اتوار، 8 ستمبر، 2013

مافیا سیاست کا کچا چٹھا

نوٹ: یہ کالم، سابقہ کالم ’’مافیا سیاست کی جنم کنڈلی‘‘ کا دوسرا حصہ ہے۔

پاکستان میں ریاست، حکومت اور سیاست کی سرپرستی میں موجود مافیا گروہوں کو دو خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جن کی زندگی اور زندگی کی بقا، دونوں کا انحصار مافیا ہونے اور مافیا رہنے پر ہے۔ یہ اگر مافیا بن کر نہ رہیں تو زندہ نہیں رہ سکتے۔ مافیا ہونا، نہ صرف ان کی سرشت میں ہے، بلکہ ان کی روحِ رواں بھی ہے۔ مافیا کی دوسری قسم وہ ہے، جنھیں ایک ایسے ماحول میں زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کے لیے، جہاں نہ صرف مافیا گروہوں کا دور دورہ ہو، بلکہ مافیا گروہوں کی حکمرانی بھی مستحکم ہو، مافیا بن کر رہنا پڑتا ہے۔ یعنی انہیں طوعاً و کرہاً مافیا کے طور طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔

تاہم، جیسا کہ گذشتہ کالم، ”مافیا سیاست کی جنم کُنڈلی“ میں ذکر ہوا، مافیا کی ان دونوں اقسام کی پیدائش کا سبب ایک ہی ہے: قانون کی عمل داری کی عدم موجودگی۔ یہاں ایسے سینکڑوں چھوٹے بڑے ، نت نئے جرائم، اور دوسرے غیر اخلاقی معمولات گنوائے جا سکتے ہیں، جن کا جنم اور فروغ ایک ایسے ماحول میں ہوتا ہے، جہاں قانون کی عمل داری کا نام و نشان موجود نہ ہو۔ اس مافیائی ماحول میں پاکستان میں ایک نئی ”مخلوق“ کی پیدائش بھی عمل میں آ چکی ہے۔ یہ مخلوق کوئی اجنبی مخلوق نہیں، جو کسی دوسرے سیارے سے پاکستان میں وارد ہو گئی ہو۔ یہ مخلوق ہمارے درمیان موجود ہے اور پھل پھول رہی ہے۔ یہ ایسے افراد ہیں، جو کسی بھی قسم کے اصولوں، قدروں، طور طریقوں، شعار، اور اخلاقی و اخلاقیاتی اصولوں سے قطعاً عاری ہیں۔ یہ ہر طرح کے قانون، قاعدوں اور ضابطوں کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتے، ٹھوکر مارتے اور روندتے ہیں۔ پاکستان میں موجود قانون دشمن ماحول میں، اس مخلوق کی تعداد بڑی تیزی سے خرگوشوں کی طرح ترقی پر ہے۔

پاکستان میں موجود مافیا گروہوں کے سر پر جو مافیا براجمان ہے، اسے سپریم مافیا کا نام دیا جانا چاہیے۔ یہ سپریم مافیا، خود پاکستان کی ریاست اور حکومت ہیں۔ جس طرح، دوسرے مافیا، قانون اور ضابطوں کو پسند نہیں کرتے، کیونکہ یہ ان کی ترقی اور بڑھوتری کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں، اسی طرح، پاکستا ن کی ریاست اور حکومتیں بھی آئین، قانون اور قاعدوں ضابطوں کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ مراد یہ کہ اگر کوئی حکومت قانون، ضابطوں اور منصفانہ اصولوں کو پسند نہیں کرتی، جیسی کہ موجودہ حکومت ہے، اور انہیں بڑی بیدردی سے پامال کرتی ہے، تو ایسی حکومت خود کو ایک مافیا میں ڈھال لیتی ہے۔ بلکہ ایسی حکومت کی کوکھ، ہر قسم کے مافیا گروہوں کے جنم لینے اور نشو و نما پانے کے لیے بڑی زرخیز ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان میں بننے والی حکومتیں ایسی ہی حکومتیں رہی ہیں۔ موجودہ حکومت تو ایسی حکومتوں میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ اسے ایک مافیا حکومت کانام دیا جانا چاہیے!

پاکستان کی ریاست اور موجودہ حکومت سمیت، ان تمام حکومتوں کا عظیم ترین جرم یہ رہا ہے، اور آج بھی موجودہ حکومت اس جرم کی مرتکب ہو رہی ہے، کہ انہوں نے ملک میں قانون کی عمل داری کو قائم نہیں کیا۔ جبکہ ان کی افضل ترین اور اولین ذمے داری یہی تھی۔ ہاں، ایک ریاستی ادارہ ہے، جس نے خود کو اس الزام سے بری کروا لیا ہے، اور اپنے ماضی کے داغ دھو لیے ہیں، اور وہ موجودہ سپریم کورٹ ہے۔ موجودہ حکومت کی اس ادارے کے ساتھ مخاصمت خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سپریم کورٹ، مافیا گروہوں کو ہضم نہیں ہو پا رہا۔ ویسے بھی جہاں تک لِپٹتی ہوئی موجودہ حکومت، اور اقتدار میں دوبارہ رونق افروز ہونے کے لیے اس کے انتخابی ایجینڈے کا تعلق ہے، تو اس کی ترجیحات میں، ”روٹی، کپڑا، اور مکان“ کی گھسی پِٹی تکرار تو موجود ہے، لیکن قانون کی عمل داری کے قیام کا لفظ کہیں لکھا نظر نہیں آتا۔ جہاں تک دوسری سیاسی اور مذہبی-سیاسی پارٹیوں، اور نام نہاد سیاسی اور مذہبی-سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے، ان میں سے کوئی بھی قانون کی عمل داری کے قیام کا نام نہیں لیتی، اور نہ ان کے کسی لفظ یا کسی انداز سے ایسا کوئی مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ اقتدار میں آنے کی متمنی سیاسی پارٹیاں، بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف تک کا یہ حال ہے کہ ان کے منشور، وغیرہ، میں دور دور تک قانون کی عمل داری کے قیام کا ذکر نہیں ملتا۔

صاف بات ہے کہ ان سیاسی پارٹیوں کا قانون کی عمل داری سے کیا رشتہ! قانون کی عمل داری تو ان کی سیاست اور بقا سے متصادم ہے۔ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے: یہ سیاسی پارٹیاں وجود کیوں رکھتی ہیں۔ ان کے وجود کا مقصد کیا ہے۔ کیا یہ پاکستان کے شہریوں کے لیے نہیں بنیں۔ اور اگرایسا ہی ہے، یعنی اگر یہ سیاسی پارٹیاں پاکستان کے شہریوں کی خاطر وجودمیں آئی ہیں، تو انہیں قانون کی عمل داری کو اپنے سیاسی ایجینڈے میں سرِ فہرست رکھنا چاہیے۔ صرف یہی نہیں، انہیں ایک ایسی تحریک کا ڈول ڈالنا چاہیے، اور ”جمہوریت کے تحفظ“ کے بجائے، موجودہ حکومت پر قانون کی عمل داری کے قیام کے لیے دباؤ ڈالے۔ اوران سیاسی پارٹیوں کو خود اپنے منشور اور ایجینڈوں میں قانون کی عمل داری کو ایک مقصدِ اولیٰ کے طور پر شامل کرنا چاہیے۔ اس سے پاکستان کے شہریوں کے لیے ان کے اخلاص اور سچائی کا ثبوت مل سکتا ہے۔

علاوہ ازیں، اس سے بھی اہم چیز یہ ہے کہ خود شہری قانون کی عمل داری کے قیام اور اس قدر کو ایک پیمانے کے طور پر استعمال کریں، اور اس کی مدد سے حکومت اور ریاستی اداروں کی کارکردگی کو جانچیں۔ بلکہ یہ ایک ایسا پیمانہ ہے، جو سیاسی پارٹیوں اور ساتھ ہی ساتھ مذہبی-سیاسی پارٹیوں کی سیاست کو جانچنے اور پرکھنے میں بھی مدد دے سکتا ہے۔ قانون کی عمل داری کی قدر کی مدد سے حکومتوں کی کوالیٹی کو جانچنے کے ساتھ ساتھ خاص طور پر ان سیاسی پارٹیوں کی کوالیٹی کو بھی جانچا جانا چاہیے، جو اقتدار میں کودنے کے لیے بے چین نظر آتی ہیں۔ تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ وہ اقتدار میں آ کر قانون کی عمل داری قائم کرنے میں کتنی مخلص ہیں، اور خود قانون کی عمل داری کے تحت حکمرانی کرنے کا کتنا حوصلہ اور کتنی قوتِ برداشت رکھتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسے کسوٹی، سُناروں کو کھرا کھوٹا سونا پرکھنے میں مدد دیتی ہے، اسی طرح، قانون کی عمل داری کی قدر بھی ایک کسوٹی کی حیثیت رکھتی ہے، جس کے ذریعے سیاسی سونے کو پرکھا جانا چاہیے؛ اور سیاسی کھوٹ کو مسترد کر دینا چاہیے۔ سچے کھرے سیاسی سونے کا ساتھ دینا چاہیے۔ یہی سونا، یعنی ایسی سیاسی پارٹی، جو قانون کی عمل داری کے قیام میں مخلص اورسچی ہو گی، وہی پاکستانی شہریوں کو مافیا گروہوں سے نجات دلا سکے گی؛ اور اس طرح، شہریوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور آزادی کی حفاظت کو یقینی بنا سکے گی! 



[یہ کالم 9 فروری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں