ہفتہ، 18 اپریل، 2015

چین کدھر؟ یا پاکستان کا بایاں بازو کدھر؟

کل 17 اپریل کو میں ریاض صاحب سے ملنے گیا۔ ریاظ ، مصورہیں اور بیشترعلمی و ادبی کتابوں کے سرورق کھینچتے ہیں۔ وہ کہنے لگے، الحمرا (مال روڈ،لاہور) میں ڈاکٹر لال خان کی کتاب کی رونمائی کی تقریب ہے، اگرآپ نہیں چاہتے تو نہیں جاتے؛ورنہ چلتے ہیں۔ میں نے کہا، کوئی بات نہیں، چلتے ہیں۔ یہ تقریب الحمراہال تین میں تھی۔ ہم کوئی آدھ گھنٹے کی تاخیر سے پہنچے۔ تقریب کا آغاز ہو چکا تھا، اور جو صاحب سٹیج سنبھالے ہوئے تھے، جن کا نام بعد میں پتہ چلا آفتاب ہے، وہ کچھ کلمات ادا کر رہے تھے۔ انھوں نے کسی کو مدعوکیا، اورانھوں نے کسی اور کی ایک انقلابی نظم پڑھی۔


ایک بات جومجھے فوراً محسوس ہوئی، یہ تھی کہ بیٹھے ہوئے کوئی پچاس ساٹھ کے قریب، حاضرین کو بھی کامریڈ سمجھا اور کامریڈ کہہ کر مخاطب کیا جا رہا تھا۔ پھر کامریڈ عمران کمیانہ کو بلایا گیا۔ انھوں نے چین کے سوشلٹ انقلاب کوتہہِ تیغ کیا؛ بلکہ ماؤزے تنگ کو بھی دھو ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی انقلاب اصل میں قومی جمہوری انقلاب تھا، اورکیونکہ ماؤ پربہت دباؤ تھا، سو اسے سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا پڑا، مگریہ سوشلسٹ انقلاب نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ انقلاب، ردِ انقلاب بن گیا ہے؛ اس نے سرمایہ داروں کے ساتھ صلح کر لی ہے، اورچین کو امریکہ کی آغوش میں پھینک دیا ہے۔

پھرایک نظم پڑھی گئی۔ اور پھر کامریڈ آدم پال کو بلایا گیا، جن کی گفتگوشروع اس بات سے ہوئی کہ ان کے تاخیر سے آنے کی وجہ یہ تھی کہ چیرنگ کراس، مال روڈ پر ٹریفک رکی ہوئی تھی، کیونکہ وہاں چینی کمیونسٹ پارٹی کے کوئی عہدیدار آ رہے تھے، ان کا استقبال ہونا تھا۔ اورچینی صدر، جو کوئی پینتالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لا رہے ہیں، اس کا گیت گایا جانا تھا۔ ان کا یہ عذرسن کرمیں نے ریاظ صاحب کی طرف دیکھا، وہ بھی مسکرا دیے۔ کیونکہ وہاں تو کسی گاؤں کے دو ڈھائی سوکے قریب لوگ چارپائیوں پر لاشیں اٹھائے براجمان تھے، اور پولیس اور حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ آج اخبار میں بھی یہی بتایا گیا ہے۔ یہ لوگ ننکانہ صاحب سے آئے تھے۔


کامریڈ آدم پال نے بھی چینی انقلاب کے بارے میں وہی کہانی اورتجزیہ پیش کیا، اور خاصے جوش وخروش کے ساتھ ۔ انھوں نے کچھ بہت اہم اورقاتل قسم کی مشابہتیں بھی سامنے رکھیں۔ جیسے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی اور چینی حکومت کے عہدیداروں کی کرپشن (بدعنوانی) کا حجم، امریکی کانگریس کے امیرترین لوگوں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ شاید انھوں نے ہی یہ بھی بتایا کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ جسم فروشی چین میں ہو رہی ہے۔

کامریڈ قاضی سعید نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا، جو صحافی ہیں۔ کامریڈ الیاس خان نے انقلابی گفتگو فرمائی۔

سٹیج پر جہانگیر بدر بھی موجود تھے، اور بے چین و مضطرب سے تھے۔ کیونکہ ہر مقرر، پیپلز پارٹی کے لتے ضرور لیتا تھا، اور ان کی طرف باقاعدہ اشارہ کیا جاتا تھا۔ میں بھی ان سے توقیر صادق کا حال چال پوچھنا چاہتا تھا، مگر چپ رہا۔ جب انھیں بلایا گیا تو انھوں نے ازحد بے معنی ان انمل بے جوڑ گفتگو فرمائی، جو تمام کی تمام گریزاورکھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف تھی۔ اسی اثنا میں پیپلز پارٹی کے غلام عباس بھی آ چکے تھے، اور حاضرین کے ساتھ بیٹھے تھے۔ پھر انھوں نے آ کر جہانگیر بدر کی بھی اور پیپلز پارٹی سمیت آصف زرداری ٹولے کی خوب خبر لی ۔

آخرمیں صاحبِ کتاب، ڈاکٹر لال خان کو بلایا گیا، جن کا خاندانی نام تنویر گوندل ہے، اور جنھیں ایک ایم- بی- بی- ایس ڈاکٹر ہونا چاہیے، کیونکہ وہ راولپنڈی میڈیکل کالج میں پڑھا کرتے تھے؛ مجھے یہ درست معلوم نہیں کہ انھوں نے میڈیکل کی ڈگری حاصل کر لی تھی یا نہیں۔

یہاں میں بھی ایک مشابہت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ جماعتِ اسلامی میں بھی ایسا ہی ہو گا، کیونکہ اسلامی جمیعتِ طلبہ میں تو ایسا ہی ہے کہ جب کسی کو”لیڈر“ بنانا مقصود ہو تو اس کا خاندانی نام تبدیل کر دیا جاتا ہے، اورکوئی بہت پرکشش نام رکھا جاتا ہے۔ ایم اے میں ہمارے ایک کلاس فیلو، جن کا نام رمضان ارشد جوئیہ تھا، جب انھیں طلبہ یونین کا انتخاب لڑانے کے لیے تیار کیا جانے لگا تو وہ ”رمضان ارشدجوئیہ“ سے ”منصورالاسلام“ ہو گئے۔ ڈاکٹر لال خان کے معاملے میں ایسا ہے،یا کیسا ہے، وہ خود بہتر بتا سکتے ہیں۔

لال خان نے بھی اپنی تقریر میں لگی بندھی باتیں کیں؛ ان کی تقریر بھی کوئی جلسے کی تقریر جیسی تقریر تھی۔

اس تقریب میں شامل ہونے سے ایک تو یہ واضح ہوا کہ پاکستان کے سوشلسٹوں نے چینی انقلاب سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے۔ بلکہ ماؤزے تنگ کو بھی ترک کر دیا ہے۔

پھر یہ گروہ، جو لال خان کی رہنمائی میں مجتمع ہے، خالص مارکس پسندی پر یقین رکھتا ہے۔ وہ اس انقلاب کے نام لیوا ہیں، ولادی میر لینن اور لیون ٹراٹسکی جس کے علم بردار تھے۔

بائیں بازو کا یہ گروہ، فاروق طارق کے گروہ، اور پھر بائیں بازوکے ان گروہوں سے جدا ہے، جو ”عوامی ورکرز پارٹی“ میں متحد ہیں۔ مجھے یاد ہے، جب میں ایک مرتبہ فاروق طارق سے ملا، تو وہ ایک اشاعتی ادارہ بھی قائم کیے ہوئے تھے اور ’’مزدور جدوجہد‘‘ نامی ایک رسالہ شائع کرتے تھے۔ لال خان کے گروہ کے اشاعتی ادارے کا نام اس سے تھوڑا مختلف ہے: طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز۔

لال خان کے گروہ کا یقین بھی یہی ہے کہ جب تک طبقات باقی ہیں، طبقاتی جدوجہد باقی ہے، اور جب تک طبقاتی جدوجہد باقی ہے، مارکس ازم باقی ہے۔

کتاب کی تقریب ختم ہوئی تو فیض احمد فیض کی شاعری گائی جانی تھی؛ ہم تو واپس چل پڑے۔ ہال کے دروازے پر ایک میز پر کتابیں رکھی گئی تھی، برائے فروخت۔ تقریب کے دوران میں میں نے ذہن بنا لیا تھا کہ مناسب قیمت ہوئی تو کتاب ”چین کدھر؟“ خرید لوں گا۔ لکھا ہوا موقف تو سامنے آ جائے گا۔ پہلے تو میں نے ساری کتابوں پر نظر ڈالی، اور یہ دیکھا کہ ان میں سے کتنی کتابیں، ترجمہ ہیں، کتنی اصل۔ کوئی ستر فیصد کتابیں ترجمہ تھیں۔ جو دوسری اصل کتابیں تھیں، وہ اسی طرح کی تھیں، جو چین یا روس سے تعلق رکھتی تھیں؛ پاکستان سے متعلق کوئی کتاب عنقا تھی۔ پھر ”چین کدھر؟“ کی قیمت پتہ کی تو پتہ چلا کہ اس کی قیمت پانچ صد روپے ہے، اور یہاں ڈھائی سو روپے میں مل سکتی ہے۔ میں نے قیمت زیادہ ہونے کی شکایت کی تو نوجوان کامریڈ نے کہا اس تقریب پر خرچ آیا ہے، وہ کیسے پورا ہو گا۔ میں نے کہا، ہم یہاں چندہ دینے تو نہیں آئے۔

جب ہم الحمرا کی طرف آ رہے تھے تو ریاض صاحب، اپنے موبائل فون کے ساتھ مصروف رہے، وہ کسی سے باتیں کر رہے تھے۔ واپسی پر وہ فارغ تھے۔ میں نے ان سے سوال نما باتیں شروع کر دیں:

اول: کامن سینس کہاں غائب ہو گئی ہے۔ مجھے بتائیے کہ یہ کتاب کی رونمائی کی تقریب تھی، یا پارٹی میٹنگ تھی، یا جلسۂ  عام تھا۔

دوم: بائیں یا دائیں بازوکے کسی اجتماع میں چلے جائیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ پارٹی میٹنگ ہے، اور آپ ان کے پیروکار۔ یہاں بھی تمام حاضرین کو ” کامریڈ“ سمجھا جا رہا تھا۔ تقریب کے متنظمین نے اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی کہ یہ کتاب کی تقریب ہے تو اسے کیسا ہونا چاہیے؛ اس میں تقریریں کیسی ہونی چاہییں؛ اس میں گفتگو کسی ہونی چاہیے۔ اس تقریب کا انداز کیسا ہونا چاہیے۔ کیا کسی کتاب کی رونمائی کی تقریب میں انقلابی نظمیں پڑھی جاتی ہیں، انقلابی جلسے والی تقریریں کی جاتی ہیں۔ یہ تقریب تو عجیب ملغوبہ تھی۔

سوم: ابتدا سے آج تک بائیں بازو نے، جن میں ہر طرح کے سوشلسٹ، کمیونسٹ، وغیرہ، شامل ہیں، کبھی پاکستان کے معاشرے اور یہاں کے لوگوں کے مسائل پر توجہ نہیں دی۔ وہ کلی طو ر پر سوشلسٹ نظریے کے آسیب میں گرفتار رہے ہیں۔ لال خان نے اپنی تقریر میں بتایا کہ انھوں نے 1989 میں روس پر ایک کتاب لکھی تھی، جس میں انھوں نے تین برس قبل پیشین گوئی کر دی تھی کہ روس ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا، اور روس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔

لال خان نے اپنی تقریر کا اختتام جلسے کے انداز میں کیا۔ ویسے ان کی کل تقریر جلسے کی تقریر تھی۔ انھوں نے کہا: وہ دن دور نہیں، جب اندھیرے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹ جائیں گے۔ دکھ درد ہمیشہ کے لیے دور ہو جائیں گے۔ وہ دن دورنہیں، جب مزدوروں کی حکومت قائم ہو گی، اور استحصال ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔

ایک آخری بات: سب مقررین کی گفتگو میں یہ بات مضمر تھی کہ روس اور چین کا انقلاب ناکام اس لیے ہوا کیونکہ پارٹی کی بیوروکریسی کی حکومتیں قائم ہو گئیں تھیں۔ سوال یہ ہے کہ مزدوروں، کسانوں کی براہِ راست حکومت کیونکر ممکن ہو گی؟ جو لوگ براہِ راست جمہوریت کے شیدائی ہیں؛ ان کا المیہ بھی یہی ہے۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ جب عام آدمی کی حکومت ہو گی، تب مسائل حل ہوں گے۔ کیا ایسا کبھی ممکن ہو سکتا ہے؟ اس سوال پرکسی نے دھیان نہیں دیا!

پاکستان کے بائیں بازو کے لوگ، مارکس اور مارکس پسندی کے عاشق ہیں، اور عاشق لوگ سودائی ہوتے ہیں، وہ حقیقت سے بےنیاز ہوتے ہیں، انھیں اپنی لیلیٰ سے کام سے کام اور سروکار ہوتا ہے، دنیا کچھ بھی کہتی، کچھ بھی کرتی رہے۔

پس نوشت: ایک اہم بات رہ گئی۔ متفقہ طور پر یہ بھی کہا گیا کہ نہ صرف چینی انقلاب معکوس ہو گیا ہے، بلکہ اس نے سامراج کا روپ بھی دھار لیا ہے!