1973 کے اصل آئین کا کورا متن پڑھیے! آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ اس میں اور بہت سی چیزیں ہوں گی، جن سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ جو سلوک جینرل ضیا الحق (اور ان کے ساتھ ملوث سیاست دانوں) نے کیا، وہ سلوک کبھی کسی مصنف کی کسی عام سی کتاب کے ساتھ بھی نہ ہو۔ انھوں نے اپنی پارسا ئی کے لبادے اور واعظانہ دکھاوے کے زعم میں وہ کام کیا، جس نے 1973 کے آئین کا حلیہ ہی بدل ڈالا، بلکہ بگاڑ ڈالا۔ اس حلیے کے اندر آئین نام کی جو مخلوق مستور تھی، اس کی جنس اور شکل دونوں کی سرجری بھی کر ڈالی۔ حلیے کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ انھوں نے جو اِسمی اور دفعاتی تبدیلیاں کیں، انھوں نے پاکستان میں منافقت کے ساتھ ساتھ مذہبی نمائش پسندی، مذہبی نام و نمود، مذہبی تصنع، اور عمومی جھوٹ کے فروغ کو سرپرستی مہیا کر دی۔ سچائی، اخلاقیات، اور مذہبی روح، ہر عام و خاص کے قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ یوں، خالی بوتلوں اور خالی ڈبوں نے خوب رواج پایا، جن پر صرف لیبل موجود تھے، اور آج وہ لیبل بے نقاب ہو کر چوراہوں میں بکھرے پڑے ہیں۔
ابھی جب انتخابات کے لیے امیدواروں کی جانچ پرکھ شروع ہوئی تو یہ اہلیت نااہلیت کا قصہ پھر سے تازہ ہو گیا تھا۔ میں نے اسی غرض سے یہ سوچا کہ ابتدا سے دیکھا جائے کہ اہلیت اور نااہلیت کی دفعات کی نوعیت اور تاریخ کیا رہی ہے۔ گذشتہ کالم آپ کی نظر سے گذرے ہوں گے، 1935 کے ایکٹ، 1956 کے آئین، اور 1962 کے آئین میں ان دفعات کا جائزہ لیا جا چکا ہے۔ اب جب میں نے نئے سرے سے 1973 کا آئین دیکھا تو یہ چیز سامنے آئی کہ اس کی دفعات 62 اور 63 میں تو کچھ ایسا ہے ہی نہیں، جس کا آج کل چرچا اور اطلاق ہو رہا ہے۔ ان دونوں دفعات میں متعدد ایسی شقیں جینرل ضیا کے دور میں اضافہ کی گئیں۔ یعنی جب 1973 کا آئین نافذ العمل ہوا تو اس وقت اہلیت نااہلیت، نظریۂ پاکستان اور مذہبی معاملات سے منسلک نہ تھیں۔ گو کہ پاکستان میں اس وقت بھی مسلمان ہی بس رہے تھے۔ ہاں، شاید وہ جینرل ضیا اور ان کے حواریوں کی رائے میں مسلمان نہ تھے۔
پہلے 1973 کی اصل دفعہ 62 کی متعلقہ شقیں دیکھتے ہیں۔ یہ دفعہ کہتی ہے کہ کوئی شخص پارلیمینٹ کا رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہو گا، مگر اس صورت میں کہ (i) وہ پاکستان کا شہری ہو؛ (ii) وہ قومی اسیمبلی کی صورت میں پچیس سال سے کم عمر کا ہو اور اس کا نام اس اسیمبلی کے انتخاب سے متعلق کسی انتخابی فہرست میں ووٹر کی حیثیت سے درج ہو؛ (iii) وہ سینیٹ کی صورت میں تیس سال سے کم عمر کا ہو اور اس کا نام کسی صوبے کے کسی علاقے میں، یا جیسی صورت ہو، وفاقی دارالحکومت میں، یا وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں، جہاں سے وہ رکنیت چاہتا ہو، بطور ووٹر درج ہو؛ اور (iv) وہ ایسی دیگر اہلیتوں کا حامل ہو، جن کا تعین پارلیمینٹ کے ایکٹ کے ذریعے مہیا کیا گیا ہو۔
یہ ہیں وہ کل چار اہلیت کی شرائط۔ اب دیکھتے ہیں، اس آئین میں نااہلیت کی کیا شرائط درج تھیں۔ اصل دفعہ 63 کی دو شقیں ہیں۔ اس کے مطابق (1) کوئی شخص پارلیمینٹ کا رکن منتخب ہونے یا چنے جانے یا رکن رہنے کا اہل نہیں ہو گا اگر (i) وہ فاترالعقل ہو اور کسی مجاز عدالت کی طرف سے ایسا قرار دیا گیا ہو؛ یا (ii) وہ غیر برأت یافتہ دیوالیہ ہو؛ یا (iii) وہ پاکستان کا شہری نہ رہے اور کسی بیرونی ریاست کی شہریت حاصل کرلے ؛ یا (iv) وہ پاکستان کی ملازمت میں کسی منفعت بخش عہدے پر فائز ہو، ماسوائے ایسے عہدے کے جسے قانون کے ذریعے ایسا عہدہ قرار دیا گیا ہو جس پر فائز شخص نااہل نہیں ہوتا؛ یا (v) وہ پارلیمان کے ایکٹ کے ذریعے نااہل قرار پا جائے۔ اس دفعہ کی شق 2 کے مطابق اگر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا پارلیمان کا کوئی رکن، رکنیت کا اہل نہیں رہا، تو سپیکر یا جیسی بھی صورت ہو، چیئر مین، اس معاملے کو چیف ایلیکشن کمشنر کو بھیجے گا، اور اگر چیف ایلیکشن کمشنر کی رائے یہ ہو کہ رکن نااہل ہو گیا ہے تو وہ رکن نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔
یہ ہے 1973 کے اصل آئین میں اہلیت او رنااہلیت کی اصل دفعات کا کُل حساب کتاب۔ اب اگرنظریۂ پاکستان اور مذہبی وفاداری سے متعلق دفعات اور شقوں پر نظر ڈالی جائے، جوبعد ازاں جینرل ضیاالحق کی آمریت اور ان کے ساتھ شریکِ جرم آمریت پسند سیاست دانوں کے دور میں اضافہ کی گئیں یا تبدل و ترمیم کے مرحلے سے گزریں، تو یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستانی ریاست عدم تحفظ کا شکار تھی، اور اس عدم تحفظ نے اسے اپنے داخل کی طرف موڑ دیا۔ جیسے کوئی نفسیاتی مریض اپنے داخل میں چھُپ جاتا ہے، اور اپنے داخل کو ہی پوری دنیا گرداننے لگتا ہے۔ (یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ چند ایسی دفعات اور شقیں، جو بعد میں آئین میں داخل کی گئیں، وہ قانون اور اخلاقیات کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری تھیں۔) پاکستانی ریاست کا یہ رویہ ویسے تو ابتدا سے ہی ایک ایسے شخص کے رویے کا مظہر رہا ہے، جو ساری دنیا کو اپنے خلاف سمجھتا ہے اور یہ باور کرتا ہے کہ ساری دنیا اس کے خلاف سازشوں میں مبتلا ہے۔ تاہم، خاص اس دورمیں عدم تحفظ کا یہ رویہ دوسری متعدد چیزوں سمیت، ان دفعات میں کھُل کر متشکل ہو گیا۔ یہ دفعات بالعموم یہ ظاہر کرتی تھیں جیسے کہ پاکستانی ریاست کو خود اپنے شہریوں پر اعتماد نہیں۔ یہ ان پر شک کرتی ہے۔ انھیں پاکستان کا شہری نہیں سمجھتی، بلکہ ریاست دشمن سمجھتی ہے۔
پھر یہ بھی کہ ان دفعات (اور دوسری متعدد چیزوں) نے خود شہریوں میں بھی ریاست پر اعتماد پیدا نہیں ہونے دیا۔ جب ریاست شہریوں کی وفاداری پر شک کرے گی تو جواباً شہری بھی ایسا ہی کریں گے۔ اس چیز نے ریاست اور شہریوں کے درمیان پہلے سے موجود خلیج کو وسیع تر کر دیا۔ صرف یہی نہیں، ان دفعات اور ان کی بنیاد پر تشکیل پانے والی حکومت، سیاست اور سیاسی کلچر نے شہریوں کے درمیان بھی متعدد نوعیت کے فصیلیں کھڑی کر دیں۔ قوم، قومیت، مذہب، فرقے، نسل، زبان، ثقافت، وغیرہ، کے فرق، جو پہلے لوگوں میں رنگینی اور بوقلمونی کا مظہر تھے، اب اختلافات میں تبدیل ہو گئے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ اختلافات، شدید تر ہوتے ہوتے، تنافر اور تشدد کی صورت اختیار کر گئے۔ یعنی اس ریاست نے شہریوں کو ہی شہریوں کا دشمن بنا دیا؛ جبکہ ریاست کا بنیادی فریضہ، شہریوں کے درمیان تنازعات کا تصفیہ ہوتا ہے۔ یوں، پاکستانی ریاست، جسے ایک وسیع القلب، وسیع المشرب اور وسیع النظر ریاست کا ماڈیل بننا چاہیے تھا، ایک تنگ نظر، تنگ دامن اور تنگ دل ریاست بن کر رہ گئی۔ اسی پر بس نہیں، اس ریاست نے اپنے شہریوں کی برین واشنگ بھی اسی انداز پر کی اور انھیں بھی اسی تنگ نظری، تنگ دامنی اور تنگ دلی کے نمونوں میں ڈھال دیا۔ یہی تنگ نظری، تنگ دامنی اور تنگ دلی، آج پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان بن گئی ہے! سوچنے اور دیکھنے والی بات ہے کہ بات کہاں سے چلی اور کہاں پہنچی!
[یہ کالم 14 مئی کو روزنامہ مشرق پشاورـ اسلام آباد میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں