پیر، 9 ستمبر، 2013

انتخابات اورشہری تنظیموں کے کرنے کا کام

پاکستان میں بالخصوص 2007 کے بعد، سول سوسائیٹی کا وجود ثابت ہے۔ اب میڈیا کے ساتھ ساتھ سول سوسائیٹی بھی، ریاست، ریاستی اداروں اور حکومت دونوں پر نظر رکھنے میں آگے آگے ہے۔ سول سوسائیٹی کو سمجھنے کے لیے ایک سادہ سا نقشہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ ایک طرف ریاست ہے، جو ایک منظم ادارہ ہے۔ اس ریاست پر مختلف اشرافی طبقات نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ ایک طرف سیاسی پارٹیاں ہیں، جو اصلاً ان اشرافی طبقات کی نمائندہ ہیں۔ کہنے کو یہ عام شہریوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں۔ فرض کریں ایسی صورت نہ بھی ہو، پھر بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سیاسی پارٹیاں، ریاست پر قبضے کی جنگ سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ اقتدار کی طرف مائل ہوتی ہیں، اور ان کی سیاست، خواہ یہ اقتدار کے حصول لیے ہو یا اقتدار میں رہتے ہوئے اس سے مستفید ہونے کے لیے، مجموعی طور پر حواریوں کی ایک کلاس پیدا کرنے پر منتج ہوتی ہے۔ اب رہ گئے، عام شہری، جو اس دھوکے میں رہتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں ان کے حقوق کی نمائندگی کرتی ہیں۔ درحقیقت، پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کا کردار ایسا مبہم ہے کہ یہ شہریوں کو اس فریب میں مبتلا رکھتا ہے کہ وہ ان کی نمائندہ ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں یہ یہی عام شہری ہیں، جن کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہی بے آسرائی، عام شہریوں کو کبھی اِس سیاسی لیڈر کے پیچھے، کبھی اُس سیاسی لیڈر کے پیچھے لگاتی رہتی ہے۔ جیسے آج کل تحریکِ انصاف ”تبدیلی“ کے مبہم نعرے سے یہی کام لے رہی ہے۔

اس نقشے پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ ریاست کے ساتھ ساتھ اور ادارے بھی وجود رکھتے ہیں، جن میں سب سے اہم سپریم کورٹ ہے۔ یہ عام شہریوں کے حقوق کا ضامن ہوتا ہے۔ درست! لیکن یہ بھی دیکھیے کہ 2007 میں چیف جسٹس کی بحالی، اور 2009 میں معزول ججوں کی بحالی سے پہلے، ساٹھ باسٹھ برس، کسی کو پتہ نہ تھا کہ آئین پسندی کیا ہوتی ہے۔ قانون کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی کا کیا مطلب ہے۔ شہریوں کے بنیادی حقوق کس چڑیا کا نام ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے پہلے پچیس برس قابلِ عمل آئین بننے ہی نہیں دیا۔ بعدازاں، جب آئین بن گیا تو سیاسی پارٹیوں نے کبھی آئین کی حکمرانی کو قائم نہیں ہونے دیا۔ یوں، سپریم کورٹ سمیت جتنے بھی ریاستی ادارے تھے، سب کے سب ان اشرافی طبقات کے ہمنوا تھے۔ اور اشرافی مفادات کے محافظ بنے ہوئے تھے۔ ”ڈوگر کورٹ“ یاد کیجیے، اور اسے سیاست دان کیوں بچانا چاہتے تھے، یہ بھی یاد کیجیے۔

خوش قسمتی ہے کہ ایک ایسا سپریم کورٹ سامنے آ گیا، جس نے اپنے صحیح آئینی کردار کو نبھانا شروع کیا۔ فرض کریں کل کلاں، اشرافی طبقات کی سازشوں سے یہ سپریم کورٹ زائل یا موقوف ہو جاتا ہے، تو پھر کیا ہو گا۔ کہنے سے مراد یہ ہے کہ ریاست اور ریاستی ادارے، اس وقت تک آئین اور قانون کے مطابق کام نہیں کرتے، جب تک ان پر کوئی نظر، نگرانی اورچیک موجود نہ ہو۔ طاقت ہمیشہ ہر کسی کے لیے بھٹکنے اور گمراہ کرنے کا مادہ رکھتی ہے، اور اس طاقت کو قابو میں، یعنی آئین اور قانون کے دائرے کے اندر رکھنے کے لیے اس پر پہرہ ناگزیر ہے۔

گو کہ سیاسی فلسفے کی رو سے ریاستی ڈھانچے میں توازن پیدا کرنے کے لیے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: انتظامیہ، مقننہ، اور عدلیہ۔ اور یہ تینوں جدا اور آزاد حیثیت کے حامل ہونے چاہیئیں۔ پر عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ پاکستان میں ساٹھ پینسٹھ برس عدلیہ، انتظامیہ کا دم چھلا بنی رہی۔ جہاں تک انتظامیہ اور مقننہ کی علاحدہ حیثیت کا تعلق ہے تو پاکستان میں انتظامیہ اور مقننہ آپس میں یوں جڑ گئی ہیں کہ ان میں تشخیص اور تمیز کرنا مشکل ہے۔ فرض کریں ا یسا نہ بھی ہو، پھر بھی کسی بھی ادارے کو طاقت دے کر اس پر چیک نہ رکھنے کا مطلب ہے کہ اسے مطلق اختیار دے دیا گیا۔

امریکی ناقد ایچ، ایل مینکین کا کہنا ہے کہ ریاست کو طاقت اور پیسہ (یعنی ٹیکس کا پیسہ) دینا ایسے ہی ہے، جیسے نوجوانوں کو کار کی چابی اور شراب کی بوتل دے دی جائے۔ پاکستان تو اس کی بہت اچھی مثال ہے۔ گذشتہ تاریخ کو بھول جائیے، اور بس گزرے پانچ سالوں کو سوچیے کہ کار اور شراب نے کیا کیا اودھم مچائے اور کیا کیا گل کھلائے۔ تو ہوا کچھ یوں کہ تاریخ انسانی میں ریاست کے مقابلے پر ایک اور ہستی وجود میں آ گئی۔ گو کہ یہ موجود تو تھی قریب قریب انسانی معاشرے کی ابتدا سے ہی، پر جیسے جیسے ریاست اور ریاستی اداروں کی مطلق العنانی بڑھی، اور اس پر قابض ہونے والے طبقات کی طرف سے اپنے مفادات کو تقویت دینے کے لیے ریاست اور ریاستی اداروں کا استعمال بڑھا (جیسے گذشتہ پانچ برس میں)، سول سوسائیٹی کے وجود اور اس کی عملی اہمیت کا احسا س بھی دوچند ہوا۔ مراد یہ کہ اب سول سوسائیٹی ریاست اور ریاستی طاقت کو اعتدال میں رکھنے اور متوازن کرنے والی طاقت کے طور پر سامنے آئی۔

پاکستان میں سول سوسائیٹی اپنے ارتقا کے اس مرحلے تک پہنچ چکی ہے۔ اس نے 2007 میں ریاست کے مطلق العنان کردار کا مقابلہ کیا، اور اسے شکست دی۔ یعنی چیف جسٹس کی بحالی کی جدوجہد، اور پھر نومبر 2007 کے ایمرجینسی نما مارشل لا کے خلاف جدوجہد۔ پھر اس نے معزول ججوں کی بحالی کے لیے ایک طویل جنگ لڑی، اور بالآخر فتح یاب ہوئی۔ اس کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے صرف اتنا سوچیے کہ اگر چیف جسٹس کی بحالی نہ ہوئی ہوتی، تو پاکستان آج کیسا منظر پیش کر رہا ہوتا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بجا ہو گا کہ پاکستان کی سول سوسائیٹی نے پاکستان میں آئین پسندی، آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے ضمن میں فقید المثال کامیابی حاصل کی ہے۔ اس نے پاکستان کو ایک آئینی پاکستان کی طرف گامزن کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔

آج پھر انتخابات کے جلو میں ایک ایسا لمحہ تھرتھرا رہا ہے، جہاں سول سوسائیٹی اپنا کردار ادا کر کے آئینی پاکستان کو مزید تقویت دے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کو، ایلیکشن کمیشن کو اپنا کام کرنے دیجیے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں مناسب ہو ایسے معاملات ان کے سامنے لائے جائیں جو ان کی توجہ کے مستحق ہوں۔ جیسے کہ بہت سی ایسی درخواستیں اور اپیلیں سپریم کورٹ اور ایلیکشن کمیشن میں دائر ہو رہی ہیں کہ کہاں انتخابات کو ہائی جیک کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کہاں شہریوں کے مینڈیٹ کو دھوکے سے حاصل کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جیسے پچھلے پانچ سال جعل ساز، قانون ساز بن کر شہریوں کے مینڈیٹ کا تمسخر اڑاتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انتخابی امیدواروں کی جانچ پرکھ سمیت انتخابات کے ہر ہر قدم پر نظر رکھی جائے، اور کہیں بھی کسی امیدوار یا پارٹی کو کسی ساز باز اور دھوکے بازی سے کام نہ لینے دیا جائے۔

اس ضمن میں اہم چیز یہ ہے کہ پاکستانی سوسائیٹی کی ساخت اور نوعیت ایسی ہے کہ یہاں اکیلے فرد کی کوئی اہمیت نہیں۔ اسے لوگ دبا لیتے ہیں۔ قانون بھی اسے اہمیت اور تحفظ نہیں دیتا۔ مراد یہ کہ اکیلا ووٹر یا اکیلا شہری، امیدواروں کی چالاکیوں اور طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اسے انتقام کا خطرہ بھی درپیش رہتا ہے۔ لہٰذا، یہ ضروری ہے کہ جتنی اور جس قسم کی شہری تنظیمیں موجود ہیں، ان سب کو انتخابات کو شفاف اور صاف ستھرا بنانے کے لیے کمر باندھ لینی چاہیے۔ خواہ یہ سپورٹس کلب ہیں، یا محلہ سوسائیٹیاں ہیں، یا لائیبریریاں ہیں، یا فلاحی تنظیمیں ہیں، یا باقاعدہ رجسٹرڈ نجی ادارے ہیں، یا این، جی، اوز ہیں، سب کواس کام میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ سب کو اپنے وسائل اور توانائیاں، انتخابات کو صاف اور شفاف بنانے پر مرکوز کردینی چاہیئیں۔ افراد سے زیادہ شہری تنظیمیں یہ کام بہتر انداز میں کر سکتی ہیں!


[یہ کالم 6 اپریل کوروزنامہ مشرق پشاورـ اسلام آباد میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں