آئین کی بالادستی کا اصول، جدید ریاست کی اساس ہے۔ تاہم، ابھی جب آئینی ریاستیں وجود میں نہیں آئی تھیں، تب بھی (یعنی قدیم ریاستوں میں بھی) یہ اصول کسی نہ کسی صورت میں کارفرما اور موجود ضرور تھا۔ مراد یہ ہے کہ جب بادشاہ خود قانون تھا، یا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ بادشاہ کی زبان سے جو لفظ ادا ہو جاتا تھا، وہ قانون بن جاتا تھا، تو ایسے میں یہ قانون ہی تھا جو بالادست قرار پاتا تھا۔ یعنی جب بادشاہ کوئی قانون بنا دیتا تھا تو بالعموم وہ اس کی پاسداری کرتا تھا۔ گو کہ چونکہ وہ بادشاہ بھی تھا اورخود قانون بھی تھا، لہٰذا، یہ اختیار وہ خود اپنے پاس رکھتا تھا کہ اپنے بنائے ہوئے قانون پر عمل درآمد کا پابند رہے، یا نہ رہے۔ یا جب چاہے، اس کی پاسداری کرے، یا نہ کرے، یا جب چاہے اس قانون کو کلی یا جزوی طور پر تبدیل کردے۔
بالعموم، جب بادشاہ کوئی قانون بنا دیتا تھا تو وہ اسے اپنی خواہش اور پسند ناپسند کے زیرِاثر تبدیل نہیں کرتا تھا۔ اس چیز کا ثبوت متعدد اداروں کی موجود گی سے بھی ملتا ہے، جن کے بغیر کاروبارِ مملکت چل نہ سکتا تھا۔ جیسا کہ سمجھا جاتا ہے کہ بادشاہ، مطلق العنان ہوتا تھا، یعنی کلی طور پر جو چاہے کرے، حقیقتاً اور عملاً ایسا نہیں تھا۔ کئی مجبوریاں اور تقاضے ایسے ہوتے تھے، جن کے خلاف قدم اٹھانا بادشاہ کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتا تھا، یا خطرات سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ انھیں کاروبارِ مملکت کے سیاسی، معاشی اور خارجی تقاضوں کا نام دیا جا سکتا ہے۔ آج کی جدید آئینی ریاست میں بھی ایسے منتخب اور نامزد عہدیداران موجود ہیں، جو مطلق العنانی سے کام لینا اور کام کرنا چاہتے ہیں، جیسے کہ بالخصوص موجودہ صدرِ مملکت، لیکن آئین، قانون، اور سیاسی، معاشی اور دوسرے متعدد تقاضوں کے تحت انھیں ایسا کرنے سے باز رہنا پڑتا ہے۔
تاہم، یہ واضح رہے کہ مطلق العنان حکمرانی کوئی آسان چیزنہیں تھی۔ متلون مزاجی اور غیر مستقل مزاجی، جو مطلق العنانی کا اہم جزو ہیں، یہ دونوں شاہی خصوصیات، دوستوں کودشمن بنانے کے مترادف ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کاروبارِ مملکت کو موثر اندازمیں چلانے کے لیے اداروں کا قیام ضروری تھا، اور ہر قسم کے اچھے برے حکمرانوں کو یہ چیز بہت ابتدا میں ہی سمجھ آ گئی تھی کہ اپنی حکمرانی کو نام اور دوام بخشنے کے لیے اداروں کا قیام ضروری ہے۔ اس ضمن میں دو ادارے بہت اہم ہیں۔ ایک تو ٹیکس یا محصول کی وصولی؛ اوردوسرے انصاف کی فراہمی۔ فوج کا ادارہ تو اپنی جگہ موجود ہی تھا۔ سیدھی سی بات ہے کہ ان اداروں کا نظام اس وقت تک مناسب اندازمیں نہیں چل سکتا تھا، جب تک ان اداروں کے لیے قواعد و ضوابط نہ بنائے جائیں۔ جب ان اداروں کے لیے قاعدے اور ضابطے بن گئے تو انھیں بادشاہ کی پسند ناپسند اور خوشی ناخوشی کے تحت تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا تھا۔
مثال کے طور پر محصول سے متعلق قوانین یا قواعد وضوابط وجود میں آنے کے بعد، بہت حد تک بادشاہ کی مرضی اور اختیار سے بلند ہو جاتے تھے؛ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو محصول اور اس کی وصولی کا نظام موثر طور پر قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ اسی طرح، انصاف کی فراہمی کے لیے جو ادارے بنائے جاتے تھے، جیسے کہ قاضی وغیرہ کا تعین، تو ان کے لیے ضروری قواعد و ضوابط، جب ایک مرتبہ وضع ہو جاتے تھے، تو پھر ان میں تبدیلی اتنی آسان نہیں ہوتی تھی۔ گرچہ، ان قدیم ریاستوں میں بادشاہ یہ اختیار اپنے پاس ہی رکھتا تھا کہ وہ جب چاہے، جیسا چاہے قانون بنائے،اور اپنی مرضی سے قاعدوں اور ضابطوں کو تبدیل کر دے ۔ تاہم، خاص طور بادشاہ اس انتخاب کا حق اپنے پاس ہی رکھتا تھا کہ وہ خود اپنے بنائے قانون اور قواعد وضوابط کا پابند ہو گا یا نہیں۔ تاریخ میں بعض اوقات جو عدل پسند بادشاہوں کے قصے پڑھنے کو ملتے ہیں کہ اس بادشاہ نے قانون پر عمل درآمد کیا، گو کہ اس کی زد خود اس کے اپنے بیٹے پر پڑتی تھی، تو یہ بادشاہ کا یہی انتخاب کا حق تھا کہ وہ اور شاہی خاندان، قانون کا پابند ہو گا یا نہیں۔ عام طور پر بادشاہ اپنے بنائے ہوئے قانون کے خود پابند نہیں ہوتے تھے۔ غالباً آج پاکستان میں عملاً جو یہ مسئلہ موجود ہے کہ جو قانون بناتا ہے، اسے اس کی پابندی سے چھوٹ حاصل ہوتی ہے، یہ اسی انتخاب و اختیارسے ماخوذ ہے۔
بہر حال، اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون کی بالادستی قدیم ریاستوں میں بھی موجود اور کارفرما تھی، جب ابھی خود قانون کلیتاً بالادست نہیں بنا تھا، بلکہ مطلق اختیار حقیقتاً اور عملاً بادشاہ کے پاس ہوتا تھا۔
پاکستان میں آج کل جو لوگ قانون سازی کے عمل، یعنی قومی و صوبائی اسیمبلیوں، اور سینیٹ سے وابستہ ہیں، وہ غیر شعوری طور پر اسی سوچ کے حامل ہیں کہ چونکہ وہ قانون بنانے والے ہیں، لہٰذا، اس پر عمل کرنا ان کے لیے ضروری نہیں۔ وہ اصل میں ابھی تک اسی شاہانہ دور میں، یا قدیم ریاست کے دور میں زندہ ہیں، اورجدید ریاست کے آئینی کردار کو قبول کرنے میں متامل ہیں۔ (جدید ریاست میں آئین کی بالادستی کے اصول سے آئندہ کالم میں بحث کی جائے گی۔) جہاں تک آئین اور قانون کی بات ہے تو ان وجوہات کی بنا پر ہی، قانون بنانے والے خود کو قانون سے بلند اور ماورا سمجھتے ہیں۔ وہ جب یہ کہتے ہیں کہ پارلیمینٹ بالا تر یا بالا دست ہے تو وہ یہ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ پارلیمینٹ قانون بناتی ہے، قانون تبدیل کرتی ہے، لہٰذا، اسے اولیت اور سیادت حاصل ہے۔ اور اس سے ان کامطلب یہ ہوتا ہے کہ پارلیمینٹ جب چاہے کسی قانون کو ختم بھی کر سکتی ہے، اور جب چاہے اور جیسا چاہے ویسا قانون بنا بھی سکتی ہے۔ یعنی یہ وہی بادشاہ والی بات ہوئی کہ گو کہ وہ قانون بنا تو دیتا تھا، لیکن یہ اختیاراپنے پاس ہی رکھتا تھا کہ جب چاہے اس قانون کو ختم کردے، اور جب چاہے اسے تبدیل کردے، اور اس کی جگہ کوئی اور بالکل مختلف قانون بنا دے۔ اور چاہے تو خود اس قانون کی پاسداری کرے یا چاہے تو اس کی پاسداری نہ کرے۔ یہ چیز اصلاً آئین کی بالادستی سے متصادم ہے۔
آرمی چیف اور پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے حالیہ بیانات کو اسی سیاق وسباق میں پڑھنا اور سمجھنا چاہیے۔ جو لوگ آئین کی بالادستی کی بات کررہے ہیں، وہ ایک جدید آئینی ریاست میں آئین اور قانون کی بالادستی کے قائل ہیں۔ صاف بات ہے کہ جہاں تک آئین کی تعبیر وتشریح کا معاملہ ہے تو یہ اختیار صرف اور صرف اعلیٰ عدالتوں کے پاس ہے، پارلیمینٹ، یا کسی اور ادارے کے پاس نہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ، جیسا کہ وفاقی وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ندیم افضل چن، اور جمیعت العلمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمٰن، پارلیمینٹ کی بالادستی کی بات کررہے ہیں، وہ اصل میں بادشاہ کا وہ اختیار اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں کہ ہم جب چاہیں، جیسے چاہیں، اپنی مرضی سے قانون بنائیں، قانون تبدیل کریں، اور چاہیں تو قانون کی پاسداری کریں، اورنہ چاہیں تو قانون کی پاسداری نہ کریں۔ یہ لوگ ابھی تک قانون کی حکمرانی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے قانون کے بجائے بادشاہ کی بالادستی، بادشاہت کے ساتھ دفن ہو چکی ہے!
[یہ تحریر 10 نومبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوئی۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں