اتوار، 8 ستمبر، 2013

کیا بجلی کا بحران کبھی ختم ہو سکے گا!

بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے پیچھے پاکستانی سیاست اور ریاست کے سنگین جرائم چھپے ہوئے ہیں۔ جب سے واپڈا کا قیام عمل میں آیا، اس وقت سے اس کے اعلیٰ اہل کاروں نے کیا منصوبہ بندی کی۔ یا اس کے سربراہ بننے والے جینرلوں، بیوروکریٹوں اور ٹیکنوکریٹوں نے بس اپنے گھر ہی بھرے۔ واپڈا کا جو مینڈیٹ تھا، کیا اس کے سرکردگان نے اسے پورا کیا؟ ساتھ ہی ساتھ وہ سیاسی ذمے دار، جو متعلقہ وزارت کے کرتا دھرتا تھے، انھوں نے کیا کیا۔ کیا یہ ان سب کی مجرمانہ غفلت نہیں، جو آج اتنے بڑے بحران کی صورت میں ’جلوہ گر‘ ہے؟

یہ سوال اٹھانے سے پہلے یہ بھی پوچھا جانا چا ہیے کہ واپڈا کو اجارہ دارانہ حیثیت کیوں دی گئی۔ بجلی کی پیداوار اور تقسیم پر واپڈا کی اجارہ داری یا قبضہ کیوں برقرار رکھا گیا۔ نجی شعبے کو بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے عمل میں شامل کیوں نہیں کیا گیا۔ جب یہ واضح ہونے لگا تھا کہ ”واپڈا“ ناکام ہو رہا ہے، اسی وقت نجی شعبے کو بجلی پیدا کرنے اور تقسیم کرنے کی اجازت کیوں نہ دی گئی۔ اس کے پیچھے کس کے مفادات گھات لگائے بیٹھے تھے اور اتنا بڑا جرم کیسے سرزد ہوا۔ کوئی یہ جواب دے سکتا ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے تو کیے گئے، اور کیا کیا جاتا۔ درست ہے کہ واپڈا کی کوتاہی کا احساس کیا گیا، اور نجی پروڈیوسروں کو بجلی کی پیداوار کے عمل میں شامل کیا گیا۔ مگر تحقیق بتاتی ہے کہ واپڈا کی اس کوتاہی کو اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کے پیچھے کیسے کیسے کمیشن اور کِک بیکس کی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں، اور بجلی کی خریداری کی شرح کے تعین کے پیچھے کیسے کیسے قصے پوشیدہ ہیں۔ مختصر یہ کہ بجلی کے عام صارف کو مستقبل کے لیے کس طرح بیچ دیا گیا۔

بڑے بڑے صنعتی اداروں کو اپنی ضرورت کی بجلی خود پیدا کرنے کی اجازت دی گئی، مگر فالتو بجلی تقسیم کرنے اور بیچنے کی نہیں۔ پھر یہ بھی کہ بجلی درآمد کرنے کا خیال بھی کسی کو نہیں آیا۔ یا یہ خیال اتنی تاخیر سے آیا ،جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ اگر آج بجلی درآمد ہو رہی ہوتی تو اس کی ریل پیل ہوتی۔ موجودہ حکومت نے بھی اس بحران سے فائدہ اٹھانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ رینٹل پاور کے ضمن میں جو کچھ ہوا، اس کہانی کے تانے بانے اعلیٰ ترین سطح تک پھیلے ہوئے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ بجلی کے بحران کو حکومتی اہلکاروں اور سیاسی ذمے داروں کی مجرمانہ غفلت قرار کیوں نہیں دیا جاتا اور ان پر گرفت کیوں نہیں ہوتی۔ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کے نتائج ملکی معیشت سے لے کر چھوٹے سے کمرے میں ایک بلب جلا کر زندگی گزارنے والے کو بھی بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ کیا اس کی ذمے داری کا تعین نہیں ہونا چاہیے؟

ٹھیک ہے کہ بجلی کی دستیابی کے لیے فوری اور ہنگامی اقدامات ضروری ہیں تاکہ کاروبارِ حیات چلتا رہے، تاہم یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ واپڈا اور بجلی کی منصوبہ بندی سے متعلق ان تمام کرتا دھرتاؤں کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے، جنھوں نے اپنے فرائض کی بجاآوری کے بجائے ملک و قوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ جو آج سے بڑھ کر آنے والے کل کے بارے میں سوچ ہی نہ سکے۔ جبکہ ان لوگوں کو جس کام کے لیے معاوضہ اور مراعات دی گئی تھیں، انھوں نے وہی کام نہ کیا۔ اس کے بر عکس یہ کیا دے کر گئے ہیں:تاریکی، مایوسی، تباہی اور بربادی۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ بحران ایسے ہی موجود رہے گا۔ ضدی بیماری کی طرح۔ جس طرح کوئی فرد کسی بیماری کے ساتھ مجبوراً زندہ رہنا سیکھ لیتا ہے کہ اس کا کوئی علاج نہیں، کیا اسی طرح عام شہریوں کو بھی بجلی کی کمی اور لوڈ شیڈنگ کے ساتھ زندہ رہنا سیکھ لینا چاہیے! جتنے برسوں سے یہ بحران چل رہا ہے، اس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عام افراد اس بحران کے ساتھ زندہ رہنے پر تیار ہو گئے ہیں۔ لیکن کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا۔ مختلف مواقع پر مختلف جگہوں پر احتجاج، ہنگامے اور توڑ پھوڑ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، اور مستقبل میں ان کے امکان کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔

تاہم، حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی ایسی بیماری نہیں، جس کا علاج ممکن نہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں یہ بحران لاحل نہیں۔ ضرورت اس بات کہ ہے کہ بجلی کی پیدائش، ترسیل اور تقسیم پر عائد پابندیاں ختم کر دی جائیں۔ یعنی بجلی کی جنریشن، ٹرانسمشن اور تقسیم کے سیکٹرز کو نجی شعبے کے لیے کھول دیا جائے۔ اس سے بجلی کی کمی میں بہت جلد فرق پڑ جائے گا۔ مراد یہ کہ حکومت بجلی کی پیدائش، ترسیل اور تقسیم پر قائم اپنی اجارہ داری ختم کرے۔ یعنی بیماری کے نتائج کے بجائے بیماری کی جڑ پر وار کیا جائے تا کہ اس کا قلع قمع ہو سکے۔ حکومت بجلی کی جنریشن، ٹرانسمشن، اور تقسیم اور اس کے ساتھ ساتھ منصوبہ بندی، وغیرہ، سے متعلق بہتری کے جو بھی اقدامات کرنا چاہتی ہے، وہ بھی کرے، لیکن اس سیکٹر کو نجی شعبے کے لیے اوپن کر دیا جائے۔ اس طرح حکومتی اداروں اور نجی اداروں کے مابین مسابقت کی فضا اس سیکٹر کی افزائش اور ترقی کے لیے خوش آئند ثابت ہو گی۔ اور اس کے ثمرات صارفین تک پہنچ سکیں گے۔

بجلی سے متعلق حکومتی اداروں کی نجکاری اس کا حل نہیں۔ جیسے کہ ”کے ای ایس سی“ کے معاملے میں ہوا۔ جب کسی اجارہ داری کی نجکاری کی جاتی ہے تو وہ اجارہ داری ہی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ”کے ای ایس سی“ کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکی اور اسے دوبارہ قومیانے کی بات چل پڑی۔ حل یہ ہے کہ حکومت اگر کسی سیکٹر میں اجارہ داری رکھتی ہے تو اس کی نجکاری نہ کرے، بلکہ پہلے اس سیکٹر کو نجی سیکٹر کے لیے اوپن کرے۔ اس طرح نجی اور سرکاری سیکٹر میں مسابقت کے نتیجے میں یا تو سرکاری سیکٹر کو کارکردگی دکھانی پڑے گی یا یہ خود بخود تحلیل ہو جائے گا۔ شرط یہ ہے کہ حکومت سرکاری سیکٹر کو کوئی حمایت یا تحفظ نہ دے اور مسابقت کے تقاضوں کو یقینی بنائے۔ سو بجلی کے بحران اور کمی کا حل موجود ہے۔

یہاں ابھی بجلی اور گیس کی کمی کے حوالے سے ’بد انتظامی‘ کا ذکر بالکل نہیں کیا گیا۔ اس نکتے میں کافی سچائی ہے کہ بجلی اور گیس کے بحران بہت حد تک بد انتظامی کا نتیجہ ہیں۔ لیکن میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ اہم چیز یہ ہے کہ ہمیں بجلی کے بحران کا اصولی، فوری اور طویل مدتی حل درکار ہے۔ اور یہ حل موجود ہے۔ تو پھر اس پر اب تک عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ دہائی سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے کہ عام شہری، کاروبار، صنعت، تمام کی تمام معیشت، اس گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، اگر اس کا حل موجود ہے تو اس پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ یہ بہت عجیب سا پاکستانی مسئلہ ہے: جیسے کہ ٹریفک کے رولز اور لاز موجود ہیں، ان پر عمل کروانے والی ٹریفک پولیس موجود ہے۔ پھر بھی سڑکوں پر چلنے والی ٹریفک کس قدر بے ہنگم ہے، بلکہ طوفانِ بد تمیزی کا زندہ نمونہ ہے۔ تو ٹریفک رولز اور لاز پر عمل کیوں نہیں کروایا جاتا۔

تو کیا یہ کوئی سازش ہے کہ ٹریفک رولز اور لاز پر عمل نہ کروایا جائے۔ پھنسا رہنے دو عام شہریوں کو ان مسائل اور مصیبتوں میں۔ کیا ایسا ہی ہے۔ پتہ نہیں یہ کوئی سوچی سمجھی سازش ہے یا غیر شعوری بندوبست۔ یہی حال بجلی کی کمی اور بحران کے معاملے کا بھی ہے۔ پھنسا رہنے دو ان کیڑے مکوڑوں کو اسی طرح کے معاملات میں۔ ذلیل و خوار رہنے دو انھیں ان چیزوں میں۔ کیا پاکستان کی اشرافیہ اور طبقۂ خواص کو بجلی کی کمی اور اس کے بحران سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ کوئی نہیں۔ وہ تو ریاست کے وسائل پر پل رہے ہیں۔ یعنی عام شہریوں کے ٹیکسوں پر۔ سو اگر کوئی حل موجود ہے، تو انھیں کیا پڑی کہ اس پر عمل کریں۔

پھر یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ کوئی انوکھا اور نیا حل نہیں۔ خود پاکستان میں بجلی کے اس بحران کے دوران نجی کاروباریوں نے اس حل پر عمل کیا ہے۔ لاہور کے کئی علاقوں میں دکانداروں اور مارکیٹوں کو بجلی مہیا کرنے کے نجی بندوبست سامنے آ گئے ہیں۔ یہ گیس یا تھرمل جنریٹر پر بجلی پیدا کرتے ہیں اور جب سرکاری بجلی غائب ہوتی ہے تو یہ نجی بجلی اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ اس کی لاگت اور قیمت بھی کوئی زیادہ نہیں۔ اگر اسی قسم کے نجی بندوبست زیادہ بڑے پیمانے پر وجود میں آ جائیں تو کیا بجلی کی کمی کا بحران ختم نہیں ہو سکتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اس حل پر سانپ بن کر بیٹھی ہے۔ یہ اپنا کنڈل کھولے اور اس حل کو سامنے آنے اور پھلنے پھولنے دے تو دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ فون کی طرح بجلی بھی گھر گھر دستیاب ہو جائے گی!

[یہ کالم 22 جنوری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں