ہفتہ، 7 ستمبر، 2013

خان فضل الرحمٰن خان اور ان کا ناول، ’’آفت کا ٹکڑا‘‘

عرض معروض

یہ مضمون مارچ 1992 میں لکھا گیا تھا۔ اسے بغرضِ اشاعت مختلف جرائد کو بھیجا گیا؛ پر کہیں چھپ نہ سکا۔

ان جرائد میں ”اوراق“ بھی شامل تھا۔ مرحوم وزیر آغا نے خود جواب عنایت فرمایا۔ ان کا خط ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے۔ انھوں نے لکھا: ”ممنون ہوں کہ آپ نے کرم کیا اور اپنا قیمتی مضمون بھجوایا۔ اوراق کی یہ پالیسی ہے کہ اس میں تازہ کتب پر تبصرے اور مضامین شائع کیے جاتے ہیں یعنی وہ کتب جو پچھلے چار پانچ سال میں شائع ہوئی ہوں۔ جس ناول پر آپ نے لکھا ہے وہ ۱۹۶۲ میں شائع ہوا تھا۔ معذرت خواہ ہوں۔“ ۱۴ جولائی ۱۹۹۲

(یہاں اس خط کا عکس بھی پیش ہے۔)


میں سمجھتا ہوں کہ یہ مدیر کا استحقاق ہے کہ وہ کسی مضمون کو چھاپے یا نہ چھاپے۔ تاہم، اگر اس ضمن میں کوئی پالیسی وضع کر لی جائے اور بیان بھی کر دی جائے تو اس پر بات کرنا سب کا حق بن جاتا ہے؛ اس طرح کہ اس پالیسی پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں؛ یا یہ کہ یہ پالیسی درست ہے یا نہیں۔

مجھے نہیں معلوم یہ مضمون ’’اوراق‘‘ میں کیوں شائع نہیں ہوا۔ تاہم، میرا تاثر یہ ہے کہ جو وجہ بیان کی گئی، وہ ناکافی ہے۔

کچھ یاد آتا ہے کہ کسی اور جریدے کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا، ہم مرحوم لوگو ں پرمضامین شائع نہیں کرتے۔ اگر دوسرے جرائد سے جو رسیدیں موصول ہوئیں، وہ میں تلاش کر پایا تو ان کی نقل بھی پیش کر دی جائے گی۔

خان محمد فضل الرحمٰن بہت بڑے ناول نگار تھے۔ کم از کم میں تو یہی رائے رکھتا ہوں۔ بالخصوص ’’آفت کا ٹکڑا‘‘ اردو کے ہی نہیں، بلکہ دنیا کے بڑے ناولوں میں شمار ہونے کا مستحق ہے۔ یہ ایک  ایسا ناول ہے، جسے خان صاحب نے نہیں لکھا، بلکہ اس ناول نے خود کو ان سے لکھوایا۔ جب 1962 میں یہ ناول شائع ہوا تو اس پر پابندی عائد ہو گئی تھی۔

یہ ستّر  کی دہائی کی بات ہے، میں باقاعدگی کے ساتھ پاک ٹی ہاؤس (لاہور) جایا کرتا تھا۔ خان صاحب کو اکثر وہاں دیکھا۔ حلقۂ اربابِ ذوق کے اجلاس کے دوران گفتگو بہت جوش و اشتعال آمیز انداز میں کرتے۔ یہ گفتگو مذہب آمیز بھی ہوتی تھی۔ نماز کا وقت ہوتا تو وہیں کرسی پر بیٹھے سب سے بے خبر نماز بھی پڑھ لیتے۔ جب یہ مضمون میں نے حلقے میں پڑھا تو خان صاحب موجود تھے۔ مجھے اب یاد نہیں، انھوں نے اس پر کیا کہا، یا کچھ کہا بھی یا نہیں۔ اگر اس دن کی حلقے کی کاروئی محفوظ ہو تو اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس مضمون پر ان کی کیا رائے تھی۔ ہاں، اتنا یاد پڑتا ہے کہ وہ خوش ضرور ہوئے تھے۔

یہ بات مجھے قطعاً سمجھ نہیں آتی کہ انھیں ان کی زندگی میں بھی اور اس کے بعد بھی نظر انداز کیوں کیا گیا۔ بلکہ اب بھی نظر انداز کیوں کیا جاتا ہے۔ کیا اس کا سبب شخصیت پسند دھڑے بندیاں تھیں اور ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ خان صاحب کسی دھڑے سے بھی وابستہ نہیں تھے۔ اس کا ثبوت یہ چیز بھی ہے کہ جب یہ مضمون ’’اوراق‘‘ اور ’’فنون‘‘ (میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ مضمون ’’فنون‘‘ کو بھیجا گیا تھا یا نہیں؛ کیونکہ ان دنوں میرے کچھ مضامین ’’فنون‘‘ میں شائع ہوئے تھے، سو امکان یہی ہے کہ اسے بھی  بھیجا ہو گا!) کو بھیجا گیا تو بوجوہ کسی بھی جریدے میں جگہ نہیں پا سکا۔

گو کہ خان صاحب کو ٹی ہاؤس میں دیکھا ہوا تھا اور ان کی گفتگو بھی سنی تھی، مگر ان کی تحریروں سے میرا تعارف کلر سیداں (تحصیل کہوٹہ، ضلع راولپنڈی) جا کر ہوا۔ بطور لیکچرر میری پہلی تعیناتی کلرسیداں کالج میں ہوئی۔ خوش قسمتی سے لائیبریری کا انتظام میرے ذمے ہوا۔ یہ ایک پرانی لائیبریری تھی۔ کتابوں کی پھولا پھالی میں ’’آفت کا ٹکڑا‘‘ نظر آیا، اور میرے دل اور نظر دونوں کو جیت بیٹھا۔ ایک مرتبہ پڑھا، دوسری مرتبہ پڑھا، اور پھر مجھے جناب اعجاز حیسن بٹالوی کے ’تعارف‘ نے مجبور کیا کہ اس ناول کو جیسے میں سمجھ رہا تھا، اس طرح پیش کروں۔

سرنامے پر اسے ’’ناول‘‘ لکھا گیا ہے، اور غالب کا یہ شعر بھی درج ہے:

میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا

میری یہ کوشش رہی کہ خان صاحب کی تحریرں اکٹھی کروں۔ اور پھر ان پر لکھوں اور انھیں ان کا جائز مقام دلوانے کے لیے جو کر سکتا ہوں، کروں۔ یہ منصوبہ اب بھی میرے پیشِ نظر ہے۔ یہی خواہش تھی، جس کے سبب مرحوم اسرار زیدی نے خان صاحب کے ایک اور ناول کا مسودہ مجھے دیا تھا اور اسے دیکھنے اور صاف صاف لکھنے کے لیے کہا تھا۔ یہ ہاتھ سے لکھا مسودہ تھا؛ اس کا نام یاد نہیں رہا۔ یہ کشمیر کے بارے میں تھا۔ تاہم، میری مصروفیات کی وجہ سے تاخیر ہو رہی تھی، اور زیدی صاحب نے یہ مسودہ واپس لے لیا۔ خبر نہیں اب یہ کہاں اور کس کے پاس ہے۔ چھپا یا نہیں۔ یا کس حال میں ہے۔

بہر حال، خان صاحب کی جو دوسری تحریریں دستیاب ہوئیں، میرے پاس محفوظ ہیں، اور ان پر لکھنے کا ارادہ بھی قائم ہے۔ ان کی تفصیل اس طرح ہے:

ادھ کھایا امرود
(خان فضل الرحمٰن)



کھٹ مٹھے، درد بھرے نشاطیہ پرانے اور نئے افسانے
مکتبہ میری لائبریری، لاہور، 1988
صفحات: 183

خان صاحب نے اس کتاب کا ’’انتساب‘‘، ’’بنام اردو‘‘ رکھا ہے اور اسی عنوان سے اردو کا ’’سراپا‘‘ بیان کیا ہے، یعنی اس کی شان میں قصیدہ لکھا ہے۔

تعارف از ڈٓاکڑ وحید قریشی

شامل افسانے: ناگری، الائچی دانہ، ادکھ کھایا امرود، ننگ پیری، ترلوکی، دھومن، باجے والا، فتنہ بغداد

اس کتاب کی پشت پر ’’مصنف کے حالاتِ زندگی‘‘ بھی دیے گئے ہیں، جو ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:

’’خان فضل الرحمٰن مغربی یوـ پی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے جو نہر جمن مشرقی کے کنارے تھا۔ وہ ڈیڑھ سال کے تھے کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ ان کی پرورش ننھیال میں ان کی نانی نے کی تھی۔ مگر یہ ان کی شفقت سے بھی محروم ہو گئے تھے، کیونکہ وہ بھی چند سال کے بعد فوت ہو گئی تھیں۔ انہی سے انہیں کافی سکنی اور زرعی جائیداد ملی تھی۔ اب والد نابالغ کے ولی مقرر ہوئے تھے۔ نابالغ کو ولایت جا کر تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا مگر والد نے کافی استطاعت کے باوجود ان کی یہ تمنا پوری نہ کی۔ خان صاحب سہارنپور مسلم لیگ کے جوشیلے کارکن تھے۔ انہیں مجبوراً پاکستان آنا پڑا تھا۔ یہ راوین ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج سے بی ـ اے پاس کیا تھا۔

خان صاحب نے جو طفولیت کے کچھ سال گاؤں میں گزارے تھے، وہی ان کی زندگی کا عطر ہے۔ گاؤں سے کچھ فاصلہ پر کوہِ شوالک تھا، پھر دون اور اسکے بعد ہمالیہ۔ ان کی اوائل عمر کھیتوں، مویشیوں، پرندوں، اور جنگلوں میں گزری تھی۔ ان میں اب بھی دیہاتیوں جیسی جھجک موجود ہے۔ یہ اب بھی کسی بڑے ہوٹل یا شاندار دکان میں داخل ہوتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ ان کے ناولوں اور افسانوں میں دیہات و کوہساروں کی طرفگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے ٹرائے، قرطاجنہ، ہند قدیم، اندلس، برطانیہ، ترکی، کشمیر اور مغربی یو ـ پی کے متعلق ناول اور افسانے لکھے ہیں۔ ان کا موضوع حسن اور اسلام ہے۔‘‘

غالب نام (ناول)
غالب اور ڈومنی (ناولٹ) 
(خان فضل الرحمٰن خان)



یہ کتاب، جس میں ایک ناول اور ایک ناولٹ شامل ہے، انھوں نے خود چھاپی۔
اشاعت بار اول مئی 1993، اور ملنے کا پتہ: خان فضل الرحمٰن خان ایڈوکیٹ، نابھہ روڈ، لاہور، درج ہے۔
صفحات 192۔

کتاب کی پشت پر ’’مصنف کی دوسری تصانیف‘‘ کی فہرست دی گئی ہے۔ اسے مستند سمجھنا چاہیے۔

ناول: آفت کا ٹکڑا، سلک اوک ٹاؤن، ترک بہادر، نیا خون، غالب نام، غالب اور ڈومنی (ناولٹ)، نرناری زیرِ اشاعت۔
افسانے: ادھ کھایا امرود، درشن رین، افسانے (زیر طبع)
شاعری: گھنی چھاؤں میں

گھنی چھاؤں میں
(خان فضل الرحمٰن خان)



یہ کتاب بھی انھوں نے خود شائع کی۔ سال اشاعت 1992 ہے۔
صفحات 112۔
اس میں کل 66 نظمیں، قطعات، وغیرہ، شامل ہیں۔ ابتدا میں ’’برائے خود می گوید‘‘ کے تحت اپنی شاعری کا تعارف لکھا ہے۔  

ایک ناول اوراس کا تعارف

ناول ہے خان محمد فضل الرحمن کا ”آفت کا ٹکڑا“۔ مکتبۂ جدید، لاہور، سے یہ پہلی بار 1962 میں طبع ہوا۔

اس کا تعارف اعجاز حسین بٹالوی کا لکھا ہوا ہے۔

ابتدا میں ہی یہ بتا دینا ضروری ہے کہ دو باتیں اس تحریر کی محرک ہیں: اول، ’’تعارف‘‘ میں ”آفت کا ٹکڑا“ کو ”معلمِ اخلاق“ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس سے ناول کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے؛ اور، دوم، ناول خود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے ایک بار پھر اہلِ نظر کے سامنے لایا جائے۔

پہلے ہم ”معلمِ اخلاق“ والی بات کی طرف آتے ہیں۔ ناول کے دو بڑے کرداروں کا تعارف، ”تعارف‘‘، میں یوں کروایا گیا ہے: ”رومنے گارٹ اپنے آئیڈیل کی خاطر دنیا کی تمام راحتیں تج دیتا ہے، اپنے مطمحِ نظر کے لیے دکھ اٹھاتا ہے، غم سہتا ہے اور دنیوی لذت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اس کا کردار وہ آئینہ ہے جو اپنی شکستگی سے آئینہ ساز کو عزیز تر ہو جاتا ہے۔ ناول میں اس کردار کی شکست و ریخت کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ جب اس کی دنیوی وجاہت اور سماجی سطوت جل کر راکھ ہو جاتی ہے تو اسی راکھ سے ایک نئی شخصیت جنم لیتی ہے۔ دنیوی وجاہت کے اس انجام کے بعد رومنے گارٹ کا کردار ایک ایسی معراج کی طرف چلنے لگتا ہے جو روز بے کو نصیب نہیں۔“

اخلاق کا پہلا سبق یہاں ختم ہو جاتا ہے۔ اس اخلاقی سبق کو برآمد کرنے کے لیے، ناول میں موجود ’حقیقتِ واقعہ‘ سے، جس طرح انحراف کیا گیا ہے، اسے ہم فی الحال آئندہ کے لیے اٹھائے رکھتے ہیں۔

اخلاق کا دوسرا سبق دوسرے بڑے کردار روزبے کے تعارف سے شروع ہوتا ہے: ”روزبے اس (یعنی رومنے گارٹ کے) اندازِ نظر کا متضاد نمونہ ہے۔ روز بے انسانی کردار میں کھلنڈرے پن اوراخلاقی غیر ذمہ داری کی ایک مہیب علامت ہے۔ وہ ایک عمر رسیدہ بچہ ہے جو حوا کی بیٹیوں سے کھلونوں کی طرح کھیل رہا ہے۔ محبوباﺅں کو جل دے کر بھاگ جاتا ہے۔ گاﺅں کا الٹھر لڑکیوں کو شادی کے روز راہ راست سے بھٹکانے کی کوشش کرتا ہے۔ باپ کی مصیبتوں میں اس کا ہاتھ نہیں بٹاتا۔ ساری کائنات میں سب سے زیادہ اہمیت اپنے آ پ کو دیتا ہے۔ خود پرست ہے اورکوئی اخلاقی پابندی اپنے اوپر عائد نہیں کرتا۔

”روزبے کے کردار کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ قدرت نے اسے حسنِ جسمانی سے جی بھر کر نوازا ہے۔ اس کا جمال صنفِ مخالف کے لیے مقناطیس کا اثر رکھتا ہے اورایک نظرغور سے دیکھیے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے حسن و جمال کی یہی فراوانی روز بے کی اخلاقی بے راہ روی کا باعث بنی ہے - - - وہ اپنے ظاہری حسن کی رعنائیوں میں اس قدر کھویا ہوا ہے کہ خود پرستی کی اس قید نے اس پر اخلاقی سفر کے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔“

تعارف کے بعد، روز بے کے کردار کی ’تشریح‘ یوں کی گئی ہے: ” - - - اس ناول کا محور اسی کردار (یعنی روزبے) کی جنسی زندگی ہے۔ روز بے کی جنسی زندگی ایک ” تکرارِ تمنا“ ہے۔ ایک ایسا مجبوری کا عمل ہے جسے نفسیات والے Repetition Compulsion کا نام دیتے ہیں۔ جنس محض ایک جسمانی عمل کا نام نہیں بلکہ اپنے وسیع معنوں میں وہ قوت ہے جو تمام تر انسانی زندگی میں جلوہ گر ہوتی ہے اور بالخصوص اس کا مظاہرہ مرد و زن کے تعلقات میں ہوتا ہے۔ اس قدیم ترین انسانی رشتے میں بھی جنس محض اتصالِ جسمانی کا نام نہیں۔ لیکن روزبے کے نزدیک جنس اس کے ماورا کچھ نہیں اوراسی لیے اس ناول میں روزبے ایک ایسا کنایہ ہے جس کے معانی یہ ہیں کہ جنسی زندگی محبت اور باہمی احترام سے محروم ہو کر ایک بد صورت چیز رہ جاتی ہے۔ جسم طلبِ محض کے لیے ایک آلہ بن جاتا ہے۔ اور خواہش کے سامنے ایک سدھائے ہوئے جانور کی طرح میکانکی عمل کرتا ہے۔ روزبے کا ہر جنسی عمل اس کی ”نرگسیت“ کی تسکین ہے۔ اسی لیے و ہ شریکِ عمل کے جذبات کی پروا نہیں کرتا اورہر عمل کو ایک نئی تسخیر سمجھ کر اپنی انا کی تسکین کرتا ہے۔ یہ جنس کی ایک مہیب تصویر ہے۔“

روزبے کے کردار کے تعارف اور تشریح میں بھی ناول کی ’حقیقتِ واقعہ‘ کچھ اس طرح مجروح ہوتی ہے کہ اخلاقی سبق تو سامنے آ موجود ہوتا ہے، لیکن روز بے کا کردار جو کچھ ناول میں ہے وہ نہیں بن پاتا اورجو کچھ ناول میں نہیں، وہ بن جاتا ہے۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ناولی کردار، اخلاقی کردار کے ہم معنی ہو جاتا ہے! اس مسئلے کی طرف ہم بعد میں آئیں گے، پہلے کچھ بات ناول اور اس کے کر داروں کے بارے میں ہو جائے، تو بہتر رہے گا۔

”آفت کا ٹکڑا“ کا بنیادی تنازعہ (Issue) فرد اور اس کے معروض میں جبلی و شعوری کی کشمکش ہے۔ یہاں اس کشمکش کو کوئی اخلاقی یا مذہبی رنگ دیے بغیر ایک واقعی مسئلے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ناول واقعیت سے بالا ایک واقعیت تعمیر کرتا ہے۔ یہ واقعیت نما غیر واقعیت ناول اور اس کے مزاج سے اس طرح ہم آہنگ ہے کہ کھَلتی نہیں، بلکہ فنی تکمیل کا سبب بنتی ہے۔ ناول کی غیر واقعیت میں بتدریج حقیقی تاریخی اشخاص، واقعات اور مقامات کے پیوند لگائے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زبان کی مقامیت، طعنے مہنے، عورتوں کی خاص بولی، حسی و جذباتی سچائی کا حقیقت پسندانہ بیان، ان سب چیزوں نے مل کر ناول میں قابلِ اعتبار واقعیت کا رنگ پیدا کر دیا ہے۔ جبکہ اس کے مقابل ٹھوس واقعیت اور فکشن کی منطق سے روگردانی، بدیسی کردار اوران کے طویل مقامی، محاوراتی مکالمات، گفتگو کا ڈرامائی پن، اور بالخصوص کچھ وقوعوں کی ان کی حد سے زیادہ کھینچ تان (جیسے ڈاکیا بے ٹل کا تھریسا گارٹ کے پاس جانا اور واپس آنا)، وغیرہ، جیسی چیزوں نے ناول میں ورائیتی (Surrealistic) شائبہ پیدا کر دیا ہے۔

تاہم، واقعیت اور غیر واقعیت کے ملاپ سے کوئی مضحک شے جنم نہیں لیتی، بلکہ ان کا امتزاج، اور پھر نثر اور واقعات کا بہاﺅ، زبان کی چاشنی، اپنی کلیت میں ناول کو شاعری کے قریب لے آتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ یہ سب چیزیں ایک نقطے پر مرتکز بھی ہوتی ہیں۔ وہ نقطہ، ناول کا بنیادی تنازعہ ہے: یعنی جبلی و شعوری کی کشمکش۔ یہیں ناول کی فنی تکمیل ہوتی نظر آتی ہے: واقعیتی اور غیر واقعیتی کا امتزاج متذکرہ کشمکش کو برہنہ شکل میں سامنے لانے کے لیے ہے۔ شہوت آمیزی اور شہوت خیزی کو بھی اغلباً اسی مقصد کے تحت کام میں لایا گیا ہے۔

عام طور پر فکشن کی نپی تلی ظاہری منطق کی مدد سے چوکس باطنی منطق کی تحصیل ممکن ہوتی ہے۔ ظاہری منطق سے مراد یہاں کسی فکشن پارے میں واقعاتی، کرداری، زمانی و مکانی، وغیرہ، متعلقات اور لوازمات ہیں، جبکہ فکشن کی باطنی منطق سے مراد، معنیاتی سطح پر فکشن پارے کی فکری معنویت کی تکمیل ہے۔ لیکن ”آفت کا ٹکڑا“ میں ظاہری منطق کے ڈھیلے ڈھالے ہونے کے باوجود اس کی باطنی منطق نہایت چوکس اور مکمل ہے (جیسا کہ آگے چل کر دکھایا جائے گا)۔ اسی بات کو بہ الفاظِ دیگر یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ واقعیت اور غیر واقعیت کی کامیاب فنی تزویج نے یہ کرشمہ کر دکھایا ہے۔

یہ ناول محض جبلی و شعوری کی کشمکش کا مرقع ہی نہیں، اس کشمکش کے بارے میں حکم بھی لگاتا ہے؛ اور اسی میں ناول کی اہمیت پوشیدہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ ”آفت کا ٹکڑا“ میں جبلی وشعوری کے غیر توازن کو کھلے طور پر پیش کرنا یہ حکم لگانے کے مترادف ہے کہ ایک نیا توازن ناگزیر ہے۔ یوں یہ ناول فرد اور معاشرے میں جبلی و شعوری کے ایک نئے توازن کی ضرورت کا احساس دلاتا - - - اور اس پر غور فکر کی دعوت دیتا ہے۔

اس ناول میں تین بڑے کردار ہیں: روزبے، رومنے گارٹ، جرسی۔ جرسی، رومنے گارٹ کی منگیتر ہے، لیکن روزبے کے تحرک خیز طلسم میں گرفتار ہو کر بالآخر اس کے ساتھ رشتۂ ازواج میں منسلک ہو جاتی ہے؛ اور شکستہ رومنے گارٹ کسی غیر آبادی کو سدھار جاتا ہے۔ متذکرہ کشمکش ان تینوں میں اور ان تینوں سے تجسیم پاتی ہے۔ باقی کردار ان کے حوالے سی ہی متشکل ہوتے اور اس کشمکش کے مختلف داخلی اور خارجی پہلوﺅں کو ابھارتے ہیں۔

روزبے مجسم جبلی ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ خالص جبلت ہے۔ اس کے مقابلے میں رومنے گارٹ مجسم شعوری ہے۔ اور جرسی بظاہر مجسم شعوری ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کے جبلی کا ظہور یہ بتاتا ہے کہ وہ جبلی و شعوری کے متغیر تناسب کی مظہر ہے۔

رومنے گارٹ کو معروض میں موجود جبلی و شعوری کی کشمکش، داخلی کشمکش کی طرف لاتی ہے۔ وہ اپنی داخلی کشمکش کی وجہ سے اس طرف نہیں آتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے اندر کے جبلی کو اپنے شعوری تلے اس طرح دبایا ہوا ہے کہ وہ مردہ یا قریب المرگ محسوس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ معروض میں موجود کشمکش بھی اس میں زندگی کی رمق پیدا کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ اپنی اس کشمکش میں رومنے گارٹ ایک مرحلے پر اپنے مذہبی سے بھی انقطاع کر لیتا ہے۔ اس کا مذہب سے انحراف، اس کے شعوری کی تکمیل کی طرف اشارہ ہے۔ اس طرح وہ مجسم شعوری کے کمال کو پا لیتا ہے؛ اور بالآخر ’لاعلاج مریض‘ بن کر ’بن باس‘ اختیار کر نے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

جرسی شعوری سے ایک طویل کشمکش کے بعد جبلی میں منقلب ہو جاتی ہے۔ اس کا یہ تقلب، حادثاتی نہیں، اس کے اپنے اور ناول کی کہانی دونوں کے لیے لازمی ہے۔ جرسی کی ’ قلبِ ماہیت‘ یوں نہیں ہے کہ وہ پہلے شعوری تھی، پھر تبدیل ہو کر جبلی ہو گئی۔ اس میں، ایک کا عدم، دوسرے کا وجود نہیں۔ بلکہ پہلے میں دوسرا موجود رہتا ہے۔ جرسی میں جبلی، اس کے شعوری میں سے ابھرتا ہے۔ وہ ایک مثالی توازن کا نمونہ تو نہیں؛ ہاں، اسے ایک نئے توازن کی تلاش میں سر گرداں اور برسرِعمل ضرور کہا جا سکتا ہے، کیونکہ ناول ختم ہونے کے باوجود جرسی کی آزمائش جاری ہے۔

روزبے کا تو ذکر ہی کیا! وہ تو مجسم جبلی ہے۔ اس کا وجود پرانے توازن کی غیر اطمینان بخش صورتِ حال اور نئے توازن کی عدم موجودگی اور ضرورت کے احساس کو شدید کرنے کے لیے ہے۔ اس کے مقابل آ جانے سے، جرسی کا غیر متوازن ہو جانا (اگرچہ اس میں اس غیر توازن کا بیج پہلے سے موجود ہے!) اور پھر جبلی و شعوری کی طویل صبر آزما کشمکش میں مبتلا ہونا، اور ایک نئے توازن کے حصول کے لیے، آخرِ کار، رومنے گارٹ کو چھوڑ کر روزبے کو اپنا لینا - - - یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ پرانے توازن میں جبلی کا مقام نظرِ ثانی کا متقاضی ہے۔ نئے توازن میں یہ مقام کیا ہو گا؟ ناول اگرچہ اس مسئلے کو بحث و نظر کے لیے کھلا چھوڑ دیتا ہے؛ تاہم، اتنا ضرور بتاتا ہے کہ شعوری میں جبلی کا مقام تو غیر اطمینا ن بخش ہے ہی، مذہبی-شعوری میں اس کا ’مقام‘ قطعاً غیر تسلی بخش ہے۔

ناول میں مذہبی، شعوری کے ایک حادثاتی تکملے، حصے یا شکل کے طور پر آیا ہے۔ یہ جبلی سے منافقانہ بغاوت اور جھوٹی پردہ داری کا مظہر ہے۔ یہ جبلی کو صرف دبانا ہی نہیں چاہتا، بلکہ اپنے آدرش میں اسے فنا کر دینے کا عزم رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو کسی دوسرے کے لئے گڑھا کھودتا ہے، خود اس میں گرتا ہے۔ اس مذہبی-شعوری کے حامل رومنے گارٹ، بشپ فرینکو گریپیو، اس کی بیٹی ایریو گریپیو، اور میلوہیلاس ہیں۔ رومنے گارٹ مذہبی سے چھٹکارا پا لیتا ہے اور معروض میں موجود جبلی و شعوری کی کشمکش انجام کار اسے وہاں پہنچا دیتی ہے، جہاں شعوری کے ثمرات اور حاصلات بھی پہنچ نہیں سکے ہیں۔ بشپ فرینکو کی منافقانہ بغاوت اور جھوٹی پردہ داری، اور اس کی تبلیغ، اس کی اپنی زندہ رہنے کی تگ و دو ہے۔ وہ رومنے گارٹ سے ’عطیات‘ کی رسد بند ہوجانے کے بعد ’عطیات‘ ہی کی خاطر روزبے کا دامن گیر ہوجانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا- وہی روزبے، جس سے وہ انتہائی نفرت اور حقارت سے پیش آ چکا ہے۔ اور شاید اب اسے روزبے کا اپنی بیٹی ایریو گریپیو کو اپنے دام میں لانا بھی برا نہ لگے!

ایریو گریپیو مذہبی۔شعوری و جبلی کا چھلکتا ہوا پیمانہ ہے۔ کشمکش اس کے اندر موجود ہے، لیکن وہ اپنی کشمکش پر قابو پائے ہوئے ہے؛ روزبے کے مقابل آ کر بھی۔ اس کا توازن بیک وقت نازک اور غیر متزلزل ہے۔ یوں کہہ لیں کہ وہ مذہبی۔شعوری میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ اور روزبے، مجسم جبلی اس کے درپے ہے۔ ناول ختم ہو جاتا ہے، لیکن یہ کشمکش ابھی چل رہی ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مذہبی۔شعوری حقیقتاً جبلی سے خوفزدگی کا طلسم ہے۔ یہ جبلی کو دبانا ہی نہیں، فنا کر دینا چاہتا ہے۔ سماجی رتبہ حاصل کرنے سے قبل بشپ فرینکوکا روزبے سے رویہ، اور ایریو گریپیو کی ’طرح داریاں‘ اسی حقیقت کی غماز ہیں۔ اگر یہ فرض کیا جائے کہ ایسا نہیں ہے، تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ روزبے گمبری کے پیچھے کیوں نہیں ہے۔ اس نے اسے فراموش کیوں کر دیا ہے، اور ایریو گریپیو کو کیوں فراموش نہیں کرتا؟ (اس کا ایک سبب ایریو گریپیو سے اپنی ہتک کا بدلہ لینا بھی ہو سکتا ہے!) گمبری اپنے جبلی سے قطعاً منحرف نہیں۔ اس کے ساتھ سچی اور وفادار ہے۔ لیکن شعوری کے دباﺅ کے تحت وہ اپنی عصمت کو اپنے پتی کی امانت سمجھتی ہے، اور روزبے سے ملاپ کی تمنا لیے ہوئے جبلی کے پجاریوں، پانچ بھائیوں، کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ روزبے کو صداقت، بیساختہ صداقت، ”مطمئن“ کر سکتی ہے! جیسے گمبری اسے مطمئن کرتی ہے۔ لیکن منافقت اسے کسی بھی شکل میں مطمئن نہیں کر سکتی۔ جیسے ایریو گریپیو کا اس کے ساتھ منافقانہ عمل۔

جہاں تک میلو ہیلاس کا تعلق ہے، وہ اگرچہ مذہبی۔شعوری ہے، لیکن گمبری کی طرح اپنے جبلی کے ساتھ سچی اور وفادار بھی ہے۔ وہ لمحہ بھر میں مذہبی۔شعوری سے جبلی میں منقلب ہو جاتی ہے۔ تاہم، اس کی یہ قلبِ ماہیت مذہبی۔شعوری کے جکڑ بند نظام میں اس کے وجود کو ہی ختم کرنے، یعنی خود کشی کا سبب بن جاتی ہے۔ اسی بات کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس کی قلبِ ماہیت لمحاتی اور عارضی ہے۔ میلو ہیلاس اپنی ’تسبیح و تہلیل‘ یعنی اپنے مذہبی۔شعوری کو جبلی کے لیے فوراً  تج دیتی ہے۔ شعوری سے جبلی میں اس کا انقلاب اس لحاظ سے مکمل نہیں ہے کہ اسے اس کے لیے باہر کا سہارا درکار ہے۔ جبکہ، اس کے مقابلے میں جرسی کی قلبِ ماہیت خارجی سہارے کی محتاج نہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس نے روزبے کو حاصل کر لیا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ ایک طویل کشمکش کے بعد اس کا جبلی اس کے شعوری پر غالب نہیں آیا، بلکہ اس کا حصہ بن گیا ہے۔ میلو ہیلاس میں اس کا شعوری، جو کہ مذہبی۔شعوری ہے، اس طویل کشمکش کی کٹھنائیوں میں سے نہیں گزرا۔ اس کا روزبے کے ساتھ بغیر سوچے سمجھے سفر پر روانہ ہو جانا، غیر شعوری طور پر جبلی کے دھارے میں بہہ جانا ہے۔

رومنے گارٹ کو معروض کا شعوری اور، اس کے مقابلے میں، روزبے کو معروض کا جبلی بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رومنے گارٹ ناول میں معروض (یعنی معاشرے) کے شعوری کا آئیڈیل، اور روزبے معروض (یعنی معاشرے) کے جبلی کو بھڑکانے والا بن کر ظاہر ہوتے ہیں۔ ایک طرف اگر رومنے گارٹ کا سلسلۂ نسب، سکندرِ اعظم سے ملتا ہے، تو دوسری طرف، اس کے حریف، روزبے کی پیدائش بھی مظہراتی ہے۔ وہ مذہبی۔شعوری کی ایک ”لغزشِ جبلی“ کا حسین ترین شہ پارہ ہے۔ لیکن ’ڈاکیا بے ٹل‘ کے فرزند کی حیثیت میں، پست اور ارذل سماجیت سے منسوب ہے (پر اس کے باوجود بھی معروف و مقبول ہے!)۔ اس کے اصل انتساب کا انکشاف (یعنی آرکیبالڈ لیمبرٹ، سماجی طور پر ایک کامیاب فرد، سے اس کا تولد) رومنے گارٹ کی کامیاب سماجیت کو پاش پاش کر دیتا ہے۔

روزبے اگرچہ رومنے گارٹ کی ’’مردانہ وجاہت“ کا حامل نہیں، جو کہ شاہانہ اور اشرافیانہ توارث اور ایک سماجی شے اور تصور ہے۔ لیکن وہ اس سب سے بڑھ کر ”حسن مردمی‘‘ کا شاہکار ہے، جو اسے فطرت کی طرف سے ملا ہے۔ وہ خالص جبلی ہے، اور جبلی ہوتے ہوئے جرسی کی ”ہوس“ میں گرفتار ہوتا ہے، جس پر پہلے شعوری کا غلبہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرسی بھی اس کی ’پیاسی‘ ہو جاتی ہے۔ جرسی کی اس کے لیے پیاس، اس بات کی مظہر ہے کہ پہلے توازن میں اس کا جبلی مقابلتاً بے وزنی کا شکار ہے۔ روزبے اور جرسی کا ملاپ، جبلی اور شعوری کا ملا پ ہونے کے ساتھ ساتھ روزبے اور جرسی کے جبلی کی ہی نہیں، بلکہ معروض کے جبلی کی ’فتح‘ بھی ہے، اور جرسی اور معروض (یعنی معاشرہ)، دونوں کے پرانے توازن کی تخریب، اور نئے توازن کی ابتدا بھی۔ مزید یہ کہ روزبے کی جرسی کے ساتھ شادی اور ان کا ایک ’بندھن‘ میں بندھ جانا، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ روزبے نے جرسی کو ’فتح‘ نہیں کیا، بلکہ خود اس سے ’فتح‘ ہو گیا ہے۔ روزبے کے حوالے سے یہ، ڈی۔ ایچ۔ لارینس کے الفاظ میں، ’مرکزآشنا جنسیت‘ (Centralised Sexuality)، اور جرسی کے حوالے سے نئے توازن میں جبلی کا ایک زیادہ باعزت مقام ہے۔ ناول میں یہ ’وقوعہ‘ روزبے کی تغییرِ ماہیت کے آغاز کی طرف اشارہ بھی متصور کیا جا سکتا ہے۔ ناول کے آخری صفحات شاہد ہیں کہ وہ اپنی ’ قلمرو‘ کو محدود کر چکا ہے۔ اب اس میں صرف ایریو گریپیو کو ’تسخیر‘ کرنے کی حسرت باقی رہ گئی ہے۔ میلو ہیلاس کی خود کشی پر اس کا متاسف ہونا اور اس کی یاد کو زندہ رکھنا، اسی اشارے کو تقویت پہنچاتے ہیں (اگرچہ اس کے مقابلے میں میلو ہیلاس اور تھریسا گارٹ سے اس کی بدسلوکی بھی موجود ہے!)۔

تھریسا گارٹ، پیدائشی بے حسن، ایک ’مٹی کا دیا‘ اور، روزبے کی آرزو مند، انسان کی فطری محرومی کا المیہ ہے۔ وہ روزبے کے فطری عطا کے رنگ کو گاڑھا کرنے کے لیے ہے۔ روزبے کا مسحور کن اور مسخر کر لینے والا حسن فطری دین ہے۔ اس کے پاس ’شعوری کا حاصل‘ نام کی کوئی چیز نہیں۔ سب کچھ فطری عطا کی بدولت، ایک طرح سے، اس کے راستے میں خود بخود آتا جاتا ہے۔ جبکہ تھریسا گارٹ اس کا ’قربِ دید‘ بھی اپنے شعوری کی وجہ سے ہی حاصل کر پاتی ہے۔ اور جب روزبے، وہ سب کچھ حاصل کر لیتا ہے، جس کے حصول میں تھریسا، اس کی مدد گار ہو سکتی تھی، تو وہ اسے ٹھوکر مار دیتا ہے۔ وہ ’خلق کی راندی ہوئی‘،  اپنے شعوری کے بل بوتے پر بھی کامیاب سماجی زندگی نہیں جی سکتی۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ اپنے وجود کے لیے فطری عطا (جو اس میں فطری محرومی سے عبارت ہے)، یعنی روزبے کی صورت میں، باہر کے سہارے کے ذریعے جینے کی عادی ہو چکی ہے۔ وہ اپنی فطری محرومی تلے اس حد تک کچلی ہوئی ہے کہ ’رقابت‘ کے احساس سے بھی عاری ہو چکی ہے، بلکہ اس سے بھی چند قدم آگے جا چکی ہے: رانا جو ڈاکے والوں میں آئے / میں جا کر آپ لٹ جاﺅں۔ رانا جو چوری کرنے کو آئے / گھر کے سارے راز بتاﺅں۔ رانا کو کوئی گوری جو بھائے / سیجوں پر لا کر ساتھ سلاﺅں۔

تھریسا گارٹ اپنی ’تباہی‘ کے ساتھ ساتھ اپنے عزیز، رومنے گارٹ کی ’تباہی‘ کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ فطری محرومی، انسان کے سماجی وجود کو نفی کر دیتی ہے، اور اضدادی طورپر فطری عطا کو سماجیت میں بڑھا چڑھا کر مقام بھی دلواتی ہے۔ اور اس طرح اپنے وجود کی ’تصدیقِ مستعار‘ حاصل کرتی ہے۔ دوسری طرف، سانڈرس بھی فطری محرومی کا شکار ہے، لیکن اسے یہ محرومی جبلی کا دائمی مریض بنا دیتی ہے۔ جبکہ تھریسا گارٹ فطری محرومی کو اپنے شعوری کا حصہ بنا لیتی ہے۔ اور اس کی وجوہات ہیں اور وجوہات تو اس کی بھی موجود ہیں کہ کس طرح روزبے کی فطری عطا، اسے سماجی عطا سے بھی ہمکنار اور سرشار کر دیتی ہے (یا ’’تعارف‘‘ کے مطابق کس طرح اس کی ’اخلاقی بے راہ روی‘ کا باعث بنتی ہے)۔ ناول میں تھریسا کی ’بد انجامی‘ اور روزبے کی ’خوش انجامی‘ اس مسئلے کے دونوں پہلوﺅں کو سامنے لاتی ہے: فطری محرومی یا فطری عطا، سماجی محرومی یا سماجی عطا کا سبب کیوں؟! روزبے فطری عطا کے باعث سب کچھ پا لیتا ہے اور تھریسا فطری محرومی کے باعث روزبے کو بھی نہیں پا سکتی؛ بلکہ اپنے وجود کو بھی کھو دیتی ہے، اور اسی مقام کو اپناتی ہے، جو رومنے گارٹ کا بھی مقدر بن گیا ہے: یعنی ’موضع اترا نگری، دورافتادہ اور غیر متمدن علاقہ۔‘

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ فطری عطا اور فطری محرومی کے سماجی عطا اور سماجی محرومی سے تعلق کا مسئلہ دراصل جبلی و شعوری کے توازن کے مسئلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ دونوں مسائل ایک دوسرے کی شدت اور نزاکت کو بڑھا چڑھا کر سامنے لاتے ہیں۔ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ ناول میں گریز کا حربہ استعمال کیا گیا ہے، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ناول کا بنیادی مسئلہ فطری عطا و محرومی اور سماجی عطا و محرومی کے مابین ’علتی رشتہ‘ ہے: یعنی یہ کہ خوبصورتی اور بد صورتی کیا ہیں۔ آیا یہ جبلی کی دین ہیں یا شعوری کی؟ یا دونوں کا توازن، خوبصورتی اور بدصورتی کی تعریف و تعیین کر تا ہے۔ تاہم، اس صورت میں بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہر جگہ مسئلہ وہی جبلی و شعوری کے نئے توازن کے حصول کا ہے۔

ناول میں شاعر کا کردار، بے طلب و بے غرض حسن کی پرستش کا مظہر ہے۔ اس کے نزدیک حسن، جبلی یا صنفی نہیں، وہ خود حسنِ محض (اور ’حسابِ دوستاں در دل‘) کا قائل ہے۔ لیکن ناول میں اسے صرف ایک ’عمل انگیز‘ کے طور پر لایا گیا ہے۔ وہ بڑا کھرا جوہری اور پارکھ ہے۔ حسن، چاہے وہ جبلی کی صورت میں مجسم ہو، یا جبلی و شعوری کے امتزاج کی صورت میں، وہ اسے فوراً جان اور پہچان لیتا ہے۔ وہ جرسی کے حسن کی تعریف میں گیت لکھتا ہے: ایک فرنگی کنیا جس کے کنچن کیس، وغیرہ۔ اور روزبے کا عاشق ہے۔ جرسی، ’کھجور پر بیٹھی ہوئی فاختہ‘،  کو پانے کے لیے رومنے گارٹ کے ’شعوری-سماجی ہالے‘ کے خلاف، روزبے کی ہمت بندھاتا ہے۔ شاید وہ بھی روزبے اور جرسی کے ملاپ میں جبلی و شعوری کے ایک نئے توازن کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نئے حسن اور نئے تصورِ حسن کا منتظر ہے!

جہاں تک جرسی اور رومنے گارٹ کا تعلق ہے، وہ محض فطری عطا کے سبب سماجی عطا کے حامل نہیں۔ جرسی کی سماجی عطا، جبلی و شعوری کے امتزاج کا نتیجہ ہے۔ جبکہ رومنے گارٹ کی سماجی عطا، اس کے شعوری کی دین ہے۔ لیکن وہ ایک ’کامیاب غیر توازن‘ کے باعث سماجی محرومی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور جرسی ایک ’ناکامیاب غیر توازن‘ کے سبب ایک نئے توازن کی جرأت آمیز تلاش میں سماجی عطا کو پاتی ہے۔

ناول کے دوسرے کردار، بیولا شوفاں، ریڈ روز، کلورینا، وغیرہ، جبلی ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان میں شعوری شاید ہے ہی نہیں۔ یا اگر ہے تو نہ ہونے کے برابر۔ لہٰذا، جبلی و شعوری کی کشمکش ان کے اندر کیونکر موجود ہو سکتی ہے (بالکل روزبے کی طرح!)! ہاں، وہ معروض میں موجود اس کشمکش کا حصہ ضرور ہیں (بالکل روزبے کی طرح!)۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ جبلی سے بھی نیچے چلی جاتی ہیں۔ وہ جبلی کی مریض ہو جاتی ہیں (صرف کلورینا شاید اس دائرے سے باہر نکلتی ہے!)۔ جیسے سانڈرس اور اس کے ساتھی۔ یہ سب پست جبلی یا جبلی کو ایک مریض کے طور پر پھیلانا چاہتے ہیں۔ ان کا کاروبارِ حیات یہی ہے، اور ان کی زندگی اور اس کی معنویت اسی میں ہے۔ لیڈی کیتھرائن نوف، ’نپٹ اندھی اور بہری بڑھیا‘،  پرانے توازن کی اندھی اور بہری محافظ ہے۔ اور (شاید) اندھے اور بہرے ہونے کی وجہ سے ہی وہ بغیر کسی پس و پیش کے، رومنے گارٹ کی جگہ، روزبے کو بھی جرسی کے لیے قبول کر لیتی ہے۔

برہمچاری اور جگاں، اور ان کی مواصلت کے مناظر، اور شاہی حکیموں کے خاندان کی پانچ لڑکیوں، افسر، مصطفائی، اصطفائی، رئیس اور مرتضائی کی روزبے کے ساتھ صحبتیں، یہ سب اور اسی طرح کے دوسرے کردار اور ان کے افعال و اعمال، اور واقعات، بشمول دوسری چیزوں کے، ناول کے مقامیتی تعلق کو اجاگر کرنے میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ناول میں بدیسی ناموں سے موسوم بڑے بدیسی کردار، شاید اس لیے انتخاب کیے گئے ہیں کہ (بصورت دیگر) کہیں ہماری نازک ’’دنیائے عقائد و اقدار“ میں ہنگامہ نہ کھڑا ہو جائے! تاہم، ناول کی مقامی منظریت اور مقامی کرداروں کا ہجوم، وغیرہ، ”آفت کا ٹکڑا‘‘ کو ہمارے معاشرے کا ناول اور اس کے بنیادی مسئلے کو ہمارے معاشرے کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے کا پورا پورا اہتمام کرتے ہیں۔ اس طرح یہ ناول ہمارے معاشرے کے عقائد و اعمال اور اس کی بالائی و زیریں دنیاﺅں کے تضاد اور تصادم کو سامنے لا کر ہمیں جبلی و شعوری کے ایک نئے توازن کے سلسلے میں سنجیدہ غور و خوض پر اکساتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ مختلف اقوام و مذاہب (کے لوگوں) کو کردار و واقعات کے حوالے سے اپنا حصہ بنا کر، یہ ناول جبلی و شعوری کی کشمکش کو ہمہ گیریت بھی دیتا ہے۔

ناول کے اختتام پر نکالا جانے والا نتیجہ، پر فریب اور گمراہ کن ہے۔ شاید ناول نگار، ناول لکھنے کے بعد ناول کی بھر پور، زندہ اور خود مکتفی کہانی اور اس کے جبلی سے خوفزدہ ہو گیا تھا۔ ناول کا آخری پیرا دیکھیے: ”جو زیا دہ زعم و پندار، مگراپن اور ٹر دکھایا کرتے ہیں، ان کا یہی حال ہوا کرتا ہے۔ قسمت خود سروں کا ساتھ نہیں دیا کرتی۔ ستارے ایسے بلند پروازوں کو جو ان سے بھی اوپر اڑنا چاہیں موافقت نہیں کیا کرتے۔ ایسوں کو بن باس ملا کرتا ہے اور ان کی لاعلاجی کا کوئی علاج نہیں ہوا کرتا۔“

یہ نتیجہ غیر فطری، غیر منطقی، اور ناول کی کہانی جو کچھ کہتی ہے، اس سے میل نہیں کھاتا۔ پھر ہمیں ڈی۔ ایچ۔ لارینس کی بات بھی یاد ہے کہ کہانی پر اعتبار کرو، کہانی کار پر نہیں۔ یہ نتیجہ ناول نگار کا کاغذی پھول ہے، ناول کا ثمر نہیں۔ اور ناول کی کہانی جو کچھ کہتی ہے، وہ اپنی سمجھ اور فہم کے مطابق ہم اوپر کہہ آئے ہیں۔ ویسے بھی اس مقتبس پیرے کا ناول سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ اسے ناول کے آخر میں لگا دینا بالکل ایسے ہی ہے کہ لالچی کتے کی کہانی سنا کر یہ نتیجہ نکالا جائے کہ (لالچ بری بلا نہیں بلکہ) گوشت بری چیز ہے۔ یا اگر یہ مان لیا جائے کہ یہی نتیجہ دکھانے کے لیے یہ ناول ”آفت کا ٹکڑا “ لکھا گیا ہے، تو یہ بات کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق ہوئی۔

اب ہم ایک مرتبہ پھر ناول کے ’’تعارف‘‘ کی طرف آتے ہیں۔ ’’تعارف‘‘ کے آخر میں ”آفت کا ٹکڑا“ کو ایک ’ادبی رپورتاژ‘ قرار دیا گیا ہے: ’’یہ ناول آزادیِ وطن سے پہلے کے ایک مخصوص طبقے کی تصویر ہے۔ یہ طبقہ اب قریب قریب مٹ چکا ہے اور دوبارہ کبھی واپس نہ آئے گا۔ اس اعتبار سے یہ ناول ایک ادبی رپوتاژ کی حیثیت رکھتا ہے۔“

درست ہے کہ ناول میں بڑے کردار بدیسی ہیں، جو کیسا پور کی نو آبادی میں آبا د دکھائے گئے ہیں؛ لیکن یہ سب مختلف اقوام و انسال سے متعلق ہیں: رومنے گارٹ یونانی النسل برطانوی ہے، جرسی انگلستان اور آئرلینڈ کے درمیان واقع ایک جزیرے سے متعلق ہے، روزبے یورپین ہے!، لارڈ بشپ فرینکو گریپیو، ایریوگریپیو، اور میلو ہیلاس اطالوی ہیں، بیولا شوفاں فرانسیسی نژاد ہے، جمیکا والی ایکڑیس افریقی غلاموں کی نسل سے ہے، وغیرہ، وغیرہ۔ اور ان سب کی مکالماتی زبان، جیسا کہ اوپر بھی ذکر ہوا ہے، ٹھیٹ مقامی ہے۔ یہ تمام کردار محض نام کے بدیسی ہیں۔ اگر ان کے نام مقامی ناموں سے تبدیل کر دیے جائیں تو ناول کی کہانی اور اس کے بنیادی مسئلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ مزید یہ کہ ناول میں جو شہر کھینچا گیا ہے، وہ ایک ’نگارخانے‘ کی مانند ہے (جس کی تمام تصویروں میں ایک ہی تھیم جاری و ساری ہے)؛ حقیقی اور واقعی شہر نہیں۔

(’’کلورینا: ” یہ شہر بھی کیا شہر ہے!“ بیولا: ”یہ شہر وہ شہر ہے کہ اس کی شام شامِ پیرس اور اس کی عورتیں زنانِ مصر- اس کو شہروں کی دلہن نہیں بلکہ شہروں کی قحبہ کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔“)۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ یہ ’ایک مخصوص طبقے کی تصویر ہے۔ یہ طبقہ اب قریب قریب مٹ چکا ہے اور دوبارہ کبھی واپس نہ آئے گا،‘ ناول کی اہمیت کو کم کرنا اور حقیقت سے نگاہیں چرانا ہے۔ ”آفت کا ٹکڑا“ کی کہانی اور اس کے سارے کردار ہمارے معاشرے میں آج بھی موجود ہیں۔ پھر آگے چل کر یہ کہنا کہ ’یہ ناول ایک ادبی رپورتاژ کی حیثیت رکھتا ہے‘ ناول کی ساکھ اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے!

رومنے گارٹ کے انجام کو ’’تعارف‘‘ میں ’حقیقتِ واقعہ‘ کی قیمت پر اخلاقی رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے: ” - - - اس (رومنے گارٹ) کا کردار وہ آئینہ ہے جو اپنی شکستگی سے آئینہ ساز کوعزیزتر ہو جاتا ہے۔ ناول میں اس کردار کی شکست و ریخت کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ جب اس کی دنیوی وجاہت اور سماجی سطوت جل کر راکھ ہو جاتی ہے تو اسی راکھ سے ایک نئی شخصیت جنم لیتی ہے۔ دنیوی وجاہت کے اس انجام کے بعد رومنے گارٹ کا کردار ایک ایسی معراج کی طرف چلنے لگتا ہے جو روزبے کو نصیب نہیں۔“

یہاں رومنے گارٹ، اخلاقی ہیرو بن کر ہمیں متاثر کرنے لگتا ہے۔ لیکن تھوڑا توقف کیجیے۔ زیادہ طوالت سے بچنے کی خاطر رومنے گارٹ کے بارے میں ناول کی چند آخری سطریں دیکھ لینا کافی ہو گا: ”رومنے گارٹ کو اب بھی وہی اژدھا صفت آتش فشاں انجن دنیا کی ایسی اندھیری کھونٹ لیے جارہا تھا جہاں دن میں جھاڑو تارے دکھائی دیں۔ جہاں سرو و شمشاد، سنبل و ریحان، جوہی اور عشقِ پیچاں کی جگہ تھوہر، تیندو، کندوری، اور ناگ پھنی ہو۔ جہاں کی ہوا ایلوے اور ترپھلے میں رچی ہوئی ہو۔ جہاں مرغ بعد عشا سے بانگ دے کر پچھلی رات سو جاتے ہیں۔ جہاں شکر شروے کو سکر سروا بولا جاتا ہے۔

”پہلے ہی پانی میں اس کے اتنی زبردست اتنی (یہ لفظ غیر واضح ہے۔ زبانی استفسار پر ناول نگار نے بتایا تھا کہ یہاں کچھ اور لفظ تھا۔ خلیل) ماری گئی تھی کہ وہ لہولہان ہو کر کھیت چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ دشمن کو ڈرانے کے لیے لے دے کے اس کے پا س ایک پٹاخے کا پستول تھا اسے بھی پولیس ضبط کر چکی تھی۔“

یہ ہے ’نئی شخصیت کا جنم‘ اور اس کا ’معراج‘ کی طرف سفر!

’’تعارف‘‘ میں روزبے کی ’اخلاقی غیر ذمہ داری‘ اور ’اخلاقی بے راہ روی‘ کا ’عبرتناک انجام‘ بھی ’حقیقتِ واقعہ‘ کو مسخ کرنے کے بعد ہی ممکن ہو سکا ہے۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اس کے کردار میں کوئی اور ارتقا نظر نہیں آتا‘ (یہ بات کسی حد تک درست ہے!)، اور اس کی جنسی زندگی ایک ’’تکرارِ تمنا‘‘ ہے۔،

روزبے کے بارے میں پہلے ہی کافی کچھ کہا جا چکا ہے۔ یہاں صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ روزبے جبلی ہے اور اس کی ’حرکت‘ جبلی سے جبلی کی طرف ہے(!): اسی لیے وہ کبھی سیر نہیں ہوتا، ’سرشار‘ رہتا ہے۔ جبلی کی رہنمائی میں جبلی کی تکمیل کے لیے خیر و شر، نیکی و بدی کی کوئی بحث اس کے مدِ نظر نہیں۔ وہ رومنے گارٹ، یعنی اپنے ’محسن اور مالک‘ کے سٹور سے چوری کرتا ہے، جرسی سے شادی کے بعد میلو ہیلاس سے سرد مہری اور تھریسا گارٹ کے ساتھ غیر انسانی طور پر پیش آتا ہے، (وغیرہ)۔ پھر یہ کہ جبلی اور محض جبلی ہونے کی وجہ سے روزبے کی خامیاں اور کمزوریاں بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ یہ ’بے اخلاقی‘ (Amoral) خامیاں اور کمزوریاں، محض جبلی کو آئینہ کرنے اور پرکھنے کے لیے ہیں۔ ’تعارف‘ میں بھی ان کا بیان موجود ہے، اگرچہ اخلاقی رنگ میں، جیسے: خود پرستی، بدنی جنسیت، نرگسیت، یک طرفیت، وغیرہ۔ تاہم، جرسی سے شادی کے بعد، روزبے کے کردار میں ’تبدیلی جیسی چیز‘ کے کچھ اشارے موجود ہیں، جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ اس صورت حال میں روزبے کی ’جنسی زندگی‘ (جو اس کی واحد زندگی بھی ہے!) کو ’جنس کی ایک مہیب تصویر‘ کہنا ناول سے نا انصافی ہے۔

مزید وضاحت کے لیے ہم ناول کے آخری باب سے روزبے کے بارے میں چند سطور نقل کرنے پر مجبور ہیں: ’’روزبے لیمبرٹ کا مستقبل بھی کتنا بہاراں بہار تھا۔ اس کے باغِ حیات پر عطر سنگار کے شانت ساگروں سے اٹھ اٹھ کر عیشِ مدام کی گھٹائیں برستی رہتی تھیں۔ ایک حسنِ زمانہ، چمن اندر چمن اور بہار اندر بہار لڑکی نے اس کی نس نس میں مدھ بھر دیا تھا اور دوسری گلعذارانِ شہر اس غاصبہ کی جان کو روتی پھر رہی تھیں۔ وہ پھولوں کا پھول، جس سے اتنے بھونرے اکستابِ لذت کرتے رہے تھے، اب ایک کے لیے مختص ہو گیا تھا۔

’’مگر روزبے کا منشا کسی نہ کسی دن کم از کم کچھ عرصے کے لیے کج سرشت، حرفت باز اور منہ زور بنت اسقف (یعنی ایریو گریپیو) کو ضرور اپنی قلمرو میں شامل کرنے کا تھا - - - یا جب - - - وہ فصلِ انبہ میں ہفتے عشرے کے لیے پہاڑ سے آیا کرے گا تو آدھی رات کو ایک گلگوتھنا سی لڑکی (یعنی میلو ہیلاس) کے بے حد متاثر کن رخسار، بے ساختہ پن اور لوچ داری اسے سونے نہ دیا کرے گی۔“

اور آخر میں ایک مرتبہ پھر ’ناول‘ کی طرف پلٹتے ہوئے، ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ ”آفت کا ٹکڑا“ خیر و شر یا نیکی بدی کی کشمکش یا ’پھر سوئے فطرت‘ (Back to nature!) کا ناول نہیں، جیسا کہ متذکرہ صدر خیالات بھی ظاہر کرتے ہیں۔ یہ جبلی و شعوری کی کشمکش کے پس منظر میں نئے توازن کے مسائل و متعلقات کی طرف اشارہ کرتا ہوا مستقبل کا ناول ہے۔ ہمارے یہاں مختلف طرح کی ”بیماریوں“ (جیسے کہ رومانویت، جذباتیت، وغیرہ) سے پاک اس طرح کے ناول کا ہونا حیران کن اور قابلِ فخر بات ہے۔ کچھ ”وضاحتی اضافوں“ سے قطع نظر، جو ناول نگار نے اپنی طرف سے ناول میں داخل کر دیے ہیں، یہ ایک مکمل ناول ہے۔ اس دعوے کا ثبوت یہ ہے کہ فن کے ساتھ ساتھ بڑے ناول کے لیے ایک بڑی نظر (Vision) بھی درکار ہوتی ہے۔ افسانے یا کہانی سے اسے اس بنا پر بھی متمیز کیا جا سکتا ہے۔ بڑی نظر کے بغیر ناول محض قصہ کہانی رہتا ہے، ناول نہیں بنتا۔ ( مثال کے طور پر قاری سرفراز حسین کا ”شاہدِ رعنا“، اپنی تمام خوبیوں کے باوجود بھی ایک قصہ ہی رہتا ہے، ناول نہیں بنتا؛ کیونکہ اس میں بڑی نظر مفتود ہے)۔ ”آفت کا ٹکڑا“ میں فن اور بڑی نظر دونوں موجود ہیں۔ اردو ادب میں ایسے ناول کی موجودگی کو ایک معجزے کا نام دیا جا سکتا ہے!

[4 مارچ 1992 کلر سیداں ـ 14 مارچ 1992 کلر سیداں]     

(حلقہ اربابِ ذوق (لاہور) کے تنقیدی اجلاس منعقدہ 24 جولائی 1992 میں پڑھا گیا۔)

[نظرثانی 21 اکتوبر 2011]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں