بے چارے عام لوگ بال کاٹیں تو حقارت سے نائی، حجام کہلائیں۔ خواص بال کاٹیں تو فخر سے ڈیزائینر ہیئر ڈریسر کہلائیں۔ بہت سے کا م ہیں، جیسے کہ درزی کا، نانبائی کا، جو عام لوگوں کو تحقیر کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ کوئی کچھ کہتا رہے، زندہ بھی تو رہنا ہے۔ خواص یا اشرافیہ کا مسئلہ زندہ رہنا نہیں، بلکہ سٹائل سے زندگی گزارنا ہے۔ وہ جو بھی کرتے ہیں، سٹائل بن جاتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ نائی سے بال کٹوانے میں مزا نہیں آتا، کوئی سٹائلِش ہیئر ڈریسر ہونا چاہیے۔ عام سی بیکری سے کیک لیا تو کیا تیر مارا، کوئی مختلف سی بیک شاپ ہونی چاہیے۔
یوں کوئی بھی کام ہو، اسے سٹائل کے ساتھ کرنے میں اشرافیہ کا امتیاز قائم رہتا ہے۔ خواہ یہ غریبوں کی مدد کرنا ہو، این- جی- او چلانا ہو، یا چھوٹا موٹا سیاسی کام ہو۔ یا بالخصوص کوئی احتجاج ہو تو پھر تو پکنک ہو جاتی ہے۔ کوئی سانحہ، قتل، حادثہ، قدرتی یا انسانی آفت، ایسا کچھ بھی ہو جائے، چلیں کسی مرکزی جگہ شام کو موم بتیاں یا دیے جلائیں۔ میڈیا کو بھی فون کر دیں۔ وہ ہے نہ وہاں، اسے کہہ دیں، وہ سب کو بتادے گا۔ میڈیا بے چارہ، جو خود اشرافیہ کا دُم چھلا بنا پھرتا ہے، فوراً بھاگا چلا آتا ہے۔ یہی نہیں اگلے روز یہ اہم خبرمع تصویر اخبار کی زینت بنے بغیر نہیں رہتی۔
یا پھر احتجاج کے لیے کوئی نئی، ذرا مختلف بات ہونی چاہیے۔ کوئی ایسا کام کیا جائے، ایسا انداز اپنایا جائے کہ بس مزا آجائے۔ ایسا ہی ایک موقع 21 ستمبر کا وہ جمعہ ثابت ہوا، جو کسی بھی قسم کے پاکستانی احتجاج سے کسی بھی طرح مختلف نہ تھا، جبکہ اسے نمایاں طور پر عام احتجاجات سے متمیز ہونا چاہیے تھا۔ تشدد، توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ کے بعد کے مناظر بتا رہے تھے جیسے یہاں سے ابھی ابھی کوئی حملہ آور گزرا ہے۔ آگ بجھی ہوئی اِدھر، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر / کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں! (اقبال)
اللہ دے اور بندہ لے۔ فیس بُک پر ایک مہم چلی: پروجیکٹ کلین اپ فار پیس۔ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں، اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور میں کسی احساسِ کہتری سے آزاد خوش لباس نوجوان طلبہ و طالبات اور اہم شخصیات جھاڑو لیے برآمد ہوئیں۔ اسلام آباد کی صفائی کی مہم میں وہاں کے آئی- جی پولیس بھی شریک ہوئے۔ صفائی کی گئی، کوڑے کرکٹ بلکہ توڑپھوڑ کی باقیات اکٹھی کی گئیں، اور یوں یہ پیغام دیا گیا کہ اگر کچھ لوگ تشدد پر یقین رکھتے ہیں تو کچھ لوگ اس سے مختلف سوچ کے حامل بھی ہیں۔
بلا شبہ ان مہمات میں ایسے لوگ بھی شامل ہوں گے، جنھوں نے شاذ ہی کبھی جھاڑو کو ہاتھ لگایا ہو۔ امن کے لیے وہ ایسا کرنے پر تیار ہوگئے۔ کتنا اہم پیغام پوشیدہ ہے اس چھوٹے سے کام میں۔ یہ منظر کتنا متاثر کن ہو گا، جب اہم شخصیات اور بالخصوص آئی، جی اسلام آباد جھاڑو پھیر رہے ہوں گے۔ اخبارات کے رپورٹر، ٹی- وی چینلز کے کیمرے مجسم آنکھ بنے ہوں گے، اور پھریہ مناظر کاغذ اور سکرینوں پر جلوہ افروز ہوئے ہوں گے۔
عدم تشدد اور امن کے لیے خواہش کا اظہار بھی ہوگیا، کچھ مختلف کام بھی ملا کرنے کو، واہ واہ بھی ہو گئی، اور ضمیر بھی مطمئن ہو گیا۔ اس کام میں اشرافیہ بھی شامل تھی، اور بے چارے اشرافیہ نواز بھی، جو اپنے تئیں اشرافیہ کی چال چل کر سمجھتے ہیں، وہ بھی اشرافیہ بن گئے۔
میں قنوطی نہیں، اور منفیت پسند بھی نہیں۔ اس کام کی اپنی جگہ اہمیت اور معنویت ہے۔ ہر ایک کو آزادی ہے کہ وہ کیا کرتا ہے۔ میری بے اطمینانی کا سبب یہ ہے کہ یہ کام بہت کم ہے، نہ ہونے کے برابر ہے۔ یوں سمجھ لیجیے جب اونٹ جیسا کام کرنا بنتا ہو تو اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے جیسا کام کرنا کہاں کی دانائی اور کہاں کی بہادری ہے۔ پھر میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ایسے کام اصل کام سے توجہ ہٹانے کا حیلہ بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ اس طرح کے کام اصل مجرم کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔
مجھے جومختلف قسم کے تحفظات لاحق ہیں،ان میں سے کچھ تو یہ ہیں۔ مثلاً یہ کہ جنھیں بھنگی، چوڑا، چمار، خاکروب، جمادار کہہ کر ہم ادنیٰ درجے کا شہری بنا دیتے ہیں، کیونکہ وہ یہی صفائی کا کام کرتے ہیں، کیا اشراف میں سے کچھ لوگوں کے جھاڑو اٹھا لینے اور بُہارنے سے، اُن شہریوں یا اِن شہریوں کی حیثیت میں کوئی فرق پڑا۔ اس ضمن میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کام کا مقصد یہ تو نہیں تھا۔ اس کی مناسبت تو یہ تھی کہ بھئی توڑ پھوڑ ہو گئی، کوئی تو ہے، جو یہ سوچ رکھتا ہے کہ ان مقامات کی صفائی کرے اور ایک مثبت پیغا م آگے بڑھائے۔ پھر میرا ایک تحفظ یہ بھی ہے کہ کیا اس ایک دن کی صفائی سے وہ جگہیں باقی دنوں میں بھی صاف رہیں گی۔ اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ بھئی یہ تو علامتی کام تھا، ہم اب روز روز صفائی تو نہیں کر سکتے ۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ جو ہوا غلط ہوا، حکومت کس لیے ہوتی ہے، اس نے کیا کیا ۔ کیا اس نے امن و امان قائم رکھا۔ پھر یہ بھی کہ لوگوں نے جو جرم کیا، اس کی پکڑ ہوئی کہ نہیں۔ یہی تو بات ہے کہ اس طرح کے کام کر کے آپ حکومت کی بے عملی کو بے نقاب کرنے اور اس پر دباؤ ڈالنے کی جگہ اسے کھلا چھوڑ رہے ہیں۔
میر اخیال یہ بھی ہے کہ صفائی کا کام کرنے کے لیے باقاعدہ محکمے، افسران، اور ملازمین موجود ہیں۔ وہ کہاں مرگئے، جو آپ کو یہ کام کرنا پڑ گیا۔ اگر یہ محکمے موجود ہیں، ان کے ملازمین شہریوں کے ٹیکس کے پیسے سے تنخواہیں لے رہے ہیں تو وہ اپنا کام کیوں نہیں کررہے ۔ جہاں آپ کو یہ سوال اٹھانا چاہیے تھا کہ حکومت کے مختلف محکمے، افسران اور ملازمین اپنی ذمے داری کیوں پوری نہیں کررہے، وہاں آپ ان کا کام آسان کر رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ آپ حکومت کو کھلا چھوڑ رہے ہیں، اور اسے غیر ذمے دار بنا رہے ہیں۔ بلکہ پاکستان کی متعدد این- جی- اوز یہی کام کررہی ہیں۔
یہ تو میرے تحفظات کی تفصیل تھی، لیکن میرا اصل اعتراض کچھ اور ہے۔ ایک چیز یہ ہے کہ کیا ہونا چاہیے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ مراد یہ کہ پہلی بات صرف یہ ہے کہ بھئی ہم بھی موجود ہیں، ہمیں بھی کچھ کرنا چاہیے۔ یہ خود کو پہلے رکھنا ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ ہم سے باہر کیا ہو رہا ہے۔ باہر نکل کر دیکھا جائے، سوچا جائے یہ کیسے درست ہوسکتا ہے، اور کیا ہونا چاہیے۔ یہی بات ہے جو میں کہہ رہا ہوں کہ آپ صرف خود پر مرکوز ہیں۔ اپنے اندر قید ہیں۔ اس انداز اورسوچ کے ساتھ آپ اسے نہیں سمجھ سکتے، جو آپ کے باہر ہو رہا ہے۔ اور اگر آپ اسے سمجھ نہیں سکتے کہ آپ کے باہر کیا ہو رہا ہے تو پھر آپ کے یہ جاننے کا امکان بھی کم ہوجاتا ہے کہ کیا ہونا چاہیے۔ یوں آپ باہر کی حقیقت سے کٹے رہتے ہیں، اور آپ کو ایسے نرالے کام سوجھتے ہیں، جو باہر سے کوئی رشتہ نہیں رکھتے۔
مختصر یہ کہ اس طرح کے کاموں سے باہر کی حقیقت کبھی تبدیل نہیں ہو گی۔ ہاں، آپ ضرور خوش ہو جائیں گے کہ اپنی طرف سے ہم نے کچھ نہ کچھ تو کیا۔ یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ ایسے کام امتیاز اور اپنی خوشی کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ان سے تبدیلی کا ایک پتہ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتا!
[یہ تحریر 9 اکتوبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوئی۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں