اگست 2010 میں، میں نے انگریزی میں ایک مضمون لکھا تھا: ”پاکستان - ایک جرائم پیشہ ریاست ۔“ میرے دوستوں اور جاننے والوں نے اس عنوان پرا عتراض کیا، لیکن میں مصر رہا ۔ میری دلیل یہ تھی کہ اگر آپ کے گھر چوری ہو جائے، ڈاکہ پڑ جائے، سرِ راہ آپ کو لوٹ لیا جائے، آپ کے کسی عزیز کو قتل کردیا جائے، اور ریاست کہیں نظر نہ آئے، بلکہ پتہ یہ چلے کہ براہِ راست نہیں توبالراست ان تمام جرائم میں خود ریاست ملوث ہے تو کیا آپ ایسی ریاست کو جرائم پیشہ ریاست نہیں کہیں گے!
اس مضمون میں میرا زور صرف دو چیزوں پر تھا، جن کے سبب میں پاکستانی ریاست کو جرائم پیشہ قراردیتا ہوں، اور ہرآنے والے دن کے ساتھ میرا یہ یقین پختہ ہوتا جاتا ہے کہ نہ صرف پاکستانی ریاست بلکہ اس پر سوار ہونے والی ہر حکومت بھی جرائم پیشہ ہوتی ہے ۔ جیسا کہ بظاہر عنوان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون پاکستان کی خارجہ پالیسی سے تعلق رکھتا ہو گا، ایسا قطعاً نہیں ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ خارجہ پالیسی کا معاملہ بہت بعد میں آتا ہے، اصل چیز ہے خود ملک کے اندر کیا ہو رہا ہے ۔ آپ اسی ایک چیز کومعیار بنا کر ریاست اور حکومتوں کی کارکردگی کو جانچ سکتے ہیں کہ وہ ملک کے اندر کیا ہو رہا ہے، اس سے زیادہ خارجہ امور میں دلچسپی رکھتی ہیں، اور دوروں پر دورے، سیر سپاٹے، شاپنگ، اور دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے میں سیمینٹ ضائع کرتی رہتی ہیں ۔ آخراً یہ سب لاحاصل ثابت ہوتا ہے ۔
ہر ملک کا مقصود اصلاً اس کے شہری ہوتے ہیں، اور ریاست اور حکومتوں کا قیام اسی لیے عمل میں لایا جاتا ہے کہ وہ شہریوں کی جان ومال، اور ان کے حقوق اور آزادیوں کی حفاظت کریں ۔ کسی بھی ریاست اور حکومت کی یہ بنیادی ذمے داری ہوتی ہے ۔ لیکن پاکستان میں دور دورتک اس ذمے داری کا نام نشان و نظر نہیں آتا ۔ بس سیاست ہو رہی ہے، اور ”جمہوریت“ پھل پھول رہی ہے ۔ مراد یہ کہ اس ذمے داری کو پورا نہ کر کے ریاست اور حکومت دونوں ایک جرمِ عظیم کا ارتکاب کرر ہی ہیں ۔ ان کا دوسرا جرمِ عظیم یہ ہے کہ شہریوں کی جان ومال اور ان کی آزادیوں کی حفاظت کے لیے، وہ شہریوں سے جو ٹیکس وصول کرتی ہیں، اسے غصب کر لیتی ہیں ۔ اس کے کئی طریقے ہیں ۔ خود ٹیکس نہ دینا، اپنے لیے فوائد و مراعات مخصوص کرلینا، عالیشان محلوں کی تعمیر، جیسے کہ صدارتی محل، وزیرِ اعظم ہاؤس ۔ غبن اور کرپشن، اور اسی طرح کے ہزاروں حربے ہیں (جیسے کہ بینظیر اِنکم سپورٹ سکیم )، جن کے ذریعے شہریوں کے ٹیکس کو ہتھیا لیا جاتا ہے ۔
کیا یہ دونوں عظیم جرائم نہیں ۔ اگر کوئی فرد ان جرائم کا ارتکا ب کرتا پایا جائے تو اسے ”مجرم“ گردانا جاتا ہے، لیکن اگر حکومت، اس کے عہدیدار، اور اہلکار یہ جرائم کریں تو یہ جرائم نہیں، سیاست اور حکمرانی کہلاتی ہے ۔ کیا پاکستانی ریاست اور حکومتیں، وفاقی اورصوبائی حکومتوں سمیت، مجرم نہیں گردانی جا سکتیں ۔ یہ کتنے بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں، اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ۔ بہت کچھ ہے، جو جرائم سے بڑھ کر بھی ہے، اور روز دیکھنے اور سننے میں آتا ہے ۔ یہ سب بالآ خر ریاست اور حکومتوں کے نامۂ اعمال میں لکھا جاتا ہے، لیکن ان پر کوئی مقدمہ نہیں چلتا ۔ انھیں کوئی سزانہیں ہوتی ۔ جرم کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، حکومتوں کے عہدیدار اور اہلکار سب کے سب دامن بچا کر اپنے گھروں اور دفتروں میں محفوظ ومامون جمے رہتے ہیں ۔ بے ضمیر، بے حس سیاسی لٹیرے!
کل پرسوں، جو کچھ کراچی میں ہوا (بلدیہ ٹاؤن گارمینٹس فیکٹری میں آگ)، اورپھر لاہور میں بھی ہوا (شوز کی فیکٹری میں آگ)، کیا اس کی ذمے داری صرف فیکٹر ی کے مالکوں پر آتی ہے ۔ کراچی میں تین سو کے قریب کارکن جل کر مرگئے، جن میں لڑکیاں، نوجوان، بوڑھے شامل تھے ۔ کتنے گھرانے اجڑ گئے ۔ لاہور میں بھی درجنوں کارکن ایک فیکٹری میں ایسے ہی سانحے کا شکار ہوئے ۔ یہ سانحے کتنے بڑے ہیں، حکمران سیاست دان، اور حکومتوں کے عہدیدار اور اہلکار اس ضمن میں کیا سوچ رکھتے ہیں ،آپ نے ٹی وی پر سن اور اخبارات میں پڑھ لیا ہوگا ۔ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر فرما رہے تھے کہ آگ بجھانے کی جتنی استطاعت موجود ہے، اگر اس میں اضافہ نہ کیا گیا تو ایسے حادثات ہوتے رہیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ اس استطاعت میں اضافہ کرنا کسی کی ذمے داری ہے ۔ کیا کراچی اور لاہور کے شہریوں نے ٹیکس نہیں دیے، جو اس استطاعت کو تقویت نہیں دی گئی ۔ یا پھر شہریوں نے جو ٹیکس دیے، وہ وزیر مشیراور حکومتی عہدیدار ہضم کر گئے ۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاست دان، گورنر، وزیرِ اعلیٰ، وزیر، مشیر، حکومتی عہدیداراور اہلکار سب کے سب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کیڑے مکوڑے تھے، جو جل کر مرگئے، اور ایسے ہی جل کر مرتے رہیں گے ۔ یہ تو اس مرتبہ کراچی کا یہ سانحہ ایسا بڑا ہے کہ سینکڑوں شہری آگ کی نذر ہو گئے، لیکن کیا کراچی اور لاہورمیں ایسے سانحے پہلے نہیں ہوتے رہے ۔ بلکہ دلخراش سچائی یہ ہے کہ ایسے سانحے مستقبل میں بھی ہوتے رہیں گے ۔ یہ ماضی کا سبق ہے!
معاملہ یہ ہے کہ جنھیں ہم آج بھی گالیاں دیتے نہیں تھکتے، اور جن کے ”مظالم“ پر تحقیق کے دفتر کے دفتر سیاہ کرتے جا رہے ہیں، یہ وہی تھے، جو ہمیں ذمے دار حکمرانی کا ایک ایسا مکمل نظام دے گئے تھے، جسے ہم صرف اسی حالت میں موجود رکھ لینے میں کامیاب ہو جاتے، جس حالت میں وہ چھوڑ کر گئے تھے، تو آج کراچی اور لاہور میں ایسے سانحے ناممکن نہیں تو ناممکن کے قریب ضرور ہوتے ۔ مثال کے طور پر 1934 کا فیکٹریز ایکٹ آج بھی موجود اور نافذ العمل ہے ۔ اس پر عمل کروانے کے لیے متعدد محکے بھی موجود ہوں گے ۔ ان محکموں کے اوپر وزارتیں بھی موجود ہوں گی ۔ ان وزارتوں کے لیے وزیر اور مشیر بھی موجود ہوں گے ۔ ان محکموں میں سیاسی کارندے بھی دندناتے پھر تے ہوں گے ۔ ان محکموں کو چلانے کے لیے بیوروکریٹ بھی موجود ہوں گے ۔ اور یہ سب کراچی کے شہریوں کے ٹیکس کے پیسے سے نہ صرف تنخواہیں، بلکہ مراعات بھی لے رہے ہوں گے ۔ بلکہ تنخواہ اور مراعات سے کیا ہوتا ہے، ان سے زندگی کہاں گزرتی ہے، ایک نائب قاصد اور کلرک سے لے کر ڈائریکٹر اور چیئرمین تک، سب کے سب پوشیدہ اور غیر پوشیدہ کرپشن بھی کر رہے ہوں گے ۔ اور مہنگی گاڑیوں اور قیمتی گھروں میں بے فکری کی زندگی گزار رہے ہوں گے ۔
پھر کراچی میں موجود، بلکہ کراچی کے سرپر سوار درجنوں سیاسی اورغیر سیاسی پارٹیاں اور گروہ، کراچی میں موجود ہزاروں فیکٹریوں کے مالکان سے ”بھتہ“ اور ”چندہ“ بھی لے رہے ہوں گے ۔ بلکہ ضروری ہے کہ اس بات پر بھی تحقیق کی جائے کہ اس فیکٹری سے کون کون سی پارٹیاں اور گروہ بھتہ اور چندہ لیتے رہے ہیں ۔ یہ بھی کہ کیا یہ آگ کوئی ایسی مشکوک کاروائی تو نہیں ۔ اصل میں کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کسی بھی امکان اور کسی بھی بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
اس سانحے کے بارے میں سیاست دانوں کی لن ترانی سنیے ۔ ایک وفاقی وزیر کا ارشاد ہے کہ ایسے حادثات کو روکنا اجتماعی ذمے داری ہے ۔ وزارت کے مزے آپ لوٹیں ۔ شہریوں کے ٹیکس کے پیسے پر عیاشی اور سیاست آپ کریں، اور جب ذمے داری کی بات آئے تو وہ اجتماعی بن جائے ۔ سیدھی بات یہ ہے کہ اگرایک طرف ذمے داری صدر سے لے کر گورنر، وزیرِ اعلیٰ، وزیروں اور مشیروں پرآتی ہے، تو دوسری طرف اس ذمے داری کا بوجھ متعدد محکموں اور ان محکموں کے سربراہوں سے لے کر کلر کوں تک سب پر ڈالا جانا ضروری ہے ۔ یہی سب لوگ ہیں، جو ایسی ہی ذمے داریوں کو نبھانے کے لیے منتخب کیے گئے، یا ملازم رکھے گئے، اور اس کے لیے انھیں مناسب معاوضہ دیا جاتا ہے ۔ لہٰذا، ان سب کی جواب دہی ہونی چاہیے، اور مقدمے بننے چاہئییں ۔
تاہم، نہ تو آج تک ایسا ہوا ہے، اور نہ اب ہوگا ۔ گوکہ سندھ ہائی کورٹ نے اس سانحے کا نوٹس لے لیا ہے، یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ عدالتوں کو ایسے واقعات اور سانحات کے ضمن میں قانونی ذمے داری کے تعین کا کام سنبھالنا چاہیے ۔ یہ چیز ان کے دا ئرہِ اختیار میں بھی داخل ہے ۔ سندھ ہائی کورٹ کو اس نوٹس کو اس کے منطقی انجا م تک پہنچانا چاہیے ۔ یہ نہ ہو کہ اس سانحے کے نوٹس کا حال بھی عدالت ہائے عالیہ کے پہلے نوٹسوں کی طرح وقتی ردِعمل ثابت ہو ۔
جب بھی ایسے سانحات ہوتے ہیں، ان سانحات کے وقوع کے بعد حکومتوں کو ہوش آتا ہے ۔ کیا حکومتیں صرف سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں اور حکمرانوں اور بیوروکریٹوں کی خدمت گزاری کے لیے بنتی ہیں ۔ کیا یہ اپنے معمول کے فرائض اور ذمے داریا ں معمول سے انجام دینے کے لیے نہیں بنتیں ۔ جب کوئی لُٹ گیا، جب کوئی قتل ہو گیا، جب کوئی جل کر مرگیا، تو پھر حکومت کس کام کی! کراچی کے سانحے کے ضمن میں بھی ایسا ہی ہوا ہے ۔ سانحے کے کچھ گھنٹو ں بعد ہی یہ خبر آنی شروع ہو گئی تھی کہ فیکٹری کے مالکوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں ۔ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لِسٹ میں شامل کر لیا گیا ہے ۔ کیا اس جرم کے ذمے دار صرف اور صرف فیکٹری کے مالک ہیں ۔ وہ تمام محکمے، ان محکموں کے وزیر، مشیر، سربراہ اور اہلکار، کیا ان سب پر اس سانحے کی کوئی ذمے داری نہیں آتی ۔
دیکھا جائے تو فیکٹر ی کے مالکوں کا جرم کم نوعیت کا ہے ۔ وہ تو قانون اور قواعد وضوابط سے انحراف کریں گے ۔ بات یہ ہے کہ قوانین اور قواعد وضوابط کو نافذ کرنا اور ان پر سختی سے عمل درآمد کروانا کس کی ذمے داری ہے ۔ صاف بات ہے کہ متعلقہ محکمے اور منتخب عہدیدار اور اہلکار اس کے ذمے دار ہیں ۔ اور وہی ہیں جو اصل مجرم ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جرم کرنے والے ہمیشہ موجود رہے ہیں، اور رہیں گے، لیکن جن کو جرم روکنے کا اختیار دیا گیا ہے، اگر وہ جرم نہیں روکیں گے، اور مجرم کے ساتھ ملوث ہو جائیں گے، تو انھیں اصل مجرم ٹھہرایا جانا چاہیے ۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو ایسے سانحات ہمیشہ ہوتے رہیں گے ۔
درست ہے کہ کراچی اور لاہورمیں لگنے والی آگ صدر آصف علی زرداری، گورنر عشرت العباد، گورنر سردارلطیف کھوسہ، وزیرِاعلیٰ قائم علی شاہ، وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف، اور دونوں صوبوں کی متعلقہ وزارتوں کے منتخب سربرہان، اور متعلقہ محکموں کے بیوروکریٹوں اور عہدیداروں اور اہلکاروں نے نہیں لگائی، تاہم، اس کے نتیجے میں جل کر مرنے والے سینکڑوں شہریوں کی اموات کی ذمے داری میں وہ برابر کے شریک ہیں! حقیقت یہ ہے کہ ریاست اور حکومت نے اپنے فریضے کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت برتی ہے، اور تمام ذمے داروں کو کسی بھی صورت معاف نہیں کیا جانا چاہیے ۔ یہ انصاف کا بنیادی تقاضا ہے!
[یہ تحریر 15 ستمبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوئی ۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں