گذشتہ سال عید کا دن (یکم ستمبر) تھا، اور ان دنوں کراچی میں امن و امان کے حالات بہت خراب تھے۔ دلبرداشتہ، سابقہ ’’اردو بلاگ ـ سب کا پاکستان‘‘ کے لیے میں نے ’’کراچی کا مقدر‘‘ لکھا۔ اور اس کے بعد ایک ٹی ـ وی چینل پر پنجابی فلم ’’جٹ دا ویَر‘‘ دیکھنے کا موقع ملا۔ درج ذیل پوسٹ اس فلم کا ریویو سمجھ لیجیے۔
قدریں ـ اور ’’جٹ دا ویَر‘‘
کسی فلم اور وہ بھی پنجابی فلم پر ریویو لکھنے کی اگر کبھی خواہش پیدا ہوئی تو وہ ’’مولا جٹ‘‘ تھی۔ اور اس پر ریویو ابھی تک التوا کا شکار ہے۔ اصل میں، سلطان راہی خاص طور پر (اور مصطفٰے قریشی بھی) ایسے اداکار ہیں جنھیں خراج ِتحسین پیش کرنا ضروری ہے۔ یہ پھر کبھی۔
آج ایک اور پنجابی فلم کا ذکر کرنا پڑ گیا ہے۔ یہ ہے: جٹ دا ویر۔ اس جیسی اور بھی بہت فلمیں ہوں گی، کیونکہ اکثر یہ سب فلمیں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ ہوا یوں کہ ’’کراچی کا مقدر‘‘ لکھنے کے بعد میں تھوڑا چینج چاہتا تھا۔ کھانے کے دوران ایک ٹی وی چینل پر یہ فلم لگی ہوئی تھی۔ چونکہ میں سلطان راہی اور ’’مولا جٹ‘‘ کا فین ہوں، اور یہ فلم بھی نوے فیصد اسی کی کاپی معلوم ہو رہی تھی، میں کھانا کھانے کے بعد بھی بیٹھا رہا۔
وہی پنجابی فلموں کے دو موضوع، عزت اور انتقام، ’جٹ دا ویر‘ کا موضوع ہیں۔ سلطان راہی جو فلم کے ہیرو ہیں، ان کی مصطفٰے قریشی، جو ویلین ہیں، ان کے ساتھ دشمنی ہے۔ ہیرو کا والد ہیرو کو بدلہ لینے کے لیے اکساتا رہتا ہے اور ماں بدلے کی آگ اور اس کی تباہی سے خاندان کو بچانا چاہتی ہے۔
ویلین مصطفٰے قریشی نے ہیرو کے والد کی ٹانگیں توڑ دی تھیں، اور ہیرو کے والد کا اصرار ہے کہ اس کا بیٹا بھی ویلین کے والد کی ٹانگیں توڑے، تب وہ اسے اپنا بیٹا مانے گا۔ دونوں طرف سے قتل ہوتے ہیں اور انتقام کا سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔ ایک اور قابل ذکر بات ہے: اس بیچ پولیس اور عدالت کا کردار جو بالعموم پنجابی فلموں میں ہمیشہ مضحکہ خیزی کا نمونہ ہوتا ہے۔
بالآخر ہیرو، ویلین کے والد کی ٹانگیں توڑ دیتا ہے اور اسے اپنے والد کے سامنے لا ڈالتا ہے۔ یوں ہیرو کے والد کی انتقام آگ بجھ جاتی ہے۔ نتیجتاً ویلین کا بدلہ لینے کا عہد اور پختہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ’’مولا جٹ‘‘ کے بعد سے پنجابی فلموں میں ویلین کا کردار یکسر بدل گیا تھا ۔ اب وہ شراب پینے والا، گانا سننے والا، طوائفوں کے کوٹھوں پر جانے والا نہیں ویلین نہیں تھا۔ کوئی اور چیز ہے جو اب اس پر سوار ہو گئی تھی۔ یہ ہے طاقت کا نشہ۔ اپنے سے زیادہ بلوان کو گرانے کا نشہ۔
’جٹ دا ویر‘ میں بھی ویلین کا کردار پنجابی فلموں کے عام ویلین سے مختلف ہے۔ یہاں بھی وہ طاقت کا دیوتا ہے اور کسی اور طاقت ور کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اس فلم میں وہ اس چیز کا اظہار’ ُبرج الٹانے‘ کی اصطلاح میں کرتا ہے، یعنی طاقتور کر زیر کرنا اس کا شیوہ ہے۔
جو چیز فلم میں جان ڈالتی ہے، وہ یہ سوال ہے کہ انتقام کے اس سلسلے کا اختتام کیسے ہو گا: ہیرو کی موت پر یا ویلین کی موت پر۔ یا دونوں کی موت پر: یعنی ایک سبق آموز انجام۔
ہیرو کی ایک بہن بھی ہے۔ اور آخرش وہ مرحلہ آ جاتا ہے کہ ویلین کے بھائی اسے اغوا کر لاتے ہیں۔ وہ اس کی عزت کے درپے ہیں۔ اس بے بسی کے دوران گولی چلتی ہے اور ویلین کا ایک بھائی ڈھیر ہو جاتا ہے۔ دوسری گولی چلتی ہے اور دوسرا بھائی بھی مر جاتا ہے۔ ہیرو کی بہن توقع کر رہی تھی کہ یہ مسیحا، اس کا بھائی ہو گا۔ مگر یہ خود ویلین ہوتا ہے۔ وہ ششدر رہ جاتی ہے۔ ویلین اسے بتاتا ہے کہ اس کا شیوہ برج الٹانا ہے، ماؤں بہنوں کی عزت سے کھیلنا نہیں۔ اور یہ کہ اس کی عزت بچانے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اب اس کے بھائی کا دشمن نہیں رہا۔ وہ کہتی ہے کہ اب وہ اس کا بھائی بن گیا ہے۔ مراد یہ کہ جس بھائی نے اس کی عزت بچا کر اسے نئی زندگی دی ہے وہی اس کا اصل بھائی ہے۔
یہ وہ مرحلہ ہے جو فلم میں ایک نیا موڑ لاتا ہے۔
ویلین، ہیرو کی بہن کو اپنی بہن بنا کر ہیرو کا برج الٹانے کے لیے نکلتا ہے۔ ادھر ہیرو اپنی بہن کو ویلین کے چُنگل سے چھڑانے کے لیے گھوڑے پر دوڑا چلا آ رہا ہے۔ بیچ راستے دونوں کی مڈ بھیڑ ہوتی ہے۔ لڑائی رکنے کا نام نہیں لیتی۔ دونوں برابر طاقت ور ہیں۔ شکست دونوں کے لیے اتنی آسان نہیں۔ اسی اثنا میں ہیرو کی بہن آ پہنچتی ہے۔ یہ وہی لمحہ ہے جب ہیرو، ویلین پر کارگر وار کرنے والا ہوتا ہے۔ ہیرو کی بہن، ویلین کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ ہیرو حیران رہ جاتا ہے۔ پھر بہن اسے بتاتی ہے کہ یہی وہ ویلین ہے، جس نے اپنے دو بھائیوں کو قتل کر کے اس کی عزت بچائی ہے۔
یوں انتقام کی جنگ کا یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ بالآّخر ایک مثبت نوٹ پر ختم ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ ہیرو اور ویلین دونوں جو قانون کے مجرم بھی ہیں، خود کو پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں اور یوں قانون کی پاسداری کا درس دیتے ہیں۔
اہم بات جو اس فلم سے ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب ہیرو اور ویلین دونوں، (بالخصوص ویلین) کسی قدر کو نہیں مانتے تو ان کی انتقام کی جنگ کا کوئی اختتام ممکن نہیں۔ وہ دونوں قتل اور مزید قتل کے بھنور میں گرفتار رہتے ہیں۔ جیسے کہ ذکر ہوا کہ یہی چیز فلم کو دلچسپ بناتی ہے کہ انتقام کا یہ ریلہ کیسے تھمے گا۔ سو جب ویلین جنگ کے اس میدان میں جہاں کوئی قدر حاوی نہیں، بس انتقام غالب ہے، ایک قدر، یعنی دشمن کی بہن کو اپنی بہن سمجھنے کی قدر، متعارف کرواتا ہے تو سارا نقشہ یکسر بدل جاتا ہے۔ جیسے ایک گرہ کُھل گئی ہو۔
یہی اس فلم کی بڑائی ہے۔ یا اگر ایسی اور فلمیں ہیں تو ان کی بھی۔ یا وہ پہلی فلم جس میں یہ چیز اول اول پیش کی گئی۔
ایک بات میں اکثر کہتا ہوں کہ ہماری سوسائیٹی ایک ویلیولیس سوسائیٹی، یعنی قدروں سے عاری سوسائیٹی بن گئی ہے۔ اور اگر ہم اس میں کوئی بہتری لانا چاہتے ہیں تو ہمیں کسی نہ کسی قدر سے ہی آغاز کرنا ہو گا۔ جب تک اس خرابے میں کوئی قدر متعارف نہیں کروائیں گے، انحطاط سے نکلنے کی کسی تدبیر پر عمل کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ یہ فلم اسی چیز کا مظاہرہ ہے۔
جیسے ’جٹ دا ویر‘ میں انتقام اور قتل و غارت گری کا سلسلہ اس وقت رکتا ہے، جب اس میں ایک قدر متعارف ہوتی ہے، اسی طرح، خواہ یہ کوئی ادارہ ہو یا پورا معاشرہ ہو، جب تک اس میں کسی قدر کو اپنایا نہیں جائے گا، صورت ِ حال میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہو گی۔ جنوبی افریقہ میں جو ’ٹروتھ اینڈ ریکنسیلی ایشن کمیشن‘ (سچائی اور مفاہمت کمیشن) بنا تھا، اس کے پیچھے یہی چیز کارفرما تھی۔ یعنی سچائی اور درگزر کی قدروں کی اولیت، قبولیت اور سیادت۔
جملۂ معترضہ: پیپلز پارٹی کا مفاہمت کا نظریہ کوئی قدر نہیں۔ یہ موقع پرستی اور منفعت پسندی کی ایک پالیسی ہے۔ بلکہ اسے قدر دشمن کہنا چاہیے۔ اسے بے اصولی کا تماشا بھی کہا جا سکتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں