اتوار، 8 ستمبر، 2013

ترقی پسند مصنفین، انگریزی ناول اور میڈیا

[نوٹ: یہ تحریر 21 جولائی 2012 کو ’’اردو بلاگ ـ سب کا پاکستان‘‘ کے لیے  لکھی گئی تھی اور 23 جولائی کو پوسٹ کی گئی۔]

گذشتہ ماہ کی بات ہے، جب ایک ہی روز دو تقریبات میں جانے کا اتفاق ہوا۔ کوشش تھی کہ اسی دن یا اگلے دن ان کے بارے میں لکھوں، مگر مصروفیات کی بنا پر یہ کام ملتوی ہوتا رہا۔

یہ جون (2012) کا پہلا دن تھا۔ پہلی تقریب، ”منٹو - ایک صدی کا قصہ“، پنجاب پبلک لائبریری ہال، لاہورمیں منعقد ہوئی۔ سہ پہر تین بجے کے قریب۔ اس کا انعقاد انجمن ِ ترقی پسند مصنفین لاہور نے کیا تھا۔ دعوت نامے پر درج تھا: ’2012 اردو کے عہد ساز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا 100 واں سال پیدائش ہے، انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور سعادت حسن منٹو کو خراج ِ تحسین پیش کرنے اور اس کی ادبی خدمات کا جائزہ لینے کے لیے سیمینار منعقد کرر ہی ہے ۔‘

چونکہ صدر ِ تقریب تشریف نہیں لائے، ان کا نام درج نہیں کر رہا۔ مہمانان ِ اعزاز، عابد حسن منٹو، ڈاکٹر انوار احمد، اور نگہت منٹو، موجود تھے۔

دعوت نامے پر درج مضامین پڑھنے والوں کے نام یہ ہیں: ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، نیلم احمد بشیر، ڈاکٹر قاضی عابد، ڈاکٹر صولت ناگی، ڈاکٹر مصدق حسین، ڈاکٹر روش ندیم، پروفیسر امجد علی شاکر، پروفیسر رشید مصباح، سعید اختر ابراہیم، ڈاکٹر ضیاء الحسن، پرویز پارہ، عابد حسین عابد، خواجہ جمشید امام، حمیرہ مشتاق۔

پنجاب پبلک لائبریری کے ہال میں پرانے طرز کے اے - سی موجود تھے، مگر ٹھنڈک پیدا نہیں کر رہے تھے۔ یہ ہال دیکھ کر یا د آیا، یہ تو وہی ہال ہے، جہاں اخبار بینوں اور مطالعہ کرنے والوں کا رش ہوا کرتا تھا۔ ہال کی حالت کوئی بہتر نہیں تھی۔ موسم گرم تھا، اور ہال کے اندر خاصا حبس ہو رہا تھا۔ تاہم، اس سے بے نیاز، پڑھنے والے پڑھ اور سننے والے سن رہے تھے۔

اس میں پڑھے گئے مضامین اور گفتگو میں سے کچھ ٹکڑے ملاحظہ کیجیے:

’لفظ سے لفظ کا رشتہ جوڑنے والوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ ہم لفظ کا رشتہ زندگی سے جوڑنے والے ہیں۔‘ (عابد حسین عابد)

’منٹوکو ترقی پسندوں کی ضرورت نہیں تھی۔ نہ ہے۔ ترقی پسندوں کو منٹو کی ضرورت ہے۔‘ (سعید اختر ابراہیم)

’آج ایک نہیں سینکڑوں منٹووں کی ضرورت ہے۔‘ (رشید مصباح)

’انگریزی پڑھنے اور بولنے والی کلاس منٹو کو کیوں پڑھنے لگی ہے؟‘ (نیلم احمد بشیر)

’منٹو نے کل 234 افسانے لکھے۔‘ (مرزا حامد بیگ)

’منٹو نے پچھڑے ہوئے طبقات، حقیرترین عوام، چور لٹیروں، کمزور ترین گروہ عورت کو ادب میں شامل کیا۔‘ (ڈاکٹر روش ندیم)

’پاکستان بننے کے بعد منٹونے صرف ریاکاری پر لکھا۔‘ (ڈاکٹر انوار احمد)

اور جیسا کہ اس تقریب کی صدارت عابد حسن منٹو کر رہے تھے، انھوں نے کچھ توازن قائم کرنے کی کوشش کی: ’کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان، پروگریسو رائیٹرز کو کنٹرول کرتی تھی‘ گو کہ یہ کنٹرولڈ سسٹم تھا، لیکن اس میں بھی بات کرنے کی آزادی تھی۔ منٹو کی صدی منائی گئی، انھیں سوشلسٹ بنا دیا گیا، ہم نے بنایا، وہ تو نہیں تھے۔‘

یہ تقریب قریباً ساڑھے چھ بجے ختم ہوئی۔ دوسری تقریب، چونکہ بہت دور نہیں، بس ساتھ ہی نیشنل کالج آف آرٹس میں تھی، اور اس کا وقت سات بجے تھا، سو اس میں شرکت کرنا آسان لگا۔ ایک دوست ظفر جمال اور میں، پبلک لائبریری سے نکل کر این - سی - اے آڈیٹوریم میں جا براجے۔

یہاں مشرف علی فاروقی کے انگریزی ناول، ”بیٹوین کلے اینڈ ڈسٹ“ کی تقریب رونمائی کا اہتمام تھا۔ ہال میں خنکی موجود تھی۔ دھیمی دھیمی روشنی بھی۔ سٹیج پر ایک چھوٹی میز اور دو کرسیاں رکھی تھیں۔ اوپر سے نشانہ لیے دو لائیٹیں دونوں کرسیوں کو روشن کر رہی تھیں۔ ابھی حاضرین آ رہے تھے۔ مصنف بھی وہیں موجود تھے، اور خریدے جانے والے ناولوں پر دستخط کر رہے تھے۔ یوں ان کی شناخت ہوئی۔ کچھ دیر میں رضا رومی آگئے۔ ان کے ساتھ مصنف کا مکالمہ ہونا تھا۔

تقریب کا آغاز ہوا۔ سٹیج جمالیاتی طور پر بہت پر کشش لگ رہا تھا۔ بس مصنف اور رضا رومی نمایاں ہو رہے تھے؛ اور پیچھے پردے پر ناول کا سرورق۔ دومائیک دستیاب تھے۔ اور مکالمہ شروع ہو گیا۔

کسی کتاب کی رونمائی یا تعارف کے لیے مجھے یہ فارمیٹ (انداز) بہت اچھا لگا۔ مصنف پر فوکس رہے، اور اگر مکالمہ کرنے والا چاہے تو کتاب پر۔ بہت اچھی گفتگو رہی۔ جب یہ سوال کیا گیا کہ وہ انگریزی میں کیوں لکھتے ہیں تو مصنف نے بلا تکلف یہ کہا کہ اگر میں اردو میں لکھوں گا تو بھوکا مر جاؤں گا۔ میں ایک پروفیشنل رائیٹر ہوں۔

پھر انھوں نے وقفوں وقفوں سے ناول سے کچھ اقتباسا ت بھی پڑھ کر سنائے۔ گفتگو بیشتر انگریزی میں، کچھ اردو میں رہی۔

اور اب حاضرین کے لیے سوالوں کا دور آ گیا۔ سوال اردو میں بھی تھے، اور انگریزی میں بھی۔

مختلف سوالوں کے جواب میں مصنف کی رائے تھی کہ ترقی پسند رائیٹرز نے اردو کو بہت نقصان پہنچایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ادب، مقصد سے تعلق نہیں رکھتا (انھوں نے انگریزی میں کہا تھا)۔ منٹو سو دفعہ بھی پیدا ہو جائیں، غلام عباس جیسی کہانی نہیں لکھ سکتے۔

وہ یہ رائے بھی رکھتے تھے کہ پرانا نئے میں تبدیل نہیں ہو رہا۔ پرانا سڑ رہا ہے، اور نیا نہیں بن رہا۔

یہاں اگرچہ میرا مقصد ان تقریبات میں سامنے آنے والی فکر سے بحث کرنا نہیں، گوکہ دونوں، ایک طرح سے، دوانتہاؤں پر متمکن تھیں۔ تاہم، یہ دونوں اپنی اپنی جگہ نمائندہ تقریبات تھیں، یوں کہ دونوں ایک ہی سوسائیٹی کی دو حقیقتوں کی عکاسی کر رہی تھیں۔ تاہم، جس بات کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ پہلی تقریب میں ایک بھی اخباری رپورٹراور فوٹو گرافر نظر نہیں آیا، اور اس کے برعکس، دوسری تقریب میں رپورٹروں اور فوٹو گرافروں کا تانتا بندھا ہو اتھا۔ یہی نہیں، جیسا کہ میں سوچ رہا تھا، کل کے اخبارات (اردو اور انگریزی دونوں) میں ترقی پسند مباحث کا کوئی ذکر اذکار موجود نہیں ہو گا، تو ایسا ہی ہوا؛ کسی اخبار میں اس تقریب کا کوئی ذکر موجود نہیں تھا۔ جبکہ انگریزی ناول کی تقریب کی خبر بھی اور اس پر فیچر بھی شائع ہوئے، خواہ انگریزی اخبارات میں ہی سہی۔

ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ محض اتفاق تھا کہ ایسا ہوا، یا ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں تو یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ ایک معمول ہے، یا معمول بن چکا ہے۔ بہ ایں سبب، میں پہلی تقریب کو اجلافی اور دوسری تقریب کو اشرافی تقریب کا نام دوں گا۔ ان کی داخلی نوعیت کے اعتبار سے نہیں، بلکہ خارجی تاثر کے لحاظ سے۔ اور یہی وہ چیز ہے، جو اہم ہے۔

مجھے میڈیا کی آزادی بہت عزیر ہے، وہ جو چاہے کرے، (کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تحریر اور تقریر کی آزادی، آزادی ِمطلق کا درجہ رکھتی ہے)، اور میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اس آزادی کو بچانے اور مستحکم کرنے کے لیے، اس سے پہلے کہ اس آزادی کو ضابطوں کے شکنجوں میں لانے کے لیے حکومت کوئی قدم یا اقدامات اٹھائے، میڈیا کوخود اپنے وضع کردہ ضابطوں کے تحت، اپنی آزادی کا تعین کر لینا چاہیے۔ یعنی سیلف ریگولیشن!

لیکن اس کے ساتھ ساتھ میری آزادی بھی کوئی معنی رکھتی ہے، اور یہ ابھی اتنی ہی اہم ہے۔ میڈیا اگر اپنی ”کھُلّی ڈُلّی“ آزادی کا استعمال کرنے میں آزاد ہے تو میں بھی میڈیا کی اس آزادی اور اس آزادی کے نتائج پر رائے دینے میں آزاد ہوں۔ اور میری رائے یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا مجموعی طور پر اشراف پسند ہے۔ اس کے دومطلب ہو سکتے ہیں: ایک تو یہ کہ اس پر خود اشراف کا قبضہ ہے؛ دوسرے یہ کہ اس پر اشراف پسندوں کا قبضہ ہے۔ اس میں اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ دونوں صورتوں کا نتیجہ ایک ہی ہے۔ یعنی میڈیا اشراف پسند ہے۔

اگر دونوں تقریبات کے فکری مواد پر نظر ڈالی جائے تو پہلی تقریب از حد اہم تھی، اور پاکستانی سوسائیٹی سے زندہ تعلق کی حامل بھی کہی جا سکتی ہے۔ یہاں موجود پڑھنے والے نہایت مخلص اوراپنی وابستگی سے بے حد لگاؤ رکھنے والے ہیں۔ وہ بے مایہ طبقات کے طرفدار ہیں۔ شاہ یا اشراف یا اشرافیہ کے وفادار نہیں۔ انھیں یہاں اس تقریب میں پڑھے جانے والے مضامین سے کوئی مالی یا غیر مالی فائدہ نہیں ہونے والا تھا، سوائے اس کے کہ جیسا کہ تقریب میں بتایا گیا کہ یہاں پڑھے جانے والے مضامین، کتابی صورت میں شائع ہوں گے۔

ہاں، اگرچہ انگریزی ناول کا موضوع اور کردار مقامی تھے، تاہم، یہ عیاں ہے کہ اس کے پڑھنے والے پاکستان میں خال خال، یعنی قلیل تعداد میں ہیں۔ اس اعتبار سے بھی، پہلی تقریب اہم تھی، اور اسے میڈیا (انگریزی اور اردو، اور پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں) کی طرف سے مناسب توجہ ملنی چاہیے تھی، جو نہیں ملی۔

یہاں کچھ رکتے ہیں، اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ میڈیا، اشراف پسند کیوں ہے۔ ایک سبب تو یہ ہو سکتا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے، کہ میڈیا کی ترجیحات کا تعین ”کیا چیز بکتی ہے“ سے ہوتا ہے۔ مگر یہاں اس معاملے میں ایسا نظر نہیں آتا۔ کیا یہ انگریزی ناول پاکستان میں بِکنے والی چیز ہے۔ یا اگر بکے گا بھی تو کتنا بک جائے گا۔ ہاں، یہ بات ہے کہ جو لوگ انگریزی اخبار پڑھتے ہیں، ان کے لیے اس کی اطلاع و کوریج ضروری تھی۔

تو کہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ترقی پسندوں کی تقریب، انگریزی پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی کا کوئی سامان نہیں رکھتی۔ یہی وہ مخمصہ ہے، جس میں پاکستانی پرنٹ (اردو سمیت)، اورالیکٹرانک میڈیا دونوں گرفتار ہیں۔ ان کی سوئی کہیں اشراف پسندی کے ہندسوں میں اٹکی ہوئی ہے۔ اور اس کا سبب وہ دونوں عوامل ہیں، جن کا اوپر ذکر ہوا۔

مراد یہ کہ یہ بات بھی درست ہے کہ میڈیا بیشتر اشراف کے قبضے میں ہے، اور اس پہلی بات سے، یہ بات کہیں زیادہ درست ہے کہ میڈیا اصلاً ”اجلاف“ کے قبضے میں ہے۔ یہ اجلاف، وہی اشراف پسند ہیں، جو خود اشراف بننا چاہتے ہیں، اور اس آسیب کے تحت اجلافی تقریبات کو گھاس نہیں ڈالتے۔ اپنی حالیہ کتاب، ”پاکستان میں ریاستی اشرافیہ کا عروج“ میں، میں نے اس طبقے کو ”اشرافیہ نواز“ کا نام دیا ہے (تفصیل کے لیے کتاب دیکھیے)۔ سو، یہ کہنا بجا ہو گا کہ میڈیا اصلا ً اشرافیہ نواز ہے، یا اشرافیہ نواز طبقے کے قبضے میں ہے۔ اور یہ انھیں کے گُن گاتا ہے، اور اگر کہیں کوئی اجلاف کی بات آ جائے، یا ہو جائے، تو وہ اسے بھی اس انداز سے بیان کرے گا کہ جیسے یہ اشراف کا احسان ہے کہ اجلاف بھی مذکور ہو گئے۔ مثال کے لیے ٹی ۔ وی چینلز کے کچھ ٹاک شوز کے میزبانوں کی گفتگو، ان کا رویہ اور انداز دیکھیے۔ بلکہ کسی حد تک سب کے سب چینلز ’’اشرافی احسان پسندی‘‘ کی مثال ہیں؛ یہ ’’غریب عوام‘‘ کے نمائندے جو بنے ہوئے ہیں۔ 

تو کیا یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ میڈیا، بادشاہ سے زیادہ بادشاہ کا وفادار ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اشرافیہ سے زیادہ اشرافیہ کا وفادار ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں