہے اس کا مال۔ یعنی اس بندوبست نے انسان کو جان ومال کا تحفظ مہیا کیا۔ آگے چل کر یہ اختلافات نہایت پیچیدہ ہو گئے، اور بات فکری، سیاسی، اور اعتقادی اختلافات تک جا پہنچی۔ اور اس بِنا پر بھی افراد اور افراد کے گروہوں نے قتل و غارت گری شروع کر دی۔
یہ یہی ابتدائی بندوبست تھے، جو بڑھتے بڑھتے ریاست کی صورت میں تبدیل ہوئے۔ یوں، ریاست کا اولین فریضہ یہی فرد کی جان ومال کی حفاظت قرار پایا۔ دوسرے الفاظ میں ریاست کا اولین فریضہ یہ طے ہوا کہ اپنے شہریوں کے درمیان پیدا ہونے والے ہر نوع کے اختلافات اور تنازعات کا تصفیہ کرے۔ تصفیے سے مراد یہ ہے کہ جو بھی اختلافات اور تنازعات ہوں، وہ تصادم کی حد تک نہ پہنچیں۔ اگر تصادم واقع ہوتا ہے، کسی فرد کی جان اور مال کا نقصان ہوتا ہے تو ریاست انصاف مہیا کرے اور اس کی تلافی کرے۔ یہ تو بعد کی بات ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ریاست، ہرشہری کی جان ومال کی حفاظت کی ذمے داری اٹھائے، اور اسے قاتلوں اور چوروں سے تحفظ مہیا کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کسی بھی صورت کسی فرد کو کسی دوسرے فرد کی جان لینے یا اس کی چوری کا اختیار نہ دے۔ یعنی ابتدائی بندوبست کی طرح ریاست یہ اختیار اپنے پاس رکھے۔ اگر ایک طرف ریاست فرد کی جان ومال کی محافظ بنے تو دوسری طرف اگر کوئی فرد کسی فرد کی جان لیتا ہے یا چوری کرتا ہے، تو اسے سزادینے کا اختیار بھی اپنے پاس رکھے۔
تاریخ میں ایسی ریاستیں بھی ملتی ہیں، جو افراد یا افراد کے گروہوں کے مابین اختلافات اور تنازعات کا تصفیہ کرنے کی جگہ خود ایک فریق بن بیٹھیں۔ تاہم، یہ کامیاب اور موثر ثابت نہ ہوئیں؛ کیونکہ انھوں نے اختلافات اور تنازعات کو مزید بھڑکایا۔ اصل میں ریاست کے خود فریق بن جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے افرادکی جان لینے اور ان کے مال کی چوری کا اختیار نہ صرف ایک مخصوص فریق کو دے دیا، بلکہ قتل اور چوری میں اس کے ساتھ شریک بھی بن گئی۔ جبکہ ریاست کا اولین فریضہ یا وظیفہ، افراد کے درمیان اختلافات اور تنازعات کا تصفیہ کرانا ہے۔ مراد یہ کہ ریاست اپنے شہریوں کی جان ومال کی امانت دار اور محافظ بھی ہے، اور ان شہریوں کی جان ومال کو نقصان پہنچانے والے قاتلوں اور چوروں کو روکنے اور سزا دینے والی بھی۔
ابتدا ئی بندوبست، افراد کی جان ومال کا امانت دار تھا، اورکسی بھی صورت کسی کو کسی کی جان لینے یا کسی کی چوری کا اختیار نہ دیتا تھا، اور یہ اختیار اپنے پاس رکھتا تھا۔ یعنی یہ بندوبست اس بات کا ذمے دار تھا کہ نہ کوئی کسی کی جان لے، نہ کسی کی چوری کرے۔ یہ بندوبست اس بات کا بھی ذمے دار تھا کہ کوئی کسی قاتل یا چور کو خود سزا نہ دے۔ مراد یہ کہ یہ دونوں اختیار، ریاست کا حق ہیں۔ جیسے پرانا بندوبست افراد کی جان ومال کی حفاظت اورقاتلوں اور چوروں کو روکنے اور سزا دینے کا کام کچھ مخصوص روایات اور اصولوں کے مطابق انجام دیتا تھا؛ اسی طرح، آج کی ریاست کا بندوبست، شہریوں کی جان ومال کی حفاظت اور قاتلوں اور چوروں کے تدارک اورانھیں سزا دینے کا کام قانون اور ضابطوں کے مطابق انجام دیتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ ابتدائی بندوبست کی روایات اورا صول منصفانہ تھے یا نہیں، آج کے قانون اور ضابطے، فطری انصاف کے اصول پر مبنی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی جیسی بھی صورت ہو، اختلاف اور تنازعہ جیسا بھی ہو، کسی کی جان لینے کا حق کسی فرد، کسی گروہ کو نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح، قاتلوں اور چوروں کی جان لینے اور مال ضبط کرنے کا حق صرف ریاست کے پاس ہے۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو وہی کچھ ہو گا، جو اس وقت پاکستان میں ہو رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ ایسے ہی ہوتا رہے گا، جب تک کوئی سیاسی پارٹی اس اصول کو اپنے منشور کا حصہ نہیں بناتی کہ جان لینا صرف ریاست کا حق ہے، فرد، یا افراد، یا افراد کے کسی گروہ کا ہرگز نہیں، اوراس اصول کی بنیاد پر نئی قانون سازی نہیں کرتی تاکہ پاکستان کی ریاست اپنے ہرشہری کی جان ومال کی امانت دار اور محافظ بنے!
[یہ کالم 8 مارچ کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں