منگل، 10 ستمبر، 2013

1962 کا آئین اور نااہلیت کی دفعات

جب اکتوبر 1958 میں میجر جینرل سکندا مرزا نے مارشل لا نافذ کیا تو 1956 کا آئین منسوخ کر دیا۔ جیسے کو تیسا: جینرل ایوب نے میجر جینرل سکندرمرزا کو معزول کر کے دیس نکالا دے دیا۔ جینرل ایوب نے مرکزی اورصوبائی کابینہ برطرف اور قومی اور صوبائی مقننہ تحلیل کر دیں۔ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی۔ یہ مارشل لا، جون 1962 تک نافذ رہا۔ صدر ایوب کا زور اس بات پر تھا کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے۔ لہٰذا، صدارتی طرز کا آئین تیار کیا گیا (ذوالفقار علی بھٹو بھی صدارتی طرز کا آئین چاہتے تھے، مگر وائے قسمت!)۔ صدر کا انتخاب، ایلیکٹورل کالج کے ذریعے کیا جانا تھا۔ صدر کے عہدے کی اہلیت کے ضمن میں تین شرائط رکھی گئیں۔ اول تو یہ کہ وہ مسلم ہو؛ دوسرے، پینتیس برس کی عمر کو پہنچ چکا ہو؛ اور، تیسرے، قومی اسیمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل ہو۔

اس آئین کی رو سے پاکستان کی مرکزی مقننہ، یک ایوانی تھی۔ یہ صدر اور ایک ایوان پر، جسے قومی اسیمبلی کا نا م دیا گیا، مشتمل تھی۔ اسیمبلی کے ارکان کی تعداد ایک سو چھپن تھی، جن میں سے نصف کا انتخاب، آئین اور قانون کے تحت مشرقی پاکستان اور نصف کا انتخاب، اسی طرح مغربی پاکستان سے کیا جانا تھا۔ عورتوں کے لیے مخصوص نشستیں ان کے علاوہ تھیں۔ دونوں صوبوں کی صوبائی مقننہ، گورنر اور صوبائی اسیمبلی پر مشتمل تھیں۔ ہر صوبائی اسیمبلی میں نشستوں کی تعداد ایک سو پچپن تھی۔ صوبائی گورنروں کے لیے بھی اہلیت کی وہی شرائط تھیں، جو قومی اسیمبلی کی رکنیت کے لیے رکھی گئی تھیں۔ مرکزی و صوبائی، ہر مقننہ کے ارکان کے لیے ان شرائط پر پورا اترنا ضروری تھا۔ یہ شرائط دفعہ 103 کے تحت بیان ہوئی ہیں۔ اول تو یہ کہ ہر اسیمبلی کے لیے وہ شخص منتخب ہونے کا اہل ہے، (ا) جس کا نام (i) قومی اسیمبلی کی صورت میں، کسی انتخابی یونٹ کی انتخابی فہرست میں درج ہو، یا (ii) صوبائی اسیمبلی کی صورت میں صوبے کے کسی انتخابی یونٹ کی انتخابی فہرست میں درج ہو؛ اور (ب) اس کی عمر پچیس برس سے کم نہ ہو۔

دوسری شرط یہ تھی کہ کوئی شخص کسی اسیمبلی کا رکن منتخب نہیں ہو سکے گا یا رکن نہیں بن سکے گا اگر (i) وہ حکومتِ پاکستان کی ملازمت میں کسی منفعت بخش عہدے کا حامل ہو؛ (ii) وہ دیوالیہ قرار پانے کے عمل سے آزاد قرار نہ پایا ہو؛ (iii) وہ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران کسی جرم میں کسی عدالت سے مجرم قرار پایا ہو اور اسے جلاوطنی کی سزا دی گئی ہو، یا اسے دو برسوں سے کم قید کی سزا نہ دی گئی ہو یا اسے موت کی سزا دی گئی ہو، اور وہ سزا کم کر کے جلاوطنی یا قید میں تبدیل کر دی گئی ہو؛ (iv) وہ شہری نہ رہا ہو یا اس نے کسی غیر ریاست سے وفاداری کا اثبات کیا ہو؛ یا (v) وہ آئین یا کسی قانون کی رو سے اسیمبلی کا رکن نہ بن سکتا ہو۔ تیسری شرط یہ تھی کہ اس دفعہ کی شق 2 کے پیرا (i) کے باوصف، صدر، گورنر یا وزیر کسی اسیمبلی کا رکن بننے کا اہل ہوگا، تاہم اگر وہ ان عہدوں کے لیے منتخب ہو تا ہے تو وہ اسیمبلی کا رکن نہیں بن سکے گا تا آنکہ وہ صدر، گورنر یا وزیر کے عہدے سے دستبردار نہ ہو جائے۔

دفعہ 103 کے ساتھ، دفعہ 104 میں ان شرائط کا بیان ہے، جو نااہل قرار پانے والے اسیمبلی کے رکن کی رکنیت کے خاتمے کی تفصیل سے تعلق رکھتی ہیں۔ اول تو یہ کہ اگر اسیمبلی کا کوئی رکن، صدر، منتخب ہو جاتا ہے، یا گورنر یا وزیر مقرر ہوتا ہے، یا حکومتِ پاکستا ن کی ملازمت میں کسی منفعت بخش عہدے پر اس کا تقرر کیا جاتا ہے، وہ اس دن سے اسیمبلی کا رکن نہیں رہے گا، جس دن وہ اپنے عہدے پر متمکن ہوتا ہے۔ دوم یہ کہ اگر کسی رکن کے اسیمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد ایسا کوئی سوال اٹھتا ہے کہ وہ اسیمبلی سے نااہل ہو گیا ہے، تو اسیمبلی کا سپیکر یہ معاملہ ایلیکشن کمیشن کے سربراہ کو بھجوائے گا، اور اگر ایلیکشن کمیشن کا سربراہ یہ رائے رکھتا ہے کہ وہ رکن نااہل ہو گیا ہے، تو وہ رکن نہیں رہے گا۔ سوم یہ کہ اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ وہ اسیمبلی کا رکن بننے کا اہل نہیں، یا اسے اسیمبلی کا رکن بننے سے نااہل قرار دیا گیا ہے، تو ہر دن کے لیے، جب وہ اسیمبلی میں بیٹھتا یا ووٹ دیتا ہے، اس سے (ا) قومی اسیمبلی کی صورت میں مرکزی حکومت کو واجب الادا قرض کے طور پر، اور(ب) کسی صوبائی اسیمبلی کی صورت میں متعلقہ صوبائی حکومت کو واجب الادا قرض کے طور پر پانچ سو روپے وصول کیے جائیں گے۔

1962 کے آئین میں صدر کے بنائے گورنر، اور وزیروں، اور پھر گورنر کے بنائے وزیروں سے متعلق نااہلی کی شرائط، دفعہ 121 کے تحت بیا ن ہو ئی ہیں۔ ان میں بھی ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں، جو مذہب یا نظریۂ پاکستان سے تعلق رکھتا ہو۔ ان میں بھی صرف فرائض، اور قانون اور اخلاق سے متعلق معاملات مذکور ہیں۔ اسی طرح، اس وقت جو ایلیکٹورل کالج قائم کیے گئے تھے، ایلیکٹورل کالج ایکٹ 1964 میں ان کے ارکان کے لیے نااہلی کی تین شرائط درج کی گئی تھیں، جن کے تحت شقوں کی تعداد 18 بنتی ہے۔ تاہم، ایلیکٹورل کالج کے یونٹ کے ارکان کی ان شرائط میں کسی مذہبی معاملے یا نظریۂ پاکستان کا قطعاً کوئی ذکر نہیں۔ ہاں، ایک شرط میں خصوصاً اخلاقی گراوٹ کا ذکر ہے، پر وہ بھی عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے ساتھ منسلک ہے۔ تمام کی تمام شرائط، فرائض، قانونی تقاضوں، مفاداتی کشاکش، مختلف نوع کے جرائم اور سزاؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔

یہ ہے وہ پس منظر یا آئینی و تاریخی سیاق وسباق، جس کے اندر رکھ کر نااہلیت،یا اہلیت کی متذکرہ آئینی شقوں کو جانچا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جب دفعات 62 اور 63 میں حالیہ طور پر زیرِ بحث شقوں کا اضافہ کیا گیا، تواس اضافے کی ایسی کیا ضرورت آن پڑی تھی، جس کے بغیر آئینی مشینری اور انتخابات کا تسلسل قائم رہنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ یا پاکستان کی آبادیات (ڈیموگرافی) میں مذہب کے حوالے سے ایسی کونسی اہم تبدیلیاں وقوع پا گئی تھیں، جن کے سبب ان شقوں کا اضافہ ضروری ہو گیا تھا۔ یا وہ کون سے حالات تھے، جنھوں نے ان شقوں کے اضافے کو ناگزیر بنا دیا تھا۔ ایک بات تو صاف ہے کہ اس دور میں پاکستان کی شہریاتی ساخت میں ایسی کوئی تبدیلی یا تقاضے جنم نہیں لے رہے تھے، جو ان شقوں کی ضرورت اور اضافے پر دلالت کرتے ہوں۔ ہاں، جیسا کہ آمریت کو اپنے وجود کا جواز گھڑنا پڑتا ہے، جو کبھی مذہبی صورت میں سامنے آتا ہے، اور کبھی اعتدال پسندانہ روشن خیالی کی صورت میں۔ سو، یہ شک کیا جا سکتا ہے کہ اوپر کی سطح پر ایسے کوئی تقاضے موجود تھے، جو ان شقوں کو اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ اس مختصر کالم میں ان کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں۔ اتنا اشارہ کرنا کافی ہو گا کہ آئین کی ہر دفعہ، ہر شق ایک مقصد کی حامل ہوتی ہے، پر ایسا مقصد جو قابلِ حصول ہو۔ ان مخصوص شقوں کے آئینی مقاصد جو بھی رہے ہوں، سوال یہ ہے کہ ان کا حصول کس حد تک ممکن ہو سکا۔ یا ان شقوں سے جو غیر آئینی مقاصد حاصل کیے جانے تھے، وہی حاصل ہوتے رہے!

[یہ کالم 28 اپریل کو روزنامہ مشرق پشاور-اسلام آباد میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں