جمعہ، 6 ستمبر، 2013

مہم جوؤں کی بارات؟

پاکستان ابتدا ہی سے اس المیے کا شکار ہے کہ یہاں آئین اورقانون کو کوئی وقعت نہیں دی جاتی، اور ہر کوئی کسی نہ کسی مہم جوئی کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ اب تو یہ شک اور خوف پاکستان کے عام شہریوں کے ساتھ ساتھ دانشوروں کے ذہنوں میں بھی اس طرح پیوست ہو گیا ہے کہ وہ ہر وقت کسی نہ کسی مہم جوئی کے منتظر رہنے لگے ہیں۔ یہ ذہن اور یہ ذہنیت بدلنی چاہیے۔ دانشوروں کو سنسنی پھیلانے کے بجائے، آئین اور قانون کے استحکام اور ان پر اعتماد کی بحالی کو تقویت دینی چاہیے۔ کیونکہ آئین اور قانون کی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے، پاکستان نو بہ نو اور عجیب وغریب مہم جوؤں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔

’مہم‘ عربی زبان کا لفظ اور اسمِ مونث ہے۔ اس کے منتخب مفاہیم و مطالب کو سمجھنے کے لیے مختلف لغات پر نظر ڈالتے ہیں: ”فرہنگِ آصفیہ“ کے مطابق: مہم: غم میں ڈالنے والا کام۔ دشوار کام۔ کارِ عظیم۔ امرِ دشوار۔ جان جوکھوں کا کام۔ ضروری کام۔ جُدھ ۔ جدال و قتال۔ یونہیں عمر اپنی بسر ہوگئی / بڑی یہ مہم تھی جو سر ہو گئی (مجروح)۔ مہم باز: خطرات پسند۔

مہم پسند: مشکل پسند۔ خطر پسند۔ مہم جو۔ مشکل کام کرنے والا ۔مہم جیتنا: میدان مارنا۔

”مہم“ کا انگریزی متبادل ”ایڈ وینچر“ ہے، جو لاطینی زبان سے ماخوذ ہے۔” انگریزی-اردو لغات“ میں اس کے یہ مطالب دیے گئے ہیں: ایڈوینچر: رنج میں ڈالنے والا کام۔ جاں بازی کا کام۔ طالع آزمائی۔ غیر متوقع بات۔ ایڈوینچرر: عیار۔ من چلا۔ زمانہ ساز۔ سٹا باز۔ جاں باز۔ ایڈوینچر: اہم سرگذشت۔ جان جوکھوں کا کام۔ سٹا۔ واقعہ۔ خطرے میں پڑنا۔ جان جوکھوں میں ڈالنا۔ جان پر کھیلنا۔ مصیبت مول لینا۔ اوکھلی میں سر دینا۔ ایڈوینچرر: سٹے باز۔ قسمت آزما۔ خطرے میں پڑنے والا۔ ایڈوینچرسم: سرفروش۔ ایڈوینچرس: جیالا۔ سورما۔ جری۔

”قومی انگریزی-اردو لغت“ میں ”ایڈوینچر“ اور اس سے بننے والے مختلف الفاظ کے مطالب کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے: ”ایڈوینچر“: جوکھم۔ واقعہ۔ سانحہ۔ پرجوش تجربہ۔ دلیرانہ اور غیر یقینی نتیجے والا کام (جس پر ہاتھ ڈال دیا گیا ہو)۔ تجارتی جوا۔ سٹا۔ ذاتی زندگی کا کوئی قابلِ ذکر واقعہ۔ یاد رکھنے کے قابل واقعہ یا تجربہ۔ سرگذشت ۔ ایڈوینچرازم: مسلمہ قواعد اور اصولوں کے خلاف سرتاب رویہ۔ مہم جوئی۔ انحراف۔ ایڈوینچر (فعل): خطرے میں ڈالنا۔ مہم جوئی کرنا۔ جان جوکھوں میں ڈالنا۔ خطرہ مول لینا۔ ایڈوینچرر: مہم جو۔ جانباز۔ جواری۔ سر باز۔ مبارزت طلب۔ انوکھی یا غیر معمولی مہموں میں حصہ لینے والا یا ان کو اختیار کرنے والا۔ خفیہ وسائل پر گزران کرنے والا۔ دلیر۔ بے ایمان۔ بدمعاش۔

ایڈوینچرسم: جسارتی۔ جرأت مند۔ ایڈوینچرسلی: مہم جویانہ۔ دلیرانہ۔ جاںبازانہ۔ انجام سے ناشناسی کے ساتھ ۔

تجارت میں ایک ”بِل آف ایڈوینچر“ ہوتا ہے؛ یعنی بائع کی تحریر کہ مال، جو جہاز پر لادا گیا ہے، اس کی ملکیت خریدار کو حاصل ہے اور اسی کی ہدایت پر مال روانہ کیا گیا ہے۔ (مراد یہ کہ مال پہنچتا ہے یا نہیں، اس ’مہم جوئی‘ کی مالی ذمے داری خریدار پر ہے، بھیجنے اور فروخت کرنے والے پر نہیں۔) قانون میں ”گراس ایڈوینچر“ کی اصطلاح موجود ہے۔ یہ زری قرضے کے ایسے معاہدے کے لیے استعمال ہوتی ہے، جس کے مطابق نقصان کی صورت میں عمومی اوسط کے کچھ حصے کی ذمے داری قرض خواہ اٹھاتا ہے۔

ایک مستند انگریزی لغت کے مطابق ”ایڈوینچر“ کا مطلب ہے چانس یا قسمت کے رحم و کرم سے وابستہ ہونا۔ مشکوک نوعیت کے کام پر ہاتھ ڈالنا۔ نقصان مول لینا۔ پرخطر کام پر انحصار کرنا۔ مثلاً، بادشاہ نے اس معاملے پر اپنا تاج داؤ پر لگا دیا۔ پُر خطر تجربات کرنا۔ خطرات اور امکانات سے کھیلنا۔ مثلاً، نامعلوم سمندر وں کی مہم جوئی۔ ایک قابلِ ذکر اور خطرناک تجربہ۔ کسی بھی فرد کے ساتھ پیش آنے والا غیر متوقع اور ہیجان خیز واقعہ۔ مثلاً، رابنسن کروسو کی مہمات۔ پُر خطر اور غیر یقینی کام۔ جرأ ت مندانہ بازی گری۔ خطرات کا مقابلہ کرنا۔ جرأت مندانہ کام۔ زری خطرات یا سٹا۔ مثلاً، اس نے اپنا سارا سرمایہ اس مہم میں لگا دیا۔ ایڈوینچرر: مہم جو یا ایسا شخص، جو پُر خطر اور نقصان والے کاموں میں ہاتھ ڈالے۔ ایسا شخص جو قسمت بنانے کے لیے نئے اور ناآزمودہ شعبوں میں جستجو کرے۔ ایسا شخص، جو مشتبہ ذرائع سے ترقی کرے۔ قسمت کا دھنی یا جواری۔

”گریٹ ایڈوینچر“ کے الفاظ، حسنِ ادا کے طور پر، موت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً، جنگِ عظیم نے انسانیت کو شاندار طریقے سے موت کا سامنا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ جینٹلمین ایڈوینچرر: اچھے حسب ونسب کا حامل شخص، جو غیرممالک میں خطرناک کاموں میں ملوث ہو؛ جیسے ریلے اور ایلزبیتھن دور کے دوسرے کھوج کار۔ مرچینٹ ایڈوینچرر: ایسی کمپنیوں کا رُکن، جو شمالی امریکہ اور دوسرے مقامات پر تجارت اور آبادکاری کا کام کرتی تھیں۔ چودھویں صدی کے بعد انگلستان میں ایسے افراد کو یہ نام دیا گیا۔ ایک موقعے پر سرفرانسس ڈریک نے دوہزار مرچینٹ ایڈوینچررز کی قیادت کی۔ ایک اور اینسائیکلوپیڈیا کے مطابق ”ایڈوینچرر“ سے مراد تصوراتی راہِ عمل اختیار کرنے والا شخص ہے۔ تاہم، بعد ازاں، یہ لفظ بے کردار یا ایسے شخص کے لیے استعمال ہونے لگا، جس کی گزران اپنی تیز طراری پر ہو۔

مہم جو اور مہم جوئی کے یہ مفاہیم، پاکستان میں ہونے والی مہم جوئیوں کو سمجھنے میں خاصی مدد دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان ابھی قائم بھی نہیں ہوا تھا کہ مہم جو اس پر جھپٹنے لگے تھے۔ قیام کے بعد تو یہ پوری طرح مہم جوؤں کے نرغے میں آ گیا۔ سیاسی، فوجی، مذہبی اور عدلیائی مہم جوؤں نے اسے نت نئے طریقوں سے کھوکھلا اور تباہ کیا۔ ان مقتدر شعبوں میں مسلسل مہم جوئی نے زندگی کے ہر میدان میں مہم جو پیدا کیے، اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ تجارت، مالیات، کاروبار، سرمایہ کاری، بیوروکریسی، دفاع، ملازمت، تعلیم، صحافت، ادب، فن، ثقافت، کھیل، کس کسی شعبے کا نام لیا جائے، ہر شعبے میں مہم جوؤں نے کھُل کھیلا۔ سیاسی- فوجی مہم جوئی نے ملک کے دوٹکڑے کر دیے۔ پھر بھی مہم جوؤں کی گرفت ڈھیلی نہیں پڑی۔

تازہ ترین مثال علامہ طاہر القادری کی اچانک پاکستان آمد اور ان کی بے وقت کی ہنگامہ پردازی ہے۔ میڈیا اور مخصوص سیاسی پارٹیاں اور لیڈر بھی کچھ ایسی فضا بنانے میں پیش پیش ہیں، جیسے پھر کسی مہم جوئی کا جہیز تیار کیا جا رہا ہے۔ بارات بھی اکٹھی ہو رہی ہے۔ ایم- کیو- ایم، حکومت میں ہونے کے باوجود اس مشن میں علامہ قادری سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ اور مسلم لیگ (ق) بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا عندیہ دے رہی ہے۔ علاوہ ازیں، آئین منحرف قوتیں بھی کمر کس رہی ہیں۔ یہ سب باتیں شکوک اور خدشات کو مہمیز کرتی ہیں۔ گو کہ آئی- ایس- پی- آر نے اپنی پوزیشن، جمہوریت کے حق میں واضح کر دی ہے، تاہم، شبہات کا کوئی علاج نہیں، اور اس وضاحت سے، یا کسی کے اقرار یا انکار سے فرق بھی کیا پڑتا ہے!

بھانت بھانت کی بولیاں بولی جار ہیں کہ علامہ طاہر القادری کے پیچھے کون ہے، انھیں کون لایا۔ اب کیا پتہ انھیں پاکستان کون لایا۔ کیا معلوم ان کے اور، مبینہ طور پر انھیں لانے والے، یا لانے والوں کے کیا عزائم ہیں۔ کوئی لانے والا ہے بھی، یا وہ خود آن براجے ہیں۔ جو لوگ ان باتوں سے باخبر ہیں، یا مختلف ”چڑیاں“ ان کے ہاتھ میں ہیں، جو انھیں ایسی خبروں سے مطلع رکھتی ہیں، ان کے تجزیے انھیں مبارک ہوں۔ ہاں، جو باتیں سب کے سامنے موجود ہیں، وہ یہ ہیں کہ علامہ قادری کا ماضی کا سیاسی ریکارڈ مشکوک ہے۔ وہ جو گفتگو کر رہے ہیں، جو تقریریں فرما رہے ہیں، جو مطالبات داغ رہے ہیں، اور جتنی بیتابی اور شتابی میں ہیں، ان تمام باتوں سے اتنا ضرورمترشح ہے کہ وہ آئین کے نام پر جو کچھ کروانا چاہتے ہیں، وہ آئین سے کسی صورت میل نہیں کھاتا۔ ان کا دھمکیوں کا انداز، خود ایک غیرآئینی انداز ہے۔ سو یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ وہ کسی غیر آئینی مہم جوئی کے چکر میں ہیں!

تاہم، معقولیت کا تقاضا یہ ہے کہ جب بحران، تشویش اور غیر یقینی حالات آ گھیریں، اور پریشان خیالی حاوی ہو جائے تو اپنے اصولوں کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے۔ یہ اصول ہی ہیں، جن کے ساتھ وابستگی، ہمیں اپنی جگہ جمے رہنے میں مدد دیتی ہے، اور لال پیلی جھوٹی سچی آندھیاں ہمارے پاؤں اکھاڑ نہیں سکتیں۔ پاکستان کے شہریوں کے پاس ایک آئین موجود ہے، اور ایسے وقت میں جب، خدشہ یہ ہے کہ، آئین کے نام پر ایک اور غیر آئینی مہم جوئی کا ڈول ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے تو مہم جوؤں کی بات پر دھیان دینے کے بجائے، آئین سے رہنمائی لینی چاہیے! اس سے ماورا مسائل کے تمام حل، نظر کا فریب ہیں!


[یہ کالم 5 جنوری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں