جمعہ، 6 ستمبر، 2013

سیاسی پارٹیاں اور لوٹ مار کا ایجینڈا

گذشتہ دوکالموں میں جو ہوش ربا کہانیاں بیان ہوئیں، ان سے آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ دل دہلا دینے والی حیرانی ختم ہونے میں نہیں آتی۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے۔ یا یہ محض افسانے ہیں۔ لیکن ایسا ہوا ہے۔ ایسا ہو رہا ہے۔ یہ خبریں اخبارات کے صفحات اور ٹی- وی چینلز کی سکرینوں پر ہمارا منہ چڑا رہی ہیں۔ اور یقینا ایسی بہت سی خبریں ہوں گی، جو بوجوہ قلمبند نہیں ہو پاتی ہوں گی۔ یہ دو خبریں، یا سٹوریاں تو میں نے خود پڑھی اور سنی ہیں۔ میں یہ اعتراف بھی کرلوں کہ میں ایک معمولی سا شہری ہوں۔ میرے معلومات کے ذرائع بھی وہی ہیں، جو عام شہریوں کو دستیاب ہیں۔ جیسے کہ ٹی- وی چینلز، اخبارات، رسالے، اور جو کچھ ویب سائیٹس پر شائع ہوتا ہے۔

پہلے کالم، ”مملکتِ اشرافیہ پاکستان، مبارک ہو!“ میں جو ناقابلِ یقین حالات و واقعات مذکور ہوئے، وہ ٹی- وی چینلز کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ اردو اور انگریزی اخبارات میں بھی آتے رہے ہیں۔ کہنے سے مراد یہ ہے کہ اخبارات نے انھیں نمایاں توجہ کا مستحق نہیں سمجھا۔ یا ہوسکتا ہے، کہیں ان پر مناسب توجہ دی گئی ہو۔ میں سارے اخبارات نہیں دیکھتا، نہ ہی سب کے سب ٹی- وی چینلز۔ لیکن بہرحال حقیقت یہی ہے کہ انھیں مہم نہیں بنایا گیا۔ ان پر اتنا شور نہیں مچا، جتنا مچنا چاہیے تھا۔ کیا یہ سب آئین، قانون، قواعد وضوابط، اخلاقیات کے سراسر خلاف نہیں تھا۔ کیا یہ عدالت اور اس کے احکامات کو پامال کرنے کے مترادف نہیں تھا۔ بلکہ اس سے بڑی خیانت اور کیا ہو سکتی ہے۔ کیا یہ انسانی قدروں کی توہین و تضحیک نہیں تھی۔

اسی طرح، دوسرے کالم، ”حلوائی کی دکان یا پاکستان“ میں جو طلسمی حالات بیان ہوئے، اور جس طرح شہریوں کے ٹیکس کے پیسے میں سے 82 کروڑ روپے اِدھر سے اُدھر ہوگئے، کیا اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ لاکھوں افراد سیلاب میں اپنے گھروں سے محروم ہوجاتے ہیں، زلزلوں میں ان کی املاک تباہ ہو جاتی ہیں، مگران کی تلافی کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ جن لوگوں سے میری بات ہوئی، ان کا کہنا ہے کہ یہ 82 کروڑ والا قصہ انھوں نے کسی اخبار میں نہیں پڑھا۔ یا ہوسکتا ہے، جو اخبار وہ پڑھتے ہوں، اس میں اس کے بارے میں کچھ نہ چھپا ہو۔ دو تین اخبار تو میں بھی پڑھتا ہوں، ان میں اس کا کوئی ذکر نہیں آیا۔ کسی اخبار اور کسی ٹی- وی چینل نے اس پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ صرف جیو نیوز پر کامران خان نے ہی اس دیدہ دلیری کو بے نقاب کیا۔

ان دونوں کالموں میں، میں نے جو حالات و واقعات ”مشرق “ کے قارئین کے سامنے رکھے ہیں، کیا وہ معمولی سی بات ہیں۔ کیا یہ محض دوچارروپے کی چوری اور ڈاکے کا سوال ہے۔ حق تو یہ ہے کہ چوری خواہ دوچار روپے کی ہو، ہے تو چوری۔ یہاں شہریوں کی امانت میں سے اربوں اور کروڑوں روپوں کی خورد برد ہوگئی ہے، اور کسی کے سر پر جوں نہیں رینگی۔ یہی وجہ تھی کہ جب کامرن خان نے دوسری مرتبہ 82 کروڑ کے چیک پر بات کی تو انھوں نے یہی کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ہی اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ حکومت کو کیا پڑی کہ وہ ایسے معاملات پر اپنا وقت ضائع کرے؛ وہ بے چاری بھی تو اسی قسم کے کاموں میں مصروف ہے۔

اوگرا کے سربراہ والا کیس کچھ اور پیچیدہ ہو گیا ہے۔ یہ گیس کے نرخوں میں ناجائز اضافے سے بھی منسلک سمجھا جا رہا ہے، اور سپریم کورٹ نے ان دونوں کیسوں کو اکٹھا کر دیا ہے۔ تاہم، گرفتاری ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ اخبارات میں یہی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ احتساب کا نیا قانون منظور ہو جائے تو وہ پھر گرفتاری دیں گے۔ یہ بھی کیسی پاکستانی بات ہے! کیا احتساب کا نیا قانون اوگرا کے سربراہ کو احتساب سے بری کر دے گا۔ یہ کیسا احتساب ہوا، اور کیسا قانون ہوا کہ لوگ انتظارمیں ہیں کہ یہ قانون بن جائے تو پھر احتساب کروائیں گے۔ کچھ نہ کچھ تو دال میں کالا ہے، یا پھر ساری دال ہی کالی ہے!

اس ضمن میں جو سوال میں اٹھانا چاہتا ہوں، اس کا تعلق زیادہ تر سیاسی پارٹیوں اور سیاسی لیڈروں سے ہے۔ درست ہے کہ میڈیا، سول سوسائیٹی، بیوروکریسی، اور این- جی- اوز کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان دونوں معاملات کا نوٹس لیتیں، اور ایک مہم بناتیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہاں، ایک این- جی- او نے اتنا ضرور کیا کہ پنجاب حکومت کے دان (پنجاب حکومت نے آرمی پبلک سکول وکالج کو 100ملین روپوں کی گرانٹ دی) کو سب کے سامنے لا رکھا۔ ایک بیوروکریٹ (ناصر کھوسہ) نے بلوچستان سے تبادلے کی سزا برداشت کی، پر معقول بات کہنے سے منہ نہیں موڑا (بشرطیکہ ان کے تبادلے کاسبب یہی معاملہ تھا)۔

میں سمجھتا ہوں اصل میں اوگرا کے سابق سربراہ کے حوالے سے جو کچھ لاہور میں ہوا، جو کچھ اسلام آباد میں ہوا، اوراس حوالے سے آج بھی اسلام آباد میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ حکمرانوں، تمام سیاست دانوں، سیاسی- مذہبی پارٹیوں کے لیے شرمناک ہونا چاہیے ۔ لیکن کیا کسی نے اس پر توجہ دینا گوارا کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی سیاسی پارٹی یا سیاسی لیڈر نے ان ”سانحات“ کو اس قابل سمجھا کہ ایک بیان ہی داغ دیں، یا کوئی پریس کانفیرینس ہی جھاڑ دیں۔ ویسے تو سینیٹ میں جو ہوا (اس کا ذکر گذشتہ کالم میں مناسب تفصیل سے آچکا ہے)، وہ یہ سمجھا دینے کے لیے کافی ہے کہ سب کی سب سیاسی پارٹیوں کا ایجینڈ ا ایک ہی ہے، اور بہت سے معاملا ت میں یہ ایک دوسرے کی حرکات پر انگلی اٹھانا بھی گوارا نہیں کرتیں، یا محض دکھاوے کے لیے بیان دے دیتی ہیں، یا کمیشن بنوا دیتی ہیں۔ یہ سینیٹ میں خواہ مسلم لیگ (ن) کے اسحاق ڈار ہوں، یا اے- این- پی کے حاجی عدیل، یا اور دوسری پارٹیوں کے سینیٹر، کسی نے بھی ان سانحات کی طرف اشارہ کرنے کی تکلیف نہیں اٹھائی، بلکہ سب نے نیب اور پولیس کے اہلکاروں کی مذمت کی۔ جبکہ یہ سب لوگ ہم عام شہریوں سے بہت زیادہ با خبر ہوتے ہیں، اور سب کے سب یہ ضرور جانتے ہوں گے کہ اوگرا کے سربراہ، توقیر صادق، کس کے عزیز ہیں، اور کون انھیں تحفظ مہیا کر رہا ہے۔

چلیں سینیٹ کو چھوڑیں۔ کیا قومی اسیمبلی میں سے کسی نے اس معاملے پر بات کی۔ اس کے ساتھ ساتھ کیا سینیٹ اور قومی اسیمبلی میں سے کسی نے بلوچستان میں 82 کروڑ روپوں کی ادائیگی کے معاملے پر کو ئی سوال اٹھایا۔ کیا کسی صوبائی اسیمبلی میں ان دونوں معاملات پر کوئی توجہ دی گئی۔ پیپلز پارٹی تو حکمران پارٹی اورملوث پارٹی ہے، اس سے توقع کرنا عبث ہے۔ چلیں ان سب ایوانوں کو، یعنی سینیٹ، قومی اسیمبلی، اور صوبائی اسیمبلیوں کو پرے رکھیں۔ کیا ان ایوانوں سے باہر کسی سیاسی پارٹی نے ان معاملات کو توجہ کے قابل سمجھا۔ کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی، خواہ یہ مسلم لیگ (ن) ہو، یا اے- این- پی، یا مسلم لیگ (ق)، یا اور دوسری مسلم لیگیں، یا ایم- کیو- ایم، یا جمیعتِ علمائے اسلام (ف)، یاجماعتِ اسلامی، اوردوسری جو بھی سیاسی پارٹیاں اور گروہ پاکستان میں موجود ہیں۔ سب کی سب پارٹیوں اور لیڈروں نے ان معاملات کو نظرا نداز کیا۔ کیوں، یہی چیزاہم ہے، اور یہ بات سمجھاتی ہے کہ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طرح، ان سب کا ایجینڈا ایک ہے، اور وہ ہے شہریوں کے پیسے پر ڈاکہ اور آئین وقانون سے روگردانی۔

اب ذرا توجہ دیے لیتے ہیں اس سیاسی پارٹی پر جو کرپشن کو نوے دن میں ختم کرنے کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتی۔ کیا تحریکِ انصاف نے، یا اس کے کسی لیڈرنے ان معاملات پر کوئی بیان جاری کیا، ان پر کوئی توجہ دی۔ میرے علم میں تو ایسی کوئی بات نہیں۔ اتنا تو ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ یہ دونوں معاملات اپوزیشن کی پارٹیوں اور گروہوں کے لیے ایک ایسا موقع تھے اور ہیں، جن کی بنیاد پروہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کو ناکوں چنے چبوا سکتے تھے۔ بلکہ کوئی مہذب ملک ہوتا تو حکومت کو گھر بھیج سکتے تھے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ حزبِ اختلاف کیوں خاموش رہی ۔ بلکہ ایوانوں سے باہر کی حزبِ اختلاف کی ایک اہم پارٹی یعنی تحریکِ انصاف ان معاملات پر کس مصلحت کا شکار ہے۔ کیا وہ سمجھتی ہے کہ یہ دونوں معاملات ناقابلِ توجہ ہیں۔ دفع کریں انھیں۔ یا پھر ایک سرے سے لے کر آخری سرے تک، سب کی سب سیاسی پارٹیوں کا ایجینڈا ایک ہی ہے!


[یہ تحریر 20 اکتوبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوئی۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں