اتوار، 29 ستمبر، 2013

ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ: غلط سوال، صحیح جواب

نوٹ: رپورٹ ڈاؤن لوڈ کیجیے: ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ


[یہ تصویر الجزیرہ کی ویب سائیٹ سے لی گئی ہے۔]

پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا, جو بالآخر لاہور میں مارشل لا کے نفاذ پر منتج ہوا۔ یہ1954-1953  کی بات ہے۔ پہلی پہلی تحقیقاتی عدالت قائم ہوئی، جو دو معزز و محترم جج حضرات پر مشتمل تھی۔ جسٹس محمد منیر اس عدالت کے صدر اور جسٹس ایم- آر کیانی واحد رکن تھے۔ انھوں نے تحقیق کی اور تحقیق کا حق پورا پورا ادا کیا۔ پھر رپورٹ لکھی، اور کیا خوب رپورٹ لکھی۔ چونکہ ابھی حکومت اور اربابِ اختیار و اقتدار نے عیاری و مکاری کے سبق نہیں سیکھے تھے، اور یہ یقین رکھتے تھے کہ ہر کوتاہی اور مجرمانہ غفلت کے لیے وہ شہریوں کو جواب دہ ہیں، لہٰذا، یہ رپورٹ من و عن شائع کر دی گئی۔ نہ صرف اصل انگریزی رپورٹ، بلکہ سرکار کی طرف سے مستند اردو ترجمہ بھی شائع کیا گیا۔ پاکستانی حکومت کی یہ پہلی اور آخری رپورٹ تھی، جو عام شہریوں تک قانونی انداز میں پہنچی۔ اس کے بعد دو بڑے سانحات کی رپورٹیں غیر قانونی انداز میں افشا ہوئیں۔ پہلی رپورٹ، حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ تھی، جس کے متعدد حصے اول اول ہندوستان کے ایک اخبار نے شائع کیے۔ دوسری رپورٹ، حالیہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ ہے۔ حکومت نے ابھی تک اسے شائع نہیں کیا ہے۔ جبکہ الجزیرہ ٹی - وی چینل نے اسے افشا کر دیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ اصل رپورٹ نہیں، تاہم ، حکومت اصل رپورٹ کب عام کرے گی، اس بارے میں کچھ بھی کہنا ناممکن ہے۔ ہاں ،اتنا ضرور ہے کہ افشا ہونے والی ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ، خاصی حد تک مکمل رپورٹ معلوم ہوتی ہے۔

جب سے یہ رپورٹ افشا ہوئی ہے، ٹی- وی چینلز اور اخبارات میں اس پر بحث جاری ہے۔ اس رپورٹ کے بارے میں بالعموم ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ جب تک میں نے اسے پڑھا نہیں تھا، میں بھی یہی رائے رکھتا تھا۔ مطالعے کے بعد میری رائے یکسر تو نہیں، مگر بہت زیادہ تبدیل ہو گئی ہے۔ اوپر جن رپورٹوں کا ذکر ہوا، ان سب کا مطالعہ ہر اس پاکستانی کے لیے ناگزیر ہے، جو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں تشویش رکھتا ہے۔ یہ تینوں رپورٹیں ہزاروں کتابوں سے کہیں زیادہ علمیت اور بصیرت کی حامل ہیں۔ جسٹس منیر انکوائری رپورٹ کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ یہ رپورٹ نہ صرف انٹرنیٹ پر دستیاب ہے، بلکہ اسے ایک نجی ادارے نے ایک بار پھر شائع کر دیا ہے، اور یہ مارکیٹ میں بھی دستیاب ہے۔ حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کا جو ورشن انٹرنیٹ پر موجود ہے، وہ رپورٹ کا صرف ضمنی حصہ ہے۔ اس رپورٹ کو بھی پاکستان کا ایک بڑا اشاعتی ادارہ شائع کر چکا ہے، مگر غالباً اب یہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ خود میں بھی یہی ضمنی رپورٹ دیکھ سکا ہوں۔ مگر یہ ضمنی حصہ بھی مکمل رپورٹ کے جوہر سے آگاہی مہیا کردیتا ہے۔

اب آتے ہیں اس تیسری رپورٹ کی طرف، جسے حکومت تو اخفا میں رکھنا چاہتی ہے، مگر یہ پھر بھی حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کی طرح افشا ہو گئی ہے۔ حکومت کی یہ نااہلی ہم عام شہریوں کے لیے رحمت کا باعث ہے۔ وگرنہ ہم بے چارے یہ دونوں رپورٹیں، اور کارگل سے متعلق رپورٹ بھی، کبھی دیکھ نہ پاتے۔ اور یوں ہم بے چارے عام شہری، ان حالات و واقعات اور ذمے داروں کے کرداروں کی تفصیلات سے کبھی آگاہ نہ ہو سکتے، جنھوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کیا، اور اسامہ بن لادن کو پاکستان میں قائم و دائم اور محفوظ و مامون رکھا۔ اس کا مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ پاکستان کی ریاست اور حکومتیں خود اپنے شہریوں کو اپنے کرتوتوں سے بے خبر رکھنا چاہتی ہیں، اور ایسا کرنے کے لیے جھوٹے اورغیر اخلاقی قوانین کا سہارا لیے رکھتی ہیں۔ مثلاً حکومتوں کے پاس یہ اختیار کہاں سے آ گیا کہ وہ اتنے بڑے قومی سانحات کی رپورٹوں کو ان شہریوں سے چھپا رکھیں، جن کے پیسے سے یہ ریاست اور حکومتیں پلتی اور پھلتی پھولتی ہیں۔ کسی بھی ریاست اور کسی بھی حکومت کو کوئی حق نہیں کہ ان سانحات کے پیچھے کارفرما ”حقائق“ پر مبنی رپورٹوں کو سرد خانوں کی زینت بنائے رکھے۔ ہم عام شہریوں کو اس مطالبے سے کبھی دستبردار نہیں ہونا چاہیے کہ یہ رپورٹیں، ہم شہریوں کی ملکیت ہیں، اور ان کی ملکیت ہمیں واپس ملنی چاہیے!

جسٹس منیر انکوائری رپورٹ غالباً اس اعتبار سے بھی پہلی اور آخری رپورٹ تھی کہ اس کے صدر اور رکن کو مکمل آزادی اور اختیار میسر تھا کہ وہ قانون کے اندر رہتے ہوئے، جو ذمے داری انھیں سونپی گئی تھی، اسے بہ طریقِ احسن پورا کر سکیں؛ اور جن سوالوں کے جواب انھیں تلاش کرنے کے لیے کہا گیا تھا، ان کے جواب بے باکانہ انداز میں مہیا کریں۔ اس کے مقابلے میں ایبٹ آباد کمیشن کی تشکیل اور اس میں شامل ارکان کی موجودگی اس آزادی کو زائل کرنے کے لیے کافی تھی، جو اس درجہ اہم معاملے اور سانحے کی تحقیقات کے لیے ناگزیر تھی۔ مزید برآں، اس کمیشن کو وہ اختیار بھی میسر نہ تھا، جو اتنی بڑی کوتاہی کی تہہ میں کارفرما عوامل کو بے نقاب کر نے کے لیے انتہائی ضروری تھا، جس کا نتیجہ 2 مئی (2011) جیسے شرمناک سانحے کی صورت میں نکلا۔ یقینا 1954-1953 میں حالات بہت مختلف تھے۔ ابھی سول حکومت ہی بااختیار ہوا کرتی تھی۔ کوئی اور ادارہ ابھی ایسا نہیں تھا، جو اس کے آئینی اختیارات پر ڈاکہ ڈال سکے۔ جبکہ 2011 میں، جب ایبٹ آباد کمیشن بنا، اس وقت تک پاکستان کے سیاسی اور آئینی پُلوں کے نیچے سے پانی کے ایسے ایسے ریلے گزر چکے تھے، جنھوں نے کناروں کے ساتھ ساتھ پُلوں کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیا تھا، اور اس وقت کی حکومت، آئینی لحاظ سے پاؤں پر نہیں، بلکہ سر کے بل الٹی کھڑی تھی۔

یہی وہ اسبا ب ہیں، جو اس بات کی توجیہہ مہیا کرتے ہیں کہ جسٹس منیر انکوائری رپورٹ نہایت صاف، کھلے اور براہِ راست انداز میں جواب کیوں مہیا کرتی ہے۔ اس کے برعکس، ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کا انداز، صاف، کھلا اور براہِ راست کیوں نہیں۔ اس رپورٹ میں اشاروں، کنایوں میں، یا بالراست انداز میں جواب مہیا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ دونوں کمیشنوں کے سامنے کیا سوالات رکھے گئے تھے، تا کہ یہ سمجھا جا سکے کہ انھوں نے ان سوالوں کے جواب کیسے اور کس اندا زمیں وضع کیے، اور ان کا اظہار کس انداز میں کیا۔ 1953 میں ہونے والے فسادات کے ضمن میں جو تحقیقاتی عدالت قائم کی گئی، اسے ان تین سوالوں کے جواب تلاش کرنے تھے: (1) وہ کیا کوائف تھے، جن کی وجہ سے 6 مارچ 1953 کو لاہور میں مارشل لا کا اعلان کرنا پڑا۔ (2) فسادات کی ذمے داری کس پر ہے۔ اور (3) صوبے کے سول حکام نے فسادات کے حفظِ ماتقدم یا تدارک کے لیے جو تدابیر اختیار کیں، آیا وہ کافی تھیں یا ناکافی۔ یہ سوال نہایت واضح اور دوٹوک ہیں۔ ان کے جوابا ت ان سے بھی زیادہ واضح اور زیادہ دوٹوک ہیں۔

اب دیکھتے ہیں کہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے سامنے جو سوال رکھے گئے، کیا وہ اس بات کے مستحق تھے کہ ان کے جواب تلاش کیے جائیں۔ یا ان سوالوں کی تشکیل میں گریز سے کام لیا گیا۔ مراد یہ کہ 2 مئی کو ہونے والا سانحہ، جو سوال اٹھاتا تھا، کیا ان سوالوں پر توجہ دی گئی، یا نہیں۔ اس سانحے کے پس منظر میں جو سوال موجود تھے، کیا وہی سوال اٹھائے گئے، یا اصل سوالوں کو نظر انداز کر دیا گیا، اور کچھ اور متعلقہ، مگرغیر ضروری سوال سامنے رکھ دیے گئے۔ ملاحظہ کیجیے وہ سوال جن کا جواب مہیا کر نے کے لیے ایبٹ آباد کمیشن تشکیل دیا گیا تھا: (الف) پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی سے متعلق مکمل حقائق کا پتہ لگانا؛ (ب) 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن سے متعلق حالات و واقعات کی تحقیقات کرنا؛ (ج) متعلقہ حکام کی کوتاہیوں کی نوعیت، پس منظر، اور اسباب کا تعین کرنا؛ اور (د) ان پر مبنی سفارشات پیش کرنا۔ آخری دونوں سوال اس محاورے کی یاد دلاتے ہیں، جس میں سانپ کے چلے جانے کے بعد لکیر پیٹنے کی بات کی گئی ہے۔ چوتھا سوال ہر انکوائری کا لازمی حصہ ہوتا ہے، سو اسے اس انکوائری میں بھی شامل رکھا گیا۔ ہاں، پہلا سوال ہے، جو کسی حد تک 2 مئی کے سانحے سے میل کھاتا ہے۔ لیکن اسے بھی صاف اور سیدھے انداز میں وضع نہیں کیا گیا، اور اس میں ڈنڈی ماری گئی ہے۔ حاصل یہ کہ غلط سوال اٹھائے جانے کے باوجود افشا ہونے والی ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ صحیح جواب مہیا کرنے کی پوری اور کافی حد تک کامیاب کوشش کرتی ہے۔ آئندہ کالموں میں اس رپورٹ کے مختلف پہلووں پر بحث جار ی رہے گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں