ملک کسی نسلی، لسانی، جغرافیائی، یا عسکری یا نظریاتی گروہ کے لیے نہیں بنتے۔ نہ ہی شہری ملک کے لیے ہوتے ہیں، بلکہ ملک شہریوں کے لیے ہوتے ہیں ۔ ایک ایسا پاکستان، جو ہر شہری کے لیے ہو، وہی ’’سول پاکستان‘‘ کہلا سکتا ہے۔
ہفتہ، 26 اپریل، 2014
اتوار، 20 اپریل، 2014
جمعہ، 18 اپریل، 2014
منگل، 15 اپریل، 2014
مفت خورے اشراف
ریاستی اشرافیہ کی ہوس ماند پڑنے کا نام نہیں لیتی۔ یہ ریاست کو لوٹنے سے باز نہیں آتے۔ اور تب تک لوٹنے سے باز نہیں آ سکتے جب تک قوانین سازی اور ضابطہ سازی پر ان کا کنٹرول باقی ہے۔
دیکھیے ریاستی اشرافیہ کی یہ کھیپ کس طرح مراعات کے لے تڑپ رہی ہے:
[The News Lahore, April 15, 2015]
[روزنامہ جنگ لاہور، 15 اپریل، 2014]
جمعہ، 4 اپریل، 2014
پاکستان: ایک بدتمیز اور بدمعاش ریاست
پاکستان میں جسے سرکاری نوکری اور ساتھ کچھ تھوڑا بہت سرکاری یعنی ریاستی اختیار مل جاتا ہے، وہ بے چارہ احساسِ کہتری اور کمتری کا مارا فوراً انسان کے درجے سے بلند ہو کر خدا بن بیٹھتا ہے۔ بیوروکریسی یوں ہی افسرشاہی بنتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان میں کسی کو پبلک ٹائلیٹ کے باہر نگرانی پر بٹھا دیں، وہ فوراً بیوروکریٹ بن جائے گا۔
سرکاری یا ریاستی اختیار ان کا دماغ ہی خراب نہیں کرتا، ان کی زبان کو بھی خراب کر دیتا ہے۔
ذیل میں نقل کیا جانے والا سرکاری اشتہار دیکھیے، اس کی زبان ملاحظہ کیجیے، اور پاکستان کی ریاست کی بدزبانی اور بدمعاشی کا ادراک کیجیے:
[اس اشتہار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں قانون کی حکومت کہاں کھڑی ہے، اور قانون کن بدزبانوں اور بدمعاشوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے اور چوری کی موٹر سائیکل خرید لیتا ہے تو کیا وہ زندگی بھر عذاب میں مبتلا رہے گا۔ پاکستان نہ ہوا، کوئی دوزخ یا جہنم ہو گیا!]
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)