جیسا کہ گذشتہ کالم، ”1935 کا ایکٹ اور نااہلیت کی دفعات“ میں ذکر ہوا کہ آئین اور قانون، اخلاق اور جُرم سے تعلق رکھتے ہیں۔ علم اور جہالت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ علم مذہبی ہو یا غیر مذہبی (اسی بنیاد پر ٹیکنوکریٹس کی حکومت کو مستر د کیا جاتا ہے!)۔ یہی وجہ ہے کہ قانون میں یہ نہیں ہوتا کہ عالم اور پڑھے لکھے کو کم سزا دی جائے، اور ان پڑھ کو زیادہ۔ یا اس کے برعکس۔ یا ایسے ہی تقاضوں کی بِنا پر امتیاز برتا جائے۔ اب جبکہ نااہلیت کی دفعات کے ضمن میں ان شقوں کا عملی اطلاق کیا گیا تو اس اندازِ نظر کی خامیاں سامنے آ گئی ہیں۔ ان میں نمایاں چیز یہ ہے کہ اخلاقی اصولوں سے انحراف بھی اس وقت قابلِ گرفت ہوتا ہے، جب اس کا تعین قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کیا جا سکتا ہو۔ مثلاً اگر کوئی شخص جھوٹا ہے، اسے سوسائیٹی میں تو جھوٹا سمجھا جائے گا، اور ہو سکتا ہے، لوگ اس سے ناطہ نہ رکھیں، تاہم، آئینی و قانونی معاملات میں اُسے اس بِنا پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ قرار دینا پڑا کہ اگر جھوٹ کے حوالے سے عدالت کسی کو مجرم قرار دے، تب ہی اسے جھوٹا سمجھا جائے گا۔ یہ ہے وہ انداز، جس میں اخلاقی امر، جرم کی صورت میں متشکل ہوتا ہے۔
پاکستان کی پہلی آئین ساز اسیمبلی کا افتتاحی اجلاس 10-14 اگست 1947 منعقد ہوا۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح، صدر، اور اقلیتی رکن، جے- این- منڈل، عارضی چیئرمین منتخب کیے گئے۔ پہلے مجوزہ آئین کا دوسرا ڈرافٹ قیامِ پاکستان کے پانچ برس بعد 22 دسمبر 1952 کو آئین ساز اسیمبلی کے سامنے رکھا گیا اور اس پر بحث شروع ہوئی۔ 16 ستمبر 1954 کو آئین ساز اسیمبلی نے پاکستان کے پہلے آئین کا حتمی ڈرافٹ منظور کر لیا۔ 17 اکتوبر 1954 سے آئین پر بحث کا آغاز ہونا تھا۔ محمد علی نے قوم کو آئین کا تحفہ دینے کے لیے تاریخ طے کر دی تھی، اور 25 دسمبر 1954 کو اس آئین کا نفاذ عمل میں آ جانا تھا۔ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ گورنر جینرل غلام محمد نے ہنگامی حالت نافذ کر دی اور وہ تاریخی الفاظ ادا کیے، جو بعد میں ایسے ہی مواقع پر دہرائے جانے تھے: ”ملک سیاسی بحران کا شکار ہے۔ آئینی مشینری تباہ ہوچکی ہے۔ لہٰذا، پورے پاکستان میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ آئین ساز اسیمبلی اپنی موجودہ شکل میں عوام کا اعتماد کھو چکی ہے اور مزید کام نہیں کر سکتی۔ آخری اختیار عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ اپنے نمائندوں کے ذریعے آئینی معاملات سمیت تمام معاملات کا فیصلہ کریں گے۔ جتنی جلد ممکن ہو گا، انتخابات منعقد کیے جائیں گے۔“ یہ تھا انجام، پہلی آئین ساز اسیمبلی اور اس کے تیا ر کردہ آئین کا۔ اس آئین کی تباہی نے جس آئین کو جنم دیا، وہ غلام محمد کے شخصی احکامات سے مرتب ہوتا تھا۔
27 مارچ 1955 کو گورنر جینرل نے ایک آرڈینینس کے ذریعے متعدد اختیارات سنبھال لیے اور پاکستان کے لیے ایک نئے آئین کی تشکیل کا اعلان کیا۔ تاہم، فیڈرل کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ آئین کی تشکیل کا کا م صرف آئین ساز اسیمبلی کر سکتی ہے؛ گورنر جینرل اور ان کی کابینہ کو یہ اختیار نہیں۔ یہاں کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے گورنر جینرل کو ایک ”نئی آئین ساز اسیمبلی“ کے قیام کا اختیار بھی دے دیا۔ یوں، دوسری آئین سازاسیمبلی وجود میں آ گئی۔ 8 جنوری 1956 کو اس نے آئین کا ڈرافٹ پیش کیا، جسے کچھ تبدیلیوں اور ترامیم کے بعد 29 فروری 1956 کو منظور کر لیا گیا۔ اس دوسرے آئین کی 245 دفعات میں سے بیشتر دفعات پہلے آئین کے ڈرافٹ پر مبنی تھیں۔ 23 مارچ 1956 کو یہ ”غیر قانونی“ آئین نافذ کر دیا گیا۔ یہ دوسرا آئین ڈھائی برس نافذ رہا۔ 1956کے آئین کے مطابق پاکستان کی پارلیمان، ایک صدر، اور ایک ایوان (قومی اسیمبلی) پر مشتمل تھی۔ قومی اسیمبلی کے ارکان کی تعداد تین سو تھی، جس میں سے نصف مشرقی پاکستان اور نصف مغربی پاکستان کے حلقوں سے منتخب کیے جانے تھے۔ اسی طرح، ہر صوبے کی مجلسِ قانون ساز، ایک گورنر اور ایک ایوان پر مشتمل تھی، جسے صوبائی اسیمبلی کا نام دیا گیا۔ ہر صوبائی اسیمبلی میں ارکان کی تعداد تین سو تھی۔ قومی اور صوبائی اسیمبلیوں میں محفوظ نشستیں اس کے علاوہ تھیں۔
اس آئین میں قومی اسیمبلی کی رکنیت کے ضمن میں اہلیت اور نااہلیت کی تین شرائط بیان کی گئی تھیں۔ پہلی شرط یہ تھی کہ کوئی شخص قومی اسیمبلی کا رکن بننے کا اہل ہو گا (ا) اگر اس کی عمر پچیس برس سے کم نہ ہو، اور دفعہ 143 کی رو سے قومی اسیمبلی کے کسی بھی حلقے سے منتخب ہونے کا اہل ہو؛ اور (ب) اگر اسے آئین یا پارلیمان کے کسی ایکٹ کی رو سے رکن بننے سے نااہل قرار نہ دے دیا گیا ہو۔ دوسری شرط یہ تھی کہ اگر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی رکن کو اس کے منتخب ہونے کے بعد، نااہلیت کا سامنا کرنا پڑجائے، تو قومی اسیمبلی کا سپیکر ایلیکشن کمیشن کی رائے حاصل کرے گا، اور اگر یہ رائے آتی ہے کہ رکن نااہل قرار پا چکا ہے، تو اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔ تیسری شرط یہ تھی کہ اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے قومی اسیمبلی میں بیٹھتا اور ووٹ دیتا ہے کہ وہ رکنیت کے لیے اہل نہیں، یا اسے نااہل قرار دے دیا گیا ہے، تو ہر دن کے لیے، جب وہ اسیمبلی میں بیٹھتا اور ووٹ دیتا ہے، اس سے وفاق کے قرض کے طو ر پر پانچ سو روپے وصول کیے جائیں گے۔
صوبائی اسیمبلیوں کی رکنیت سے اہلیت اور نااہلیت کے ضمن میں بھی یہی شرائط بیان کی گئیں۔ ہاں، دانستہ طور پر صوبائی اسیمبلیوں میں بیٹھنے اور ووٹ دینے پر ہر روز کے حساب سے وصول کی جانے والی رقم سو روپے رکھی گئی ۔ جہاں تک متذکرہ دفعہ 143 کا تعلق ہے تو اس کے مطابق اہلیت کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا تھا کہ امید وار پاکستان کا شہری ہو؛ جس سال انتخابی فہرستیں تیار کی گئی ہوں یا ان پر نظر ثانی کی گئی ہو، اس سال جنوری کی پہلی تاریخ کو اس کی عمر اکیس برس سے کم نہ ہو؛ اسے کسی عدالت نے مختل ذہن کا حامل قرار نہ دیا ہو؛ اسے کسی حلقے میں رہائش رکھے ہوئے گذشتہ جنوری کی پہلی تاریخ کو اس سال کے چھ ماہ سے کم وقت نہ گزرا ہو، جس سال انتخابی فہرستیں تیار کی گئیں یا ان پر نظرثانی کی گئی؛ وہ آئین یا پارلیمان کے کسی ایکٹ کی رو سے نااہل قرار نہ پاتا ہو۔
یہ تھیں اہلیت اور نااہلیت کی وہ شرائط، جن میں ایسی کسی شرط کا کوئی ذکرنہیں، جو بعدازاں، منتخب نمائندوں کے لیے ضروری قرار دی گئیں۔ ایک تازہ خبر کے مطابق سینیٹ اپنے آئندہ اجلا س میں دفعہ 63 پر بحث کرنے کے لیے تیار ہے، اور اس بحث میں مجوزہ ترامیم کا جائزہ لیا جائے گا۔ ان دلائل و شواہد سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حکمرانی کا اختیار صرف اور صرف شہریوں کے مینڈیٹ سے ماخوذ ہے؛ کسی اور چیز سے نہیں۔ ہاں، آئین اور قانون کے مجرم، اس مینڈیٹ کے حق دارنہیں! مراد یہ کہ کسی جرم میں سزا یافتہ، قرض خور، مختلف سرکاری بِل ادا نہ کرنے والے، اور اسی طرح کے دوسرے جرائم میں ملوث امید وار شہریوں کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔ اگر شہری کسی عالم یا مذہبی سکالر کو منتخب کرنا چاہتے ہیں تو آئین اور قانون کوئی روک نہیں لگاتا۔ مگر پاکستان میں منعقد ہونے والے انتخابات کی تاریخ ایسی شہادت سے خالی ہے!
[یہ کالم 18 اپریل کو روزنامہ مشرق پشاور-اسلام آباد میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں