کافی عرصے سے پاکستان میں ایک بات دہرائی جاتی رہی ہے کہ تدریس کے
شعبے میں صرف وہ لوگ آتے ہیں، جو اور کسی
شعبے میں کھپ نہیں پاتے۔ اس پر میرا ردِ عمل یہ ہوا کرتا تھا کہ جو لوگ تدریس کے
شعبے میں کھپ نہیں پاتے، وہ صحافت میں جا بستے ہیں۔ اس کا پس منظر پاکستان میں
صحافت کی حالتِ زار تھی، جو اب مزید ابتر ہو گئی ہے۔
کچھ دنوں پہلے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں پھر اسی تعصب
کی تکرار سنی گئی۔ ایک ’’ماہرِ تعلیم‘‘ نے فرمایا: ’ہمارے معاشرے میں جو کچھ نہیں
بنتا وہ ٹیچر بن جاتا ہے۔‘‘
[روزنامہ ’’جنگ‘‘ 28 اگست، 2013]
اس بات میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے:
جو کچھ نہیں بننا چاہتا، بس زندگی کا کام چلانا چاہتا ہے، وہ پرنٹ یا الیکٹرانک
میڈیا میں جا گھستا ہے۔ کیونکہ یہاں ہر کوئی ’’ماہر‘‘ ہے۔ بلکہ حیرانی کی بات یہ
ہے کہ پاکستان میں میڈیا نے ایک عجیب و غریب معیار قائم کر دیا ہے، یعنی یہ کہ جو
اخبار میں چھپ گیا اور کسی ٹی وی چینل پر آ گیا، وہ مستند اور ماہر بن گیا۔ یوں،
پاکستان کی یونیورسیٹیوں نے اتنے ماہرین پیدا نہیں کیے ہوں گے، جتنے پاکستانی
میڈیا نے پیدا کر دیے ہیں۔
اس ضمن میں اہم ترین بات یہ ہے کہ ہر
ٹی وی چینل اور ہر اخبار کام چلاؤ زبان استعمال کر رہا ہے۔ یہ اردو نہیں، کچھ اور
ہے۔ آپ کو بھی ایسے لوگوں سے سابقہ ضرور پڑا ہو گا، جنھیں جب یہ کہا جائے کہ آپ نے
غلط لفظ بولا یا غلط لفظ استعمال کیا، درست لفظ یہ ہے، تو وہ کہتے ہیں: آپ کو بات
سمجھ آ گئی نا، کافی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی کی زبان جیسی اہم
ایجاد، جسے خود زندگی کہنا چاہیے، نظر انداز
کی جا رہی ہے۔ میڈیا پر بھی یہی ہو رہا ہے۔ کام چلاؤ زبان سے کام چلایا جا
رہا ہے۔ کام چلاؤ ماہرین کام چلا رہے ہیں۔
یہ رویہ پاکستان کا المیہ بن گیا ہے۔
آج (27 ستمبر) کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں رضا علی عابدی کا کالم اسی معاملے
پر روشنی ڈالتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں