بدھ، 19 نومبر، 2014

اشراف اور عوام کی تقسیم

الفاظ ہم خود بناتے، گھڑتے اور تراشتے ہیں۔ لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ جواباً الفاظ بھی ہمیں بناتے، تراشتے اور بگاڑتے ہیں۔ جیسے ایک شعر میں بیان ہوا ہے: کھلتا کسی پہ کاہے کو دل کا معاملہ / شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے۔ اور جیسے شاعر چاؤسر کا کہنا تھا:حکم نہ لگاؤ، کہیں تم پر حکم نہ لگ جائے۔ اسی طرح، الفاظ ہماری نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ہمارے عکاس ہوتے ہیں۔ یہ ہماری چغلی کھاتے ہیں۔ یہ ہمارے احساسات اور خیالات کو بے نقاب کرتے ہیں۔ الفاظ، ہماری دنیا اور ہماری زندگی کو بیان کرتے ہیں۔ یہ ہمیں زبان دیتے ہیں، یا یوں سمجھ لیجیے یہ ہماری زبان کو بولنا سکھاتے ہیں۔ الفاظ کے اندر تہذیب اور ثقافت کی تاریخ سموئی ہوتی ہے۔ یہ طرزِفکراور طرزِ حیات کی مٹھاس اور کڑواہٹ دونوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ یہ زندگی دیتے بھی ہیں، اورزندگی لے بھی لیتے ہیں۔ یہ ایک علاحدہ وجود، اور جداگانہ زندگی کے حامل ہوتے ہیں۔ ہمیں انھیں احتیاط سے برتنا چاہیے۔ یہ نازک آبگینے اور خطرناک نشتر ہوتے ہیں۔

آئیے ابتداً اس کالم سے تعلق رکھنے والے دو لفظوں پر توجہ دیتے ہیں۔ اشراف، اور اجلاف۔ فیروزاللغات کے مطابق ”اشراف“ کا مطلب ہے: شریف کی جمع ؛ بھلے مانس لوگ۔ عالی خاندان؛ عالی نسب؛ ذی رتبہ؛ ذی عزت لوگ۔ مہذب اور شائستہ لوگ۔ اشراف پاؤں پڑے کمینہ سر چڑھے: (مثل) شریف تو اپنی شرافت کی وجہ سے نرمی کرتا ہے اورکمینہ سر چڑھتا ہے۔ اشراف وہ ہے جس کے پاس اشرفی ہے: اس زمانے میں اشراف مالدار کو ہی سمجھا جاتا تھا۔ اسی لغت میں ”اجلاف“ کا مطلب بھی دیکھتے ہیں: جلف کی جمع۔ کمینے؛ سفلے؛ شودر؛ ذلیل پیشوں کے لوگ۔ اشراف کی ضد۔ نوراللغات میں اشراف کا یہ مطلب درج ہے: وہ لوگ جن کا حسب و نسب اچھا ہو۔ اشراف سے کمینے ہیں برتر تو کیا ہوا / گوہر بزیرِ آب ہے بالائے یم حباب (اسیر)۔ مثال کے لیے دیکھو آگے کا مقولہ۔ اشراف پاؤں پڑے کمینہ سر چڑھے: کمینہ شریف کی نرمی اور خوشامد پر الٹا اور دلیر ہو جاتا ہے۔ اشراف پرست: صفت، بھلے مانسوں کی قدر کرنے والا۔ اجلاف: اشراف کی ضد۔ رذیل؛ کمینے۔ اب ”فرہنگِ آصفیہ“ کی باری ہے۔ اس میں ”اشراف“ کا مطلب یوں بیا ن ہوا ہے: بھلا مانس؛عالی خاندان؛ رئیس؛ عالی نسب؛ امیرزادہ؛ ذی رتبہ؛ ذی عزت؛ جنٹلمین۔ سیدھا؛ بے کپٹ؛ غریب؛ نیک۔ مہذب؛ شائستہ۔ اور”اجلاف“ کا مطلب ہے: کمینے؛ سفلے؛ کمین؛ فرومایہ؛ گھٹیل؛ شُدر۔

اگر ان الفاظ کے ماضی اور تاریخ کو کھنگالا جائے تو پوری ایک تہذیبی دنیا آئنہ ہو کر سامنے آ جائے گی۔ انسانی رشتوں اور طبقاتی حقیقتوں کی طلسمِ ہوشربا کاایک دفتر کھل جائے گا۔ باقی الفاظ کی طرح، اشراف اور اجلاف کے الفاظ بھی انسان اورا نسانی رشتوں کو بناتے، بگاڑتے اور ان کا تعین کرتے ہیں۔ انھوں نے انسانوں کو نہ صرف اشراف اور اجلاف بنایا، بلکہ انھیں اشرافی اور اجلافی دنیاؤں میں تقسیم بھی کیا اور قید بھی کیا۔ یہ تقسیم بہت حقارت آمیز اور یہ قید بہت صبر آزما تھی، اور کسی نہ کسی صورت میں ابھی تک جاری ہے۔ ایک طویل سعی و کوشش اور جد و جہد کے بعد، جس میں لاتعداد چھوٹے اور بڑے انقلابات شامل ہیں، خاصی حد تک اب یہ الفاظ ماضی کی یادگار بن کر رہ گئے ہیں۔ تاہم، ان کی باقیات کا اثر ابھی تک جوں کا توں موجود ہے۔ بلکہ ہوا یوں کہ اشراف اور اجلاف کا کچھ مفہوم کچھ دوسرے لفظوں میں منتقل ہو گیا۔ ”عوام“ کا لفظ، ان لفظوں میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے، جو بعد ازاں، ”اشراف“ اور ”اجلاف“ کے جانشین قرار پائے۔

اشراف و اجلاف اور عوام کے الفاظ کے درمیان ربط و تعلق کو سمجھنے کے لیے، مذکورہ لغات میں ”عوام“ کے لفظ پر نظر ڈالتے ہیں۔ ”فیروزاللغات“ کے مطابق ”عوام“ کا مطلب ہے:عامہ کی جمع۔ عام لوگ؛ مخلوق۔ رعایا؛ پرجا۔ جہلا؛ جاہل آدمی؛ بازاری لوگ۔ عوام الناس: تمام آدمی؛ عام لوگ؛ بازاری آدمی۔ عوام کالانعام: عام لوگ مثلا چوپایوں کے ہیں۔ عوامی: عوام سے منسوب۔ عام لوگوں کی؛ جمہوری۔ ”نوراللغات“ میں ”عوام“ کا مطلب یوں بیان کیا گیا ہے:عام لوگ۔ خواص کا مقابل۔ عوام الناس: تمام لوگ۔ عام آدمی۔ بازاری آدمی۔ جاہل۔ ”فرہنگِ آصفیہ“ میں یہ مطلب درج ہے: عام لوگ؛ تمام آدمی؛ خلق اللہ؛ مخلوق۔ رعایا؛ پرجا۔ بازاری آدمی؛ جہلا؛ جاہل آدمی؛ ردواکھدوا۔ عوام الناس: عام لوگ۔ تمام آدمی۔ ہمہ شما۔

یوں نہ صرف الفاظ و لغات کی دنیا میں، بلکہ حقیقی دنیا میں بھی ایک طرف اجلاف اور عوام ہیں، اور دوسری طرف اشراف ہیں۔ یہ وہی تقسیم ہے، جسے حاکم اور محکوم کی تقسیم کا نام دیا جاتا ہے۔ تاریخِ انسانی میں یہ تقسیم کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ باقی و موجود رہی ہے۔ حتیٰ کہ آج کے جدید دور میں بھی، جبکہ ایک آئینی ریاست وجود رکھتی ہے، اشراف اور عوام کا یہ فرق اور امتیاز پہلے کی طرح جما کھڑا ہے۔ یہ غالباً انسانوں کے اندر سرایت کر گیا ہے، اور ان کے خون میں شامل ہو گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بالخصوص ہر وہ شخص، جسے اجلاف یا عوام کے زمرے میں رکھ دیا جاتا ہے، یا وہ خود کواجلاف کے طبقے میں محصور پاتا ہے، اس کی ساری زندگی کی تگ و دو کا مرکز و محور یہ چیز بن جاتی ہے کہ کسی طرح وہ عوام میں سے نکل کر اشراف میں شمار ہو جائے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب پاکستان میں پہلی پہلی موٹر وے کا افتتاح ہوا تھا۔ ایک ٹی وی چینل کا رپورٹر اپنے کیمرے سمیت لاہور کی ایک سڑک پر موٹر وے کے بارے میں لوگوں کے تاثرات جاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ ایک کار چلاتے آدمی سے موٹر وے کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ اس آدمی کا جواب مجھے آج تک یا دہے۔ وہ کہتا ہے: ”اس موٹر وے کا عوام کو تو کوئی فائدہ نہیں!“

اس آدمی کی رائے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کیونکہ وہ کار میں بیٹھا ہے، سو وہ تو اشراف میں سے ہے، اور موٹر وے کا فائدہ اشراف ہی کو ہے، جو کاروں کے مالک ہیں۔ فرض کریں اگر وہ آدمی ”کار“ کو اشراف کی پہچان نہ بھی سمجھتا ہو، پھر بھی اتنا تو واضح ہے کہ وہ خود کود عام لوگوں یا عوام میں نہیں، اشراف میں شمارکرتا ہے۔ بلکہ دیکھا جائے تو ہر آدمی جب بھی عوام کا لفظ استعمال کرتا ہے، وہ خود کو ”عوام“ میں سے علاحدہ کر لیتا ہے۔ یہ تو عام لوگوں کی بات ہے، جہاں تک خاص لوگوں کی بات ہے، یا وہ لوگ جوخود کو خاص سمجھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ وہ عام لوگوں سے یا عوام سے بلند اور ماورا ہیں۔ انھیں خواص سمجھ لیں۔ یہ خواص یا خاص لوگ کس طرح اور کیونکر بنتے ہیں، اس معاملے پر پھر کبھی بات ہو گی۔ یہاں صرف اشراف اور عوام کی تقسیم زیرِ بحث ہے۔

اب چونکہ پاکستان کے اشراف نے خود کو بالخصوص ریاست کے سر پر، یا ریاست کی قیمت پر، یا ریاست کی بدولت، خاص اور خواص بنایا، لہٰذا، پاکستان کا ہر فرد، بالخصوص، عام فرد، بے چارہ اسی تڑپ کا شکار بنا رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ ریاست سے وابستہ ہو جائے۔ ریاست سے اس کی وابستگی کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی طور، کسی نہ کسی سطح کے ریاستی اختیار و اقتدار کے ساتھ منسلک ہو جائے۔ یوں وہ خواص میں شمار ہو گا، اور اشراف بن جائے گا۔ اور جیسے ہی وہ کسی سطح کے ریاستی اختیار و اقتدار سے جڑتا ہے، وہ وہی کچھ کرنے لگتا ہے، جو وہ خواص اور اشراف کو کرتے دیکھتا رہا ہے۔ ان میں سب سے اہم چیز ہے، قانون سے انحراف۔ وہ خود کو قانون سے بلند اور ماورا سمجھنے لگتا ہے۔ یہ خاصیت، اشراف کی پرانی باقیات میں سے ہے۔ اشراف کے قدیم طبقات خود قانون ہوتے تھے؛ وہ خود قانون کی پیروی کیونکرکر سکتے تھے۔

اشراف کے موجودہ طبقات بھی اسی سوچ اور فکر کے حامل ہیں۔ پرانے اشراف کی طرح، آج کے جدید اشراف بھی اسی زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ ’عالی خاندان؛ عالی نسب؛ ذی رتبہ؛ ذی عزت لوگ۔ مہذب اور شائستہ لوگ؛ اور رئیس؛ امیر زادے؛ جنٹلمین‘ ہیں۔ جبکہ وہ پرانے اشراف کی طرح، عام لوگوں کو کمینے، سفلے، شودر، ذلیل پیشوں کے لوگ؛ رذیل؛ کمینے؛ سفلے؛ کمین؛ فرومایہ؛ گھٹیل‘ سمجھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ عام لوگ، اشراف بننے کی جھوٹی جدوجہد میں اپنی ساری زندگی ضائع کر دیتے ہیں، تاکہ وہ بھی اشراف بن کر عالی خاندان، عالی نسب، ذی رتبہ، ذی عزت، مہذب، شائستہ، رئیس، امیر زادے اورجینٹلمین بن جائیں! پاکستان کے عام لوگوں، نچلے طبقات، اور خاص طو پر متوسط طبقے اور اس کی مختلف پرتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی زندگی بیشتر اسی کوشش سے عبارت ہے۔ وہ اپنی زندگی نہیں، بلکہ پاکستانی اشرافیہ کی زندگی جینے کی کوشش میں جھوٹی زندگی جی رہے ہیں۔ پاکستان کے لوگوں کو اس جھوٹی تقسیم کے طلسم سے باہر نکلنا چاہیے، اور اپنی اصل زندگی کی طرف لوٹنا چاہیے۔ یہ زندگی ان کے انتظار میں ہے! 

نوٹ: یہ کالم 26 جون، 2013 کو روزنامہ مشرق پشاورمیں شائع ہوا۔

ہفتہ، 14 جون، 2014

سقراط پر ایک غیر سقراطی کتاب

سقراط
ازعائشہ اشفاق نور
الحمد پبلی کیشنز، لاہور، 2014

مختصر جائزہ :

[نوٹ: عائشہ اشفاق نور کی کتاب ’’سقراط‘‘ کا یہ جائزہ جون 14 کو لاہور میں جدت ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز کے تحت منعقدہ کتاب کی تقریبِ پذیرائی میں پڑھا گیا۔]

اس مختصر جائزے میں کچھ نکات اور معاملات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔

1۔ سقراط ان یونانی فلاسفہ میں سے ہے، جو جس فلسفے پر یقین رکھتے تھے، اپنی زندگی بھی اسی کے مطابق گزارتے تھے۔ اس مفہوم میں یہ کتاب ”عظیم یونانی فلسفی کی داستانِ حیات“ سے بڑھ کر ”سقراط کی داستانِ فکروحیات“ ہے۔ یعنی سقراط کی حیات کا بیان، اس کی فکر کے بیان سے جدا نہیں۔

2۔ اردو میں سقراط پر جامع کتب غالباً دستیاب نہیں۔ ایک کتاب کا ذکر خود مصنفہ نے بھی کیا ہے، وہ ہے سقراط پر ڈاکٹر منصورالحمید کی کتاب ”سقراط“، جس سے انھوں نے استفادہ بھی کیا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے ڈاکٹر منصورالحمید کی کتاب، نوے کی دہائی میں شائع ہوئی تھی۔ ابھی کچھ سال قبل یہ کتاب اضافوں کے ساتھ دوبارہ شائع ہوئی ہے۔ یوں، مصنفہ کی کتاب ایک اچھا اضافہ کہی جا سکتی ہے۔ یہ سقراط کی حیات اور فکر کا ابتدائی اور عمومی تعارف مہیا کرتی ہے۔

3۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ڈاکٹر منصورالحمید سقراط کو ایک پیغامبر ٹھہرانا چاہتے تھے۔ مصنفہ نے بھی اس معاملے کا ذکر کیا ہے، اور یہ دکھانا چاہا ہے کہ سقراط کسی الہامی طاقت سے معمورتھا، جیسا کہ خود سقراط بھی اس نوع کا دعویٰ کرتا دکھایا گیا ہے؛ گو کہ انھوں نے اس بات پر زور نہیں دیا ہے اور صاد بھی نہیں کیا ہے۔ یہاں محض اتنا کہنے پر اکتفا کیا جائے گا کہ خود سقراط کی یہ حیثیت اور اس کا منہاج، جو اس کے فلسفے کی روح بھی ہے، ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے۔ سقراط کا منہاج، مکالماتی اور تحقیقی ہے، الہامی، کشفی یا وجدانی قطعاً نہیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ سقراط ، صداقت کی تحقیق و تلاش کا سبق دیتا ہے، صداقت کو ایک بنی بنائی شے کے طور پر پیش نہیں کرتا۔ اس کا فلسفہ بنیادی طور پر علمیات کی اخلاقیات کی تشکیل کے ابتدائی کام پر مشتمل ہے۔

4۔ جیسا کہ ذکر ہوا، زیرِ نظر کتاب، سقراط کا ابتدائی تعارف پیش کرتی ہے، یہ کوئی تحقیقی کتاب نہیں۔ تاہم، ابتدائی کتاب کے لیے بھی یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کی تالیف میں، جن کتب سے مدد لی جاتی ہے، ان کی تفصیل آخر میں مہیا کر دی جائے۔

= مصنفہ نے کتاب میں مختلف مصنفین اورمحققین کا ذکر کیا ہے، جیسے کہ ڈبلیو- کے- سی- گدری، جنھوں نے چھ جلدوں میں یونانی فلسفے کی تاریخ لکھی۔

= پھر ایڈولف ہولم سے استفادہ کیا گیا ہے، اور انھیں عورت بتایا گیا ہے؛ یہ کتابت کا سہو ہوسکتا ہے (بلکہ تذکیر و تانیث کا سہو کئی مقامات پر موجود دیکھا جا سکتا ہے)۔ ایڈولف ہولم مرد ہیں، اورایک جرمن مورخ، اور انھوں نے چار جلدوں میں یونان کی تاریخ لکھی۔

= پھرڈاکٹر منصورالحمید کی کتاب سے استفادہ کیا گیا ہے، اور گو کہ یہ ایک تحقیقی کتاب ہے، مگراس سے مدد لینا مناسب نہیں تھا۔ مراد یہ کہ جو کتاب خود متعدد مستند کتابوں سے استفادے پر مشتمل ہو، اس پر انحصار بامعنی نہیں کہا جا سکتا۔ جبکہ عالمی ویب پر قریب قریب تمام کتب دستیاب ہیں۔

= اسی طرح ڈاکٹر نعیم احمد کی کتاب، ”تاریخِ فلسفۂ یونان“ کا معاملہ ہے۔ کسی ابتدائی سطح کی کتاب کے لیے بھی اسے ماخذ بنانا مناسب نہیں۔ اور ایسے میں جبکہ لاتعداد مستند ماخذ باآسانی دستیاب ہوں۔

= مناسب تھا کہ ان تمام کتب کا ذکر آخر میں کتابیات کے تحت کر دیا جاتا، جن سے اس کتاب کی تیاری میں مدد لی گئی۔

5۔ کتاب کے صفحہ 127 پرکنفیوشس کا ایک قول نقل کیا گیا ہے۔ جب کنفیوشس سے پوچھا گیا کہ اگر اسے حکومت کی ذمے داریاں سونپی جائیں تو وہ سب سے پہلا کام کیا کرے گا۔ اس کا جواب تھا: ’میں سب سے پہلے زبان کی اصلاح کروں گا۔‘

خود میں بھی کچھ اسی طرح کی رائے رکھتا ہوں، اور یہ سمجھتا ہوں کہ ہم جس ہمہ گیر بحران کا شکار ہیں، ہماری زبان بھی اس کی لپیٹ میں ہے؛ اور زبان پر توجہ اس بحران سے نبردآزما ہونے کے ضمن میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ سو، اب کچھ باتیں کتاب کی زبان و بیان کے بارے میں۔ یہاں زبان و بیان کا معاملہ یوں بھی اہم ہو جاتا ہے کہ فلسفے پر لکھنا، یا کسی فلسفی کے فلسفے پر لکھنا ذمے داری کا بھاری پتھر اٹھانے کے مترادف ہے۔

= کسی بھی کتاب میں کتابت کی غلطیاں بہت کھلتی ہیں۔ اور اگر یہ کتاب فلسفے یا کسی فلسفی کے فلسفے سے تعلق رکھتی ہوتو یہ غلطیاں کچھ زیادہ نمایاں ہو جاتی ہیں۔ اور یہ بات بھی صاف ہے کہ ان کی ذمے داری مصنف پرآتی ہے، ناشر یا کاتب پر نہیں۔ یہاں صرف چند ایک کی نشاندہی کافی ہو گی: کئی جگہ دَورکو پیش کے ساتھ دُور لکھا گیا ہے (ص: 12، 15،20)۔ ٹروجن جنگ کو لڑوجان لکھا گیا ہے (ص:26)۔ وغیرہ۔

= زبان و بیان کے ضمن میں کچھ تراکیب کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہوگا۔ صفحہ 192 پر باب کا عنوان ہے: ”عدالت میں سقراط“؛ جبکہ اسے بغیر کسی تردد کے ”سقراط عدالت میں“ لکھاجا سکتا تھا۔ صفحہ 48 پر باب کا عنوان ”ممدوحینِ سقراط“ باندھا گیا ہے۔ اس سے کیا مراد ہے، یہ سمجھنا مشکل ہے۔ اس کا عنوان ”مداحینِ سقراط“ ہوتا تو بات بن جاتی۔ مگر اس باب میں سقراط کے مخالفین کا ذکر بھی موجود ہے؛ لہٰذا، اس باب کا عنوان کچھ اور ہونا چاہیے تھا۔

= جہاں تک اصطلاحات کا تعلق ہے، گو کہ یہ کوئی بڑا اختلافی معاملہ نہیں، پھر بھی ایک اصطلاح کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔ Scepticism کے لیے ارتیابیت کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ یہ قریب قریب مفقود الاستعمال ہے۔ جبکہ اس کی جگہ تشکیک کا استعمال عام ہے۔ پروفیسر شیخ منہاج الدین کی ”قاموس الاصطلاحات“ (مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور، بار اول 1965؛ بار دوم 1982) میں یہ تراجم دیے گئے ہیں: مذہبِ شکاکیون، شکاکیت، لاادریت، شک پرستی۔ ہاں، فرہنگِ اصطلاحاتِ جامعہ عثمانیہ، جلد دوم، مرتبہ جمیل جالبی (مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، طبع اول 1993) میں ارتیابیت کی اصطلاح دی گئی ہے۔ اور مجھے یاد پڑتا ہے، مولانا عبدالماجد دریابادی اور مولانا نیاز فتح پوری دونوں تشکیک کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ارتیابیت کے مقابلے میں تشکیک کی اصطلاح زیادہ قابلِ فہم ہے؛ اس کا انتخاب مناسب رہتا۔

= متعدد مقامات پر کتابت کی اغلاط نے جملوں کو بگاڑ دیا ہے، اور ان کے معانی سمجھنا ممکن نہیں رہا۔ جیسے کہ: ایڈولف ہولم مزید لکھتی ہیں کہ یونانیوں کے ہاں اخلاق اور زہد و تقویٰ دونوں چیزیں موجود تھیں اور یہ کسی مافوق الفطرت ہستی کے احکامات کو ماننے کی وجہ سے ہرگز نہیں تھیں بلکہ دراصل ان کے باہمی معاملہ داری مظاہرے پر تھی جیسے فطرتاً ہر شخص محسوس کرتا تھا۔“ (ص: 18)

= کچھ مقامات پر مصنفہ کے بیانات میں تضاد بھی موجود ہے۔ سقراط کے خد و خال کے ضمن میں افلاطون کی شہادت کے تحت لکھا گیا ہے: اس کی آنکھیں مینڈک کی آنکھوں کی طرح باہر نکلی ہوئی تھیں۔ (ص:61) جبکہ فوراً بعد یہ بیان دیا گیا ہے: اس کا قد چھوٹا، آنکھیں اندر کی جانب دھنسی ہوئی تھیں۔ (ص:62)

= متعدد مقامات پر غیر ضروری تکرار جگہ پا گئی ہے، جبکہ اس سے بچا جاسکتا تھا: صفحات 38 – 39 پر یونانی شہری ریاستوں کی اقسام بیان کی گئی ہیں۔ پھر صفحہ43 پر ان ہی سطورکو دوبارہ نقل کیا گیا ہے۔ تکرار کی ایک اور مثال صفحات 52 اور 55 پر بھی موجود ہے۔

6۔ امید ہے اوپر جن نکات اور معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے، انھیں خوشدلی سے دیکھا جائے گا۔ ان کی نشاندہی کے پیچھے یہی مقصد کارفرما ہے کہ ایک عام فہم کتاب، جو سقراط کی زندگی اورفکر کا تعارف ضروری تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے، اس کی خوبیاں اور زیادہ عیاں ہو کر سامنے آ سکیں۔ اور قارئین شاعری کے سقراط سے آگے بڑھ کر فلسفی سقراط کی زندگی اور تعلیمات دونوں سے بہتر واقفیت حاصل کر سکیں۔

7۔ تاہم، آخر میں ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔ ضروری ہے کہ ہم اب ابتدائی اور تعارفی نوعیت کی کتابوں کی تصنیف و تالیف سے آگے بڑھیں۔ اور جیسا کہ سرسید کا کہنا تھا، چند کتابوں کی مدد سے ایک نئی کتاب لکھنے سے درگزریں، اور ان مباحث کو چھیڑیں اورسنجیدہ غوروفکر کی طرح ڈالیں، جن سے ہم اور ہمارا وجود، دوچار ہے۔ تاہم، اس سے انکار ممکن نہیں کہ یہ کام سقراط کی حیات و فکر کو بیان کرتے ہوئے بھی کیا جاسکتا تھا۔

جیسا کہ پاکستان ایک اخلاقی بحران کے بھنور میں گرفتار ہے؛ یہاں اخلاقی مباحث کو مہمیز کرنا اشد ضروری ہے۔ کیونکہ اخلاقیات ہی کسی معاشرے کے ستونوں کی بنیاد ہوتی ہے۔ اور اس کے ساتھ سیاسی نظریہ، ریاستی نظریہ، معاشرتی نظریہ، معاشی نظریہ؛ یعنی سیاست کیا ہے، ریاست کیا ہے، معاشرہ کیا ہے، اور معاشیات کیا ہے؛ ایسے معاملات ہیں، جو ناگزیر طور پر سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں۔ اورصرف فلاسفہ نہیں، بلکہ جو لوگ غور و فکر اور لکھنے پڑھنے سے شغف رکھتے ہیں، ان کا فرض بنتا ہے کہ اپنی فکری توانائیاں ان معاملات پر مرکوز و مرتکز کریں۔ زندگی کی روزمرہ تگ و دو کو فلسفیانہ اقلیم میں جا کر ہی سمجھا اورسلجھایا جا سکتا ہے؛ کیونکہ فلسفے کا سرچشمہ، مسائل و معاملات کی تفہیم اوران کے تصفیے کی جدوجہد سے عبارت ہے۔

شکریہ!

اتوار، 1 جون، 2014

زندگی بھر کا عذاب: ایک بد تمیز اور بدمعاش ریاست کے ساتھ

یہ پوسٹ ایک گذشتہ پوسٹ سے جڑی ہوئی ہے، جس میں اسی موضوع پر خامہ فرسائی کی گئی تھی اور پنجاب حکومت کا ایک اشتہار ثبوت کے طور پر منسلک کیا گیا تھا۔

ایک اور اشتہار ملاحظہ کیجیے۔ اس میں ریاست کی بدتمیزی اور بدمعاشی کا مزید ثبوت مہیا کیا گیا ہے۔

مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب کسی عام شہری کا سابقہ کسی سرکاری افسر یا منتخب نمائندے سے پڑتا ہے، اور اس کا جو رعونت آمیز رویہ سامنے آتا ہے، وہ اسی بدتمیزی اور بدمعاشی سے عبارت ہوتا ہے۔ 

ہم سب بے چارے عام شہری بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ریاست ہمارے ساتھ کس طرح پیش آتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ دورِ غلامی میں آقا بھی اپنے غلاموں کے ساتھ اس طرح پیش نہیں آتے ہوں گے۔ 


[روزنامہ جنگ لاہور، 31 مئی، 2014]

ہفتہ، 26 اپریل، 2014

سویڈن میں سول پاکستان کی تلاش

سول پاکستان کی تلاش میں اک پاکستانی کس طرح سویڈن میں جا بستا ہے۔

جبکہ بیٹرا تو یہ اٹھانا پڑے گا کہ موجودہ پاکستان کو سول پاکستان کیسے بنایا جائے۔ 

عطاالحق قاسمی کا درجِ ذیل کالم روزنامہ جنگ 24 اپریل میں کو شائع ہوا۔  


اتوار، 20 اپریل، 2014

جمعہ، 18 اپریل، 2014

ریاستی اشرافیہ پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے!

رضا علی عابدی بہت دھیمے انداز میں بات کہتے ہیں۔ دیکھیے انھوں نے پاکستان کی ریاستی اشرافیہ کی کارگزاریوں کو کیسے بیان کیا ہے۔ پڑھیے اور روئیے:


[روزنامہ جنگ لاہور، 11 اپریل، 2014]


[روزنامہ جنگ لاہور، 18 اپریل، 2014]

منگل، 15 اپریل، 2014

مفت خورے اشراف

ریاستی اشرافیہ کی ہوس ماند پڑنے کا نام نہیں لیتی۔ یہ ریاست کو لوٹنے سے باز نہیں آتے۔ اور تب تک لوٹنے سے باز نہیں آ سکتے جب تک قوانین سازی اور ضابطہ سازی پر ان کا کنٹرول باقی ہے۔

دیکھیے ریاستی اشرافیہ کی یہ کھیپ کس طرح مراعات کے لے تڑپ رہی ہے:


[The News Lahore, April 15, 2015]


[روزنامہ جنگ لاہور، 15 اپریل، 2014] 

جمعہ، 4 اپریل، 2014

پاکستان: ایک بدتمیز اور بدمعاش ریاست

پاکستان میں جسے سرکاری نوکری اور ساتھ کچھ تھوڑا بہت سرکاری یعنی ریاستی اختیار مل جاتا ہے، وہ بے چارہ احساسِ کہتری اور کمتری کا مارا فوراً انسان کے درجے سے بلند ہو کر خدا بن بیٹھتا ہے۔ بیوروکریسی یوں ہی افسرشاہی بنتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان میں کسی کو پبلک ٹائلیٹ کے باہر نگرانی پر بٹھا دیں، وہ فوراً بیوروکریٹ بن جائے گا۔

سرکاری یا ریاستی اختیار ان کا دماغ ہی خراب نہیں کرتا، ان کی زبان کو بھی خراب کر دیتا ہے۔

ذیل میں نقل کیا جانے والا سرکاری اشتہار دیکھیے، اس کی زبان ملاحظہ کیجیے، اور پاکستان کی ریاست کی بدزبانی اور بدمعاشی کا ادراک کیجیے:

[اس اشتہار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں قانون کی حکومت کہاں کھڑی ہے، اور قانون کن بدزبانوں اور بدمعاشوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے اور چوری کی موٹر سائیکل خرید لیتا ہے تو کیا وہ زندگی بھر عذاب میں مبتلا رہے گا۔ پاکستان نہ ہوا، کوئی دوزخ یا جہنم ہو گیا!]


اتوار، 30 مارچ، 2014

اُلجھے ہوئے کالم نگار اور رعونت زدہ انائیں

ذیل میں دو کالم نقل  ہیں۔ دیکھیے بڑے بڑے کالم نگار کن معاملات میں الجھے ہوئے ہیں؛ ان کی دلچسپیاں کیا ہیں؛ ان کی انا کیسی رعونت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ میں عام طور انھیں نہیں پڑھتا، مگر بعض اوقات سرسری نظر ڈال لیتا ہوں؛ بالخصوص جب کالم کا عنوان ’’پُرکشش‘‘ ہو۔ 

پہلا کالم رؤف طاہر کا ہے۔ یہ روزنامہ جنگ میں 8 مارچ کو شائع ہوا۔


اس کے جواب میں سلیم صافی کا کالم روزنامہ جنگ میں 11 مارچ کو شائع ہوا۔ اس کالم کو نہلے پہ دہلا کہنے میں کوئی ہرج نہیں!



منگل، 11 مارچ، 2014

فنا فی الطالبان

چند خبریں ملاحظہ کیجیے، اور سوچیے طالبان اور طالبان نواز افراد اور جماعتوں میں کیا فرق ہے۔

میری رائے میں طالبان تو بزور پاکستان کی ریاست پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، اور طالبان نواز بے چارے اس انتظار میں ہیں کہ طالبان کب پاکستان کی ریاست پر قبضہ کرتے ہیں اور کب یہ قبضہ انھیں منتقل کرتے ہیں۔

یہ ہیں وہ خبریں، جو محض چشم کشا ہی نہیں، ’’عقل فنا‘‘ کا مظہر بھی ہیں:


[روزنامہ جنگ 9 مارچ، 2014] 


[روزنامہ جنگ 9 مارچ، 2014]


[روزنامہ جنگ 11 مارچ، 2014]

منگل، 25 فروری، 2014

’’طالبان کی اصلیت‘‘

گذشتہ روز ’’جنگ‘‘ میں شاہین صہبائی کا کالم، ’’طالبان کی اصلیت‘‘ شائع ہوا۔ آپ بھی پڑھیے اور طالبان کا ذکر تو علاحدہ ہے، طالبان کے ہمدردوں اور حامیوں کے بارے میں سوچیے کہ وہ کیا چاہتے ہیں، اور کس برتے پر طالبان کے نمائندے بنے ہوئے ہیں۔ طالبان کے حامیوں میں اب جماعتِ اسلامی بازی لے گئی ہے، اور عمران خان اور تحریکِ انصاف پیچھے رہ گئی ہے۔ دیکھیں طالبان کے مقدر میں جو کچھ لکھا ہے، کیا جماعتِ اسلامی کا مقدر اس سے متاثر ہو گا یا ںہیں!

[روزنامہ جنگ، 24 فروری، 2014] 

خود مختار پارلیمان کی بالادستی بالآخر قائم ہو گئی!

یہ پوسٹ ایک گذشتہ پوسٹ، ’’پارلیمانی بالادستی کا ڈھونگ ـ ایک تازہ مثال‘‘ سے جڑی ہوئی ہے۔

اصل میں چیئرمین سینیٹ ایران کے دورے پر چلے گئے، اور یوں پارلیمان کی بالادستی قائم ہو گئی۔

پارلیمان کی بالادستی کی تصویر دیکھیے۔ کتنی زبردست تصویر ہے، کتنے شاندار سوٹ میں ملبوس ہے پارلیمان کی بالادستی:

یہ تصویر 20 فروری کے بزنیس ریکارڈر میں بھی چھپی ہے، اور سینیٹ کی ویب سائیٹ پر بھی دستیاب ہے۔


ہفتہ، 22 فروری، 2014

میری نئی اردو کتاب، ’’پاکستانی کشاکش‘‘ کی اشاعت اور اجرا

میری نئی اردو کتاب، ’’پاکستانی کشاکش‘‘ شائع ہو گئی اور اے ـ ایس ـ انسٹیٹیوٹ، لاہور نے آج اس کا اجرا کر دیا ہے۔ اس ضمن میں میڈیا ریلیز ملاحظہ کیجیے:

میڈیا ریلیز:

نئی اردو کتاب، ’’پاکستانی کشاکش‘‘ کی اشاعت اور اجرا


لاہور، فروری 22، 2014: آلٹرنیٹ سالوشنز انسٹیٹیوٹ (اے ـ ایس ـ انسٹیٹوٹ) نے آج ڈاکٹر خلیل احمد کی نئی کتاب، ’’پاکستانی کشاکش: تحلیل و تعدیل اور آگے بڑھنے کاراستہ‘‘ کا اجرا کر دیا ہے۔

کتاب پاکستانی ریاست اور سوسائیٹی کے موجودہ بحران کا تجزیہ بالخصوص اس تناظر میں کرتی ہے کہ پاکستانی ریاست اور سوسائیٹی دونوں نے پاکستان کے عام شہریوں کی جان و مال اور ان کے حقوق کو لاحق وحشیانہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے ضمن میں کیا رویہ اختیار کیا ہے۔ کتاب سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کے مشکوک کردار پر بھی توجہ دیتی ہے کہ انھوں نے اپنی سرپرستی میں مجرمانہ تنظیموں کو شہریوں کے آئینی حقوق غصب کرنے کی آزادی فراہم کی۔ کتاب اس نتیجے کو سامنے لاتی ہے کہ ریاست اور سیاسی پارٹیاں دونوں پاکستان کے شہریوں کی جان و مال اور ان کے حقوق اور آزادیوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں، پاکستان کا آئین جن کی ضمانت دیتا ہے۔

ایک صریح تجزیے کے بعد کتاب مشوش اور روشن خیال شہریوں کے سامنے ایک نئی سیاسی پارٹی قائم کرنے کی تجویز پیش کرتی ہے، جو یک نکاتی ایجینڈے پر منظم ہونی چاہیے۔ یہ یک نکاتی ایجینڈا ہے: بہرطور بہرحال شہریوں کی جان و مال اور ان کے حقوق کا تحفظ، کسی فرق اور کسی امتیاز کے بغیر۔ مزید یہ کہ مجوزہ نئی سیاسی پارٹی کو اپنے یک نکانی ایجینڈے کے حصول کے لیے ہر قسم کی نظریاتی زنجیروں اور بوجھ کو ترک کر کے اخلاقی اور آئینی بنیادوں پر منظم ہونا چاہیے۔

کتاب کے اجرا کے موقعے پر مصنف ڈاکٹر خلیل احمد نے اس امید کا اظہار کیا کہ اگر نئی پارٹی مجوزہ یک نکاتی ایجینڈے پر متوجہ رہتی اور اخلاقی اور آئینی تقاضوں کو سامنے رکھ کر کام کرتی ہے تو پاکستان کی ریاست اور سوسائیٹی دونوں کو اس خود کش بحران سے باہر لانا کوئی مشکل نہیں ہو گا۔

یاد رہے ڈاکٹر خلیل احمد کی کتابیں سنجیدہ علمی مباحثے کو تحریک دے رہی ہیں۔ ان کی اہم کتابوں میں ’’پاکستان میں ریاستی اشرافیہ کا عروج‘‘، ’’سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست: پاکستانی سیاست کے پیچ وخم کا فلسفیانہ محاکمہ‘‘ اور ’’چارٹر آف لبرٹی‘‘ (’’میثاقِ آزادی‘‘) شامل ہیں۔

کتاب: پاکستانی کشاکش: تحلیل و تعدیل اور آگے بڑھنے کا راستہ
مصنف: ڈاکٹر خلیل احمد
صفحات: 40
قیمت: 65 روپے

کتاب درج ذیل اداروں سے حاصل کی جا سکتی ہے:

لاہور:
سچیت کتاب گھر، F-11، شرف مینشن، 16 کوئینز روڈ، چوک گنگا رام ہسپتال، لاہور
فون: 042-3630 8265  ای میل: suchet2001@yahoo.com

اسلام آباد:
سعید بُک بینک
الرحمان سینٹر، F-7 مرکز، جناح سپر، اسلام آباد
فون: 92-51-2651656, 57, 58 (3 Lines)  فیکس: 92-51-2651660



مزید معلومات کے لیے، رابطہ کیجیے: info@asinstitute.org

بدھ، 5 فروری، 2014

پارلیمانی بالادستی کا ڈھونگ ـ ایک تازہ مثال

روزانہ اخبار دیکھتے ہوئے درجنوں ایسے معاملات نظر سے گزرتے ہیں، جن کی نشاندہی کرنے کو جی چاہتا ہے؛ جن پر لکھنے اور ان کے پیچھے چھپی کہانیوں کو بے نقاب کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اور پاکستان کی ریاستی اشرافیہ اور طفیلیے سیاست دان، جو گل کھلاتے رہتے ہیں، ان پر خانہ فرسائی ضروری خیال کرتا ہوں۔ مگر اور بہت سے اہم اور ضروری معاملات توجہ چاہتے ہیں، اور میں ان پر مرتکز رہتا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ ان روزانہ کی گل فشانیوں سے قطع نظر کر کے کچھ قابلِ قدر کام کروں۔

یوں بہت کچھ ایسا ہے، جسے کڑے دل کے ساتھ، اس پر بغیر کچھ کہے، بغیر کچھ لکھے، چھوڑنا پڑتا ہے۔ تاہم، بعض اوقات ایسا کچھ سامنے آ جاتا ہے کہ صبر نہیں ہوتا، اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔
آج ایسا ہی ایک معاملہ درپیش ہے۔

درج ذیل خبر ملاحظہ کیجیے، اور روئیے پاکستان کے مقدر کو جہاں ریاستی اشرافیہ کے نخرے شہزادوں سے بھی بڑھ کر ہیں، اور جہاں، دیکھیے اور سر دھنیے، کہ پارلیمانی بالادستی کا ڈھونگ کس طرح  رچایا جا رہا ہے۔


[روزنامہ جنگ، لاہور، 5 فروری، 2014 ]

اگر چیئرمین سینیٹ تہران کانفرینس میں شرکت نہ کرنے جائیں تو کیا اس سے پارلیمانی بالادستی کو زک پہنچے گا! جبکہ انھوں نے وہاں سیر کرنے کے علاوہ کیا کرنا ہے جا کر۔ اور ان کے اس دورے سے پارلیمان کی بالادستی کا کیا تعلق بنتا ہے! دفترِ خارجہ نے اپنی ذمے داری نبھائی اور جو ان کا کام بنتا ہے، اسے پورا کیا؛ یعنی انھوں نے ایران اور دنیا کے بیچ جو تنازعہ چل رہا ہے، اس کے پیشِ نظر چیئرمین کو مشورہ دیا ہو گا کہ وہ تہران نہ جائیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے، تو بھی اس معاملے کا پارلیمان کی بالادستی سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا پارلیمانی بالادستی چیئرمین کے دوروں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یا اس کا تعلق اپنی مرضی سے جہاں چاہو دورہ کرو، جو چاہے کرو، جیسے اختیار سے ہے!

مزید یہ کہ سیکریٹری خارجہ بھی بزدل افسر ثابت ہوئے اور نہ صرف چٹھی واپس لے لی، بلکہ معذرت بھی کی۔ اگر وہ چمچہ صفت نہ ہوتے، اور اپنے فرائض کا درست احساس رکھتے تو نہ تو معذرت کرتے، نہ چٹھی واپس لیتے۔ انھوں نے اپنا، یعنی دفترِ خارجہ کا فرض پورا کر دیا تھا اور اس پر قائم رہتے۔ آگے چیئر مین سینیٹ کی مرضی، وہ جاتے یا نہ جاتے۔ مگر پاکستان میں ایسے افسروں کا کال ہے، بلکہ ایسے انسان ناپید ہیں، جو باضمیر اور اپنے فریضے کے ساتھ مخلص اور دیانت داری سے اسے نبھانے والے ہوں۔ پھر یہ بھی کہ اخلاقی جرأت کے حامل بھی ہوں۔

اور پھر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی خود سروں کو روک کون سکتا ہے! یہ بے اصولے اور مطلق العنان خصلت کے لوگ ہیں۔ یہ آئین، قانون اور ریاستی اداروں کو اپنے تابع سمجھتے ہیں۔ خود کو بادشاہ اور کسی کو جوابدہ نہیں سمجھتے۔

آخراً یہ کہ اگر چیئرمین سینیٹ کو تہران کے دورے سے روکنے کا مشورہ دینا پارلیمانی بالادستی میں ایگزیکٹو (انتظامیہ) کی مداخلت ہے، تو پھر نہ صرف دفترِ خارجہ کو لپیٹ دینا چاہیے، بلکہ تمام سرکاری دفاتروں، وزارتوں اور محکموں کو بھی ختم کر دینا چاہیے۔ یوں نہ رہے گا بانس، نہ بجے کی بانسری۔ یعنی نہ ایگزیکٹو (انتظامیہ) رہے گی، نہ پارلیمانی بالادستی میں کوئی مداخلت کرے گا۔ بس پارلیمان اپنی بالادستی کے محل میں تنہا بیٹھ کے ڈنڈے بجایا کرے گی!