منگل، 10 ستمبر، 2013

میرا ووٹ اتنا سستا نہیں!

انتخابات کے نتیجے میں کیا ہو سکتا ہے، اور کیا نہیں ہو سکتا، یہ سوال، انتخابات سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم ایک اور سوال ہے۔ پاکستان میں ہونے والے انتخابات اسقدر بانجھ کیوں ہوتے ہیں۔ یہ انتخابات نتیجہ خیز کیوں نہیں ہوتے۔ جیسا کہ انگریزی میں کہا جاتا ہے، چیزیں جتنا تبدیل ہوتی ہیں، اتنا ہی پہلے جیسی ہوتی جاتی ہیں۔ اسی طرح، پاکستان میں انتخابات کے نتیجے میں جتنی تبدیلی آتی ہے، حالات اتنا ہی پہلے جیسے ہوتے جاتے ہیں۔ یعنی حقیقتاً کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ چیزیں پہلے جیسی ہی رہتی ہیں۔ بلکہ پہلے سے بھی بدتر ہوتی جاتی ہیں۔ تو ہر ووٹر کو جس سوال کا سامنا کرنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کیا اس کا ووٹ اتنا سستا ہے کہ وہ کوئی بڑی اوراہم تبدیلی نہ لاسکے!

درست ہے کہ ہر ووٹر اپنی سوچ سمجھ ، پسند کے مطابق کسی بھی پارٹی کو ووٹ دینے میں آزاد ہے۔ تاہم، اسے یہ جاننا چاہیے کہ اس کا ووٹ صرف اس صورت میں کچھ وزن اور اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے، جب یہ کسی پارٹی کو دیا جائے۔ کسی شخص یا فرد کو نہیں۔ کیونکہ یہ کوئی پارٹی ہی ہو سکتی ہے، جو کوئی بڑی، اہم اور طویل مدتی تبدیلی لا سکتی ہے۔ اکیلا رکن، خواہ وہ قومی اسیمبلی میں ہو یا کسی صوبائی اسیمبلی میں، بے آواز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’آزاد امیدوار“ جیتنے کے بعد عام طور پر موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور کسی نہ کسی قیمت پر کسی نہ کسی پارٹی کے ہاتھوں بِک جاتے ہیں۔ ہاں، اگر کوئی ووٹر کسی شخص یا فرد کو ووٹ دیتا ہے، اور اس کے جیتنے کی صورت میں اس سے اپنے کچھ کام نکلوانا چاہتا ہے تو یہ اس کا اپنا فعل ہے۔ مگر اس کا یہ فعل اس کے ووٹ کو بہت ارزاں کر دیتا ہے۔ بلکہ دوسرے ووٹروں کے ووٹ کی قیمت بھی گِرا دیتا ہے۔

کچھ ایسی صورتیں بھی ہوتی ہیں، جب ووٹر اپنے کچھ معمولی مگر اہم مسائل کے حل کے لیے اپنے ووٹ کسی امید وار کو دے دیتے ہیں۔ اس کی مثال وہ حقائق ہیں، جو بتاتے ہیں کہ کیسے چھوٹے چھوٹے انفرادی، یا کچھ صورتوں میں اجتماعی مفادات کے حصول کے لیے لوگ ووٹ دیتے ہیں۔ جیسے کہ گلی میں نالیاں درست کروانا، گیس کے کنیکشن لگوانا، بے روزگاروں کو نوکریاں دلوانا، وغیرہ۔ ووٹروں کو اپنے ووٹ کو اتنا سستا نہیں گرداننا چاہیے۔ گلی محلے کے مسائل اور اسی طرح کے دوسرے مسائل کے حل کے لیے مختلف ادارے موجود ہیں۔ یہ کام انھیں معمول کے مطابق کرنے چاہیئیں۔ وگرنہ متعلقہ حلقے کے رکن صوبائی اسیمبلی یا رکن قومی اسیمبلی پر دباؤ ڈالاجا سکتا ہے کہ وہ ان اداروں کو ایسا کرنے پر مجبور کریں۔ ووٹ کا مطلب ایسے کام کروانا قطعاً نہیں۔ بالخصوص پاکستان جیسے ملک میں ووٹ کو ان مقاصد کے لیے استعمال کرنا، نہ صرف ووٹ کو ضائع کرنا ہے، بلکہ سستا بیچ دینے کے مترادف ہے۔

تو پھر وہ کیا چیزیں ہیں، جنھیں سامنے رکھ کر کسی پارٹی کو ووٹ دینا چاہیے، یا نہیں دینا چاہیے۔ یا یہ کہ ووٹ کی درست قدر و قیمت کا تعین کیسے کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتوں سے بالکل مختلف ہے۔ ترقی یافتہ جمہوریتوں میں ایک نظام قائم ہو چکا ہے، اور مقابلتاً خاصے بہتر طریقے سے کام کر رہا ہے۔ وہاں، قانون کی حکمرانی موجود ہے۔ آزاد عدالتیں موجود ہیں۔ آزاد میڈیا موجود ہے۔ باخبر اور چوکنی سول سوسائیٹی موجود ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں ریاست اور حکومت کے اندر کسی قسم کی خواص پسندی، یا اشراف پسندی موجود نہیں۔ وہاں قانون کی نظر میں ہی نہیں، ریاست اور حکومت کی نظر میں بھی ہرشہری برابر ہے۔ وہاں ریاستی مشینری، شہریوں کو سہولت پہنچانے کے لیے ہے۔ وہاں ہرشہری کو اس کے بنیادی حقوق دستیاب ہیں۔ اور دوسری چیزوں کے ساتھ، وہاں، کسی کے لیے، خواہ وہ کسی طبقے سے تعلق رکھتا ہے، قانون اور قواعد و ضوابط کو اپنی خواہشات اور مفادات کے حصول کے لیے توڑنا مروڑنا ممکن نہیں۔

جبکہ پاکستان کی جمہوریت، جھوٹی اور دکھاوے کی جمہوریت ہے۔ یہاں نصف صدی بعد، رو دھو کے ایک آئین بن گیا، نافذ بھی ہو گیا۔ لیکن حقیقتاً نافذ نہیں ہو سکا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ابھی تک کوئی نظام ہی نہیں بن سکا۔ نظام قائم ہونے کی بات تو دور رہی۔ نظام بنتا ہے، جب آئین، قوانین اورقواعد و ضوابط کو بلا امتیاز نافذ کیا جاتا ہے۔ سو، ابھی تو یہاں نظام بننا ہے۔ ضروری ہے کہ یہاں آئین، قوانین اور قواعد و ضوابط کا بلا امتیاز نفاذ عمل میں لایا جائے۔ جیسے کہ جینرل مشرف (ر) کا معاملہ ہے۔ ان کے ساتھ ”اشراف“ ہونے کے ناطے کوئی رعایت کیوں برتی جائے۔ اسی طرح، کراچی میں شاہ زیب کے قتل کا معاملہ پاکستان کے نظامِ عدل کی آزمائش ہے۔ دیکھیں، یہ دونوں معاملات کیا ثابت کرتے ہیں۔ پاکستان میں قانون سب کے لیے ایک جیسا ہے، یا نہیں۔ یا یہاں اشراف کے لیے کچھ اورقانون ہے، اور اجلاف کے لیے کچھ اور۔ مراد یہ کہ ابھی پاکستان کی جمہوریت کو ایک نظام بنانا اوراسے قائم کرنا ہے۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ابھی قانون کی حکمرانی کا تصور سامنے آیا ہے۔ ابھی یہاں قانون کی حکمرانی نہ تو قائم ہوئی ہے، نہ مستحکم۔ پھر یہاں آزاد عدالت کا تو ابھی ڈول ڈالا گیا ہے۔ یہ صرف سپریم کورٹ ہے، جو اصلاً آزاد معلو م ہوتا ہے۔ پاکستانی عدلیہ کی باقی سطحیں، ابھی تک آزادی کے لفظ سے بھی ناآشنا ہیں، اور وہ عام آدمی کو تحفظ اور انصاف مہیا نہیں کرتیں۔ پاکستان میں کہنے کو تو میڈیا آزاد ہے، مگراس نے خود اپنی آزادی کو اشرافیہ کے پاس رہن رکھا ہوا ہے۔ یہ ہر وقت چند سکوں کے عوض بِکنے کے لیے آزاد اور تیار ہے۔ یہاں کی سول سوسائیٹی، جو بیشتر بائیں بازو کی فکر کی حامل ہے، اکثر ریاست اور حکومت کے ہاتھوں میں کھیلنا پسند کرتی ہے۔ یہ انھیں معاملات پر سرگرمی دکھاتی ہے، جو شہریوں پر ریاست کے شکنجے کو مضبوط کرتے اور ریاست پر ان کی محتاجی کو بڑھاتے ہیں۔

دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتوں کے مقابلے میں پاکستان کی ریاست، اپنی بالائی سطح سے لے کر نچلی سطح تک، خواص پسند اور اشراف پسند ہے۔ پاکستان کے شہری اور ووٹر، اور یہاں کی سول سوسائیٹی بھی، اشراف پسند اورخواص پسند ہے۔ دراصل، اشراف پسندی اور خواص پسندی، پاکستان کی ریاست اور حکومت کی جڑوں میں بیٹھ چکی ہے۔ نتیجے کے طور پر یہاں ایک ریاستی اشرافیہ جنم لے چکی ہے، جو ریاست کے وسائل پر پلتی ہے۔ یہاں اعلیٰ عدالت سے لے کر ایک چھوٹے سے سرکاری دفتر تک، عام شہری کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ یہاں قانون کی نظر میں اشراف اور خواص اعلیٰ مرتبہ رکھتے ہیں، اور عام شہری تیسری درجے کے شہری بھی نہیں سمجھے جاتے۔ سو، یہاں ریاست، حکومت اور قانون کی نظر میں شہریوں کی برابری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور عام شہری کے لیے بنیادی حقوق کی دستیابی ایک مذاق معلوم ہوتی ہے۔ پھریہ کہ یہاں، آئین، قوانین اور قواعد و ضوابط کو اپنی خواہشات اور مفادات کے حصول کے لیے توڑنا مروڑنا، اشراف اور خواص کے لیے، بالکل عام سی بات ہے۔

دریں حالات، یہاں جمہوریت اور انتخابات، اشرافی طبقات کے لیے ایک کھیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں انتخابات نتیجہ خیز اور ثمر آور ثابت نہیں ہوتے۔ ہاں، انتخابات کو نتیجہ خیز اور ثمر آور بنانے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ شہری کسی بھی پارٹی کو اس بنیاد پر ووٹ دیں کہ وہ پاکستان میں آئین اور قانون کے نظام کو قائم کرے گی اور پھر تقویت بھی دے گی۔ پھر یہ کہ شہری انتخابات کے بعد بھی حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہیں کہ کہیں وہ بھٹک نہ جائے، یا آئین اور قانون کی منشا کے خلاف کام نہ کرنا شروع کر دے۔ یہی وہ نکتہ ہے، جو پاکستان کو ایک ترقی یافتہ جمہوریت بننے کی طرف گامزن کر سکتا ہے۔ مراد یہ کہ شہری اپنے ووٹ کو اتنا سستا نہ سمجھیں کہ جسے کسی بھی لیڈر یا پارٹی کی جھولی میں ڈالا جا سکتا ہو۔ جسے چھوٹے موٹے معمولی کاموں کے لیے ضائع کیا جا سکتا ہو۔ بلکہ وہ دیکھیں اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں کہ کونسی پارٹی، پاکستان میں آئین اور قانون کے نظام کو قائم کرنے اور مستحکم کرنے کی استطاعت، استعداد اور حوصلہ رکھتی ہے۔ یہی وہ بڑی اور اہم تبدیلی ہے، جس کے لیے شہری اگر اپنے ووٹ کو استعمال کریں تو انھیں اپنے ووٹ کی قیمت کا صحیح نعم البدل مل سکتا ہے!

[یہ کالم 7 مئی کو روزنامہ مشرق پشاورـ اسلام آباد میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں