اتوار، 8 ستمبر، 2013

آدم خور ریاست، آدم خور سیاست دان

”انصاف کو علاحدہ رکھ دیں، اور پھر دیکھیں تو مملکتیں کیا ہیں، غنڈوں کے عظیم گروہ؟ غنڈوں کے گروہ کیا ہوتے ہیں، غنڈوں کی چھوٹی چھوٹی مملکتیں؟ کیونکہ غنڈہ گردی میں ماتحتوں کے ہاتھ سردار کی ہدایتوں کے پابند ہوتے ہیں، ان کا اتحاد اکٹھے حلف اٹھاتا ہے، اور قانون کے تحت لوٹ کا مال حصوں میں بانٹا جاتا ہے۔ اور اگر یہ لفنگے اتنی ترقی کر جائیں کہ قلعوں کے مالک بن جائیں، آبادیاں بسا لیں، شہروں پر قبضہ کر لیں، اور ملحقہ قوموں کو فتح کر لیں، تو ان کی حکومت کو غنڈہ گردی کا نام نہیں دیا جاتا، بلکہ اسے مملکت کے امتیازی نام سے نوازا جاتا ہے؛ انھیں مملکت کا نام اس لیے نہیں دیا جاتا کہ انھوں نے اپنے طور طریقے ترک کر دیے ہوتے ہیں، اور اس بنا پر انھیں یہ مملکت دی جاتی ہے، یا حاصل ہو جاتی ہے، بلکہ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے طور طریقے، قانون کے خطرے کے بغیر استعمال کرتے ہیں۔“ [سینٹ آگسٹائن (430-354)، ”شہرِ خدا“، کتاب 4]

سینٹ آگسٹائن کے اس اقتباس کا مفہوم واضح ہے کہ کسی بھی مملکت کا اصل فریضہ انصاف کی فراہمی ہے، اور اگر وہ انصاف کی فراہمی کو ممکن نہیں بناتی تو وہ مملکت غنڈوں کے گروہ سے کسی طرح مختلف نہیں۔ اور انصاف سے کیا مراد ہے، مملکت یا ریاست اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرے۔ یعنی اگر کوئی ریاست اپنے شہریوں کو جان و مال کا تحفظ نہیں دیتی تو وہ غنڈوں کا گروہ بن جاتی ہے۔ اور یہ بات بھی صاف ہے کہ جان و مال کے تحفظ میں شہریوں کی آزادیاں بھی شامل ہیں۔ کیونکہ کسی بھی انسان کے لیے فکری آزادی کے بغیر جان و مال کا تحفظ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ مثال اس کی یہ ہے کہ لو گ وقت آنے پر اپنے عقائد و افکار کی خاطر اپنی جان بھی لٹا دیتے ہیں، اور اپنا مال بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان تصورات سے بنتا ہے، محض مادی ضروریات کی تکمیل سے اس کی تکمیل نہیں ہوتی۔ لہٰذا، جو ریاست اپنے شہریوں کے لیے ان کی فکری آزادی کو یقینی نہیں بناتی، وہ غنڈوں کی عظیم مملکت بن جاتی ہے۔

اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کسی بھی مملکت یا ریاست کا بنیادی وظیفہ اور اولین فریضہ شہریوں کی فکری آزادی اور ان کی جان و مال حفاظت ہوتا ہے۔ اور کوئی ریاست اپنے اس بنیادی وظیفے اور اولین فریضے سے پہلو تہی برتتی ہے، کوتاہی کرتی ہے، یا اس کی ادائیگی سے انکاری ہو جاتی ہے تو اسے غنڈوں کی عظیم مملکت کا نا م دیا جانا چاہیے۔ آج کا پاکستان ایک ایسی ہی ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس ریاست میں شہریوں کی جان و مال محفوظ نہیں۔ ان کی فکری آزادی کافور ہو چکی ہے۔ انصاف کانام و نشان موجود نہیں۔ بلکہ اس ریاست میں شہریوں کو ان کے عقائد و افکار کی بنا پر ان کی جان و مال سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اورریاست تماشائی بنی ہوئی ہے۔ پاکستان غنڈوں کی عظیم ریاست میں ڈھل چکا ہے۔

کسی بھی قوم یا ملک یا مملکت کے زوال کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ وہاں ہر شے اپنے مقصد سے انحراف کرنے لگتی ہے۔ یعنی یہاں جو بھی شے وجود رکھتی ہے، یا تشکیل دی گئی ہے، اور جس مقصد کی تکمیل کے لیے اسے بنایا گیا ہے، یہ اسی مقصد کے خلاف کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ مثلاً، اگر ایک شے ’الف‘، مقصد ’بے‘ کی تکمیل کے لیے تخلیق کی گئی ہے، اور اگر یہ اس مقصد ’بے‘ سے انحراف کرنا شروع کر دے، اورمقصد ’جیم‘ کے لیے کام کرنا شروع کر دے، تو کیا ہو گا۔ بلاشبہ، شے ’الف‘ اپنے اصل مقصد ’بے‘ سے عاری ہو کر اپنے وجود کا جواز کھو بیٹھے گی؛ کیونکہ مقصد ’جیم‘، جس کی تکمیل میں شے ’الف‘ جُٹ گئی ہے، اس کے وجود کا جواز نہیں۔ یہ مقصد ’جیم‘ کی تکمیل کے لیے نہیں بنی۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ شے ’الف‘ زوال کا شکار ہو جائے گی۔ پاکستانی سوسائیٹی اس چیز کی ناقابلِ تردید مثال کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

پاکستان میں جتنے بھی ادارے قائم ہیں، سب کے سب اپنے وجودی جواز سے منحرف ہیں۔ یہ سب اس مقصد کے خلاف سرگرم ہیں، جس مقصد کے لیے انھیں بنایا گیا ہے۔ جیسے کہ قومی احتساب بیورو یا نیب، پارلیمان، فوج، پولیس۔ ہاں، اس فہرست میں سے صرف موجودہ سپریم کورٹ کو منہا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ وجود نہیں رکھتا، جس کی پیشانی پر زوال کے نشان جلی حروف میں نہ لکھے ہوں۔ ہر ادارہ اپنے مقصد کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ یہی کرپشن ہے۔ یہی بد عنوانی ہے۔ یہی منتخب عہدوں کا غلط استعمال ہے۔ یہی آئینی اور قانونی اختیار کا شخصی اورناجائز استعمال ہے۔ یہی شہریوں کے ٹیکس کے پیسے کی امانت میں خیانت ہے۔ مختصر یہ کہ پاکستان میں زوال نے ہر ادارے، ہر ہستی، اور ہر شے کو اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔

خود پاکستان کی ریاست اس زوال کا سب سے بڑا نمونہ بنی ہوئی ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ ریاست کا بنیادی وظیفہ، یعنی جس کی تکمیل کے لیے ریاست کا قیام عمل میں آیا، شہریوں کی جان ومال اور فکری آزادی کا تحفظ ہے، تو کیا پاکستان کی ریاست نے کبھی اس وظیفے پر دھیان دیا۔ دھیان دینا تو دور کی بات ہے، جب شہریوں کا قتلِ عام ہونا شروع ہو گیا، پاکستانی ریاست کو تب بھی ہوش نہیں آیا۔ یعنی پاکستانی ریاست اول دن سے ہی اپنے وجود کے جواز سے منکر رہی ہے۔ یہ تو آہستہ آہستہ ہوا کہ غنڈے اس پر قابض ہوئے، لیکن یہ ابتدا ہی سے اپنے اولین فریضے کی ادائیگی سے منکر ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس نے نہ صرف غنڈو ں کوتحفظ دینا شروع کر دیا، بلکہ ریاست کو غنڈوں کے حوالے کر دیا ہے۔ آج پاکستان کی ریاست ہر طرح کے غنڈوں کے ہاتھوں یر غمال بنی ہوئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر آج ”ہزارہ“ انسانوں کا قتلِ عام کیا جا رہا ہے، تو کل کسی اور کی باری آ جائے گی۔ یا کل کوئی اور کمیونیٹی کسی اور کمیونیٹی کے خلاف اٹھ کھڑی ہو گی۔ ہر کوئی ہر کسی کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا مشن سنبھال لے گا۔ اور وہی جنگل والا دور قائم ہو جائے گا، بلکہ قائم ہو گیا ہے کہ طاقت ور، کمزور کو مار ڈالے، اور کھا جائے۔ پاکستان کی ریاست اس حوالے سے خاص مقام رکھتی ہے کہ یہ پاکستان کا سب سے طاقت ور جانور ہے، اور اس نے اپنے ہی شہریوں کو کھانا شروع کر دیا ہے۔ اس کے منہ کو اپنے ہی شہریوں کا خون لگ گیا ہے۔ اس مفہوم میں پاکستان کی ریاست، زوال کے درجے سے بھی کہیں زیادہ پستی میں گر چکی ہے۔ یعنی اپنے شہریوں کی جان ومال اور آزادیوں کی حفاظت تو درکنار، یہ خود ان کی جان ومال کے درپے ہوگئی ہے۔ یہ آدم خور ریاست بن چکی ہے۔ اور اس آدم خور ریاست پر قابض ہیں، آدم خود سیاست دان۔ یہ آدم خور سیاست دان، پاکستان کے شہریوں کا مینڈیٹ کھاتے ہیں، ان کا ٹیکس کا پیسہ کھاتے ہیں، اور اب انھوں نے اپنے شہریوں کو کھانا شروع کر دیا ہے۔ یہ سیاست دان آدم خور دیو بن گئے ہیں، جب تک انھیں بوتل میں بند نہیں کیا جاتا، پاکستان کے شہریوں کی جان ومال اور ان کی فکری آزادی کو تحفظ نہیں مل سکتا!

[یہ کالم 21 فروری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں