اب تو اس بات میں کوئی شک نہیں رہ گیا کہ یہ انتخابات، سیاست دانوں کے لیے ”یومِ حساب“ ثابت ہو رہے ہیں۔ مراد یہ کہ پاکستان بننے کے بعد سے اب تک ہر طرح اور ہر رنگ کے سیاست دانوں، ان کی آل اولاد، اور ان کے حواریوں کے لیے انتخابات کچھ یوں ہوتے تھے، جیسے پنجابی میں کہتے ہیں: موجاں لگیاں نیں۔ یعنی عیش ہی عیش۔ آپ نے ایک اور بات بھی سنی ہو گی: عقل نئیں تے موجاں ای موجاں۔ یعنی عقل نہ ہو تو مزے ہی مزے ہیں۔ اسے پاکستانی صورتِ حال کے حوالے سے یوں تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ آئین اور قانون نہ ہو تو مزے ہی مزے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2008 کے انتخابات میں اچھے اچھوں نے انتخابات لڑے، اور آئین اور قانون کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا مذاق بھی اڑایا اور مضحکہ بھی۔
جیسا کہ ان انتخابات میں قومی اور صوبائی اسیمبلیوں کا رکن بننے کے لیے بی- اے، بی- ایس- سی کی ڈگری کا حامل ہونا ضروری تھا، تو انتخابات لڑنے والوں کی اکثریت نے یہی سوچا ہو گا، آئین، قانون ہمارے لیے تو ہے نہیں، اور یہ تو ویسے ہی رسمی سی شرط ہے، کہیں نہ کہیں سے، جیسے تیسے جعلی یا نقلی ڈگری حاصل کر لی جائے۔ ہمیں کون پوچھے گا اور ہمیں کون پوچھ سکتا ہے۔ گو کہ ابھی تک ”لشکری رئیسانی“ کا یہ زریں قول سامنے نہیں آیا تھا کہ ڈگری، ڈگری ہوتی ہے، نقلی ہو یا اصلی۔ پھر بھی انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند امیدواروں نے اِ دھر اُدھر سے ڈگریاں سمیٹ کر یہ شرط پوری کر دی۔ ان میں سے اکثر انتخابات جیت بھی گئے، اور یوں قومی اور صوبائی اسیمبلیوں تک پہنچ گئے۔ بلکہ کتنے ہی وزیر، مشیر، اور قائمہ کمیٹیوں کے رکن بن گئے۔ اور باقی کے ارکان متعدد مراعات کے حامل عہدے حاصل کر کے آرام چین کی زندگی بسر کرنے لگے۔
اس آرام چین کی زندگی گزارنے والوں میں ایک اور قسم کے لوگ بھی شامل تھے۔ پاکستان کے آئین میں ایک ایسی دفعہ بھی موجود ہے، جس کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا تھا۔ یہ دفعہ کہتی ہے کہ کوئی بھی شخص جو پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کا شہری ہے یا کسی دوسرے ملک کی قومیت کا حامل ہے، پارلیمان کا رکن نہیں بن سکتا۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں اور سیاست دان، ملک کے آئین سے کتنے مخلص اور اس کے کتنے پاسدار ہیں۔ مراد یہ کہ یہ لوگ آئین سے بس اپنے مطلب کی بات نکالنا جانتے ہیں۔ لیکن یہ اسی آزاد سپریم کورٹ کی بدولت ممکن ہوا کہ اس دفعہ پر بھی عمل درآمد شروع ہوا۔ اسی سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ سیاسی پارٹیاں اور سیاست دان، سپریم کورٹ سے مخاصمت کیوں رکھتے ہیں۔ سو، ایسے تمام سیاست دان، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے ملک کے شہری بھی ہیں، وہ رہتے تو مثلاً امریکہ، برطانیہ، کینیڈا میں ہیں، لیکن انتخابات کے موسم میں تعطیلات گزارنے پاکستان آ جاتے ہیں۔ یہاں آ کر انتخاب لڑتے ہیں، تاکہ قومی اور صوبائی اسیبلیوں میں جا کر ریاستی وسائل اور شہریوں کے پیسے پر حکمرانی کا لطف اٹھا سکیں، کچھ پیسہ کما سکیں، اور جب تعطیلات ختم ہو ں تو واپس اپنے دوسرے ملک چلے جائیں۔ ایسے بہت سے دوملکی شہری 2008 کے انتخابات جیت کر قومی اورصوبائی اسیمبلیوں، اور سینیٹ میں متمکن تھے۔ ان کی تعطیلات بہت اچھی گزر رہی تھیں۔ لیکن برا ہو سپریم کورٹ کا، اس نے ان کا نوٹس بھی لے لیا۔ اورا ن کی شہریت اور قومیت کی پڑتال ہونے لگی۔
ایک اور چیز بھی ہے، جو بتاتی ہے کہ پاکستانی سیاست، خاندان اور برادری میں کیوں قید ہے، اور سب کے سب سیاست دان یہ کیوں چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد، اور عزیز و اقربا بھی سیاست دان بنیں۔ مطلب یہ کہ ڈیوڈ کیمرون اور اوباما اپنے خاندان کو سیاست میں کیوں نہیں لاتے۔ پر، پاکستان میں پھر وہی بات ہے کہ اگر آپ سیاست میں ہیں، یعنی حکمرانی کے کاروبار میں ہیں تو آپ کی موجیں ہی موجیں ہیں۔ جبکہ امریکہ، کینیڈا، اور برطانیہ کی سیاست میں ایسی موجیں نہیں۔ ورنہ علامہ طاہر القادری کینیڈا میں سیاست کر رہے ہوتے، انھیں اس کے لیے پاکستان نہ آنا پڑتا۔ اسی طرح، جینرل مشرف کو بھی سیاست کے لیے پاکستان نہ آنا پڑتا۔ پاکستان میں ایک موج یہ ہے، جس کا اب پتہ چل رہا ہے کہ خواہ یہ بجلی ہے، یا گیس، یا پانی، یا ٹیلیفون، یا دوسری سرکاری خدمات، اگر آپ سیاست دان ہیں تو آپ کے لیے کسی چیز کا بل دینا ضروری نہیں۔ اکثر سیاست دان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب خدمات ان کے باپ کی ملکیت ہیں۔ وہ سیاست دان بن گئے ہیں، لہٰذا، ہر چیز ان کے لیے مفت کی چیز بن گئی ہے۔ یہ لوگ کسی چیز کا بل دینا پسند نہیں کرتے۔ مگر اب اس کی بھی چھان بین ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اب جو بھی انتخابات میں حصہ لینا چاہتا ہے، اسے کم از کم یہ بل اپنی جیب سے ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔
سب سے بڑی مشکل یہ آن پڑی ہے کہ کسی ”ناہنجار“ نے بڑی محنت کر کے پارلیمان اور صوبائی اسیمبلیوں کے تمام ارکان کا کچھا چٹھا چھاپ دیا کہ کون کتنا ٹیکس دیتا ہے۔ معاف کیجیے، میں نے غلطی سے کہہ دیا کون کتنا ٹیکس دیتا ہے، کہنا یہ چاہیے کہ کون کون ٹیکس نہیں دیتا۔ یا اگر کوئی غریب رکن ٹیکس دیتا ہے تو وہ کتنا ٹیکس دیتا ہے۔ یہ جو رپورٹ چھپی، اس نے بڑے بڑوں کے پول کھول دیے۔ پارلیمان سے لے کر صوبائی اسیمبلیوں کے ارکان تک، آٹے میں نمک کے برابر ہوں گے، جو ٹیکس دیتے ہیں، اور ان کے ٹیکس کی مقدار بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ بلکہ خاصے ارکان ہیں، جنھوں نے نیشنل ٹیکس نمبر لینا گوارا ہی نہیں کیا۔ جیہڑے پِنڈ جانا نئیں، اوہدا راہ کیہ پُچھنا۔ یعنی جس گاؤں جانا ہی نہیں، اس کا راستہ کیا پوچھنا۔ ٹیکس نمبر نہ لینے والوں کے سرخیل سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی بنے، انھوں نے جب وہ وزیرِ اعظم بنے، تب مجبوراً ٹیکس نمبر لیا، ورنہ سیاست دانوں کو اس فضول چیز کی کیا ضرورت ہے۔ تو اس مرتبہ انتخابات میں یہ استفسار بھی ہو رہا ہے کہ کھایا پیا بھی، اور گلاس بھی توڑا، پر یہ بھی تو بتائیے کچھ ٹیکس بھی دیا کہ نہیں۔
تو دیکھیں ایک آزاد سپریم کورٹ ہونے کی کیسی کیسی برکتیں سامنے آئی ہیں۔ ایک خودمختار ایلیکشن کمیشن بھی بن گیا۔ یا یوں کہہ لیں کہ ایلیکشن کمیشن خودمختار ہو گیا۔ پھر ایک ادارہ، ہائیر ایجوکیشن کمیشن بھی تھا، وہ بھی اپنی خودمختاری پر اصرار کرنے لگا۔ اور اب جعلی، نقلی اور اصلی ڈگریوں کی چھان پھٹک کر رہا ہے۔ اسی پر بس نہیں۔ ایک وفاقی ٹیکس محتسب کا ادارہ بھی ہے، اسے بھی کچھ اپنے مینڈیٹ کو نبھانے کی فکر لاحق ہو گئی۔ اس نے ٹیکس لینے اور اس کا حساب کتا ب رکھنے والے ادارے، یعنی فیڈرل بیورو آف ریوینیو کو بھی اس کام پر لگا لیا کہ جو انتخابات لڑ چکے ہیں، جیت چکے ہیں یا ہار چکے ہیں، ان سب سمیت جو اب انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند ہیں، سب کے ٹیکس کا حساب کتاب پاکستان کے شہریوں کے سامنے لایا جائے، تاکہ وہ امیدواروں کا حساب کتاب کر سکیں۔
[یہ کارٹون انگریزی روزنامے پاکستان آبزرور میں 7 اپریل کو چھپا۔]
سو، ایک یہ سپریم کورٹ کیا کم تھا، جو اور اتنی بلائیں سیاست دانوں کے پیچھے لگ گئیں۔ یہ تو ہونا ہی تھا، اور یہ ضرور ہونا چاہیے۔ کب تک موجاں ہی موجاں۔ یعنی بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی! آخر چھُری کے نیچے آ ہی گئی۔ کوئی بات نہیں، جو یہ چھری ذرا چھوٹی ہے۔ اس کے بعد بڑی چھُریاں بھی تیار ہو جائیں گی۔ اور یقیناً جس دن سے پاکستان بنا ہے، اس دن سے اب تک سیاست دانوں سمیت، جس جس نے پاکستان کے شہریوں کا پیسہ لوٹا ہے، ان کے ساتھ اپنے آئینی، قانونی عہد کو پامال کیا ہے، سب کے سب کا ایسا حساب کتاب ہونا چاہیے، جو تاریخِ انسانی کے لیے ایک عبرت ناک مثال بن جائے!
[یہ کالم 2 اپریل کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں