اتوار، 8 ستمبر، 2013

پاکستان نے ہمیں کیا دیا؟

یہ سوال کچھ عجیب سا لگے گا۔ یہ سوال اٹھانے والا کچھ ”خود پسند“ محسوس ہو گا۔ یقین کیجیے، یہ سوال بہت اہم ہے۔ اصل میں پاکستان میں جھوٹے تصورات کا ایک ایسا جال بُن دیا گیا ہے کہ کسی پاکستانی شہری کو یہ سوال اٹھانے کا خیال ہی نہیں آتا۔ ہم بے چارے اسی بوجھ تلے دبے رہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو کیا دے رہے ہیں۔ ہم بے چارے حُب الوطن بھی ہیں یا نہیں۔ حُب الوطنی کے تقاضے پورے کرنے کے قابل بھی ہیں یا نہیں۔ ہمیں یہ سوال اٹھانا یاد ہی نہیں رہتا۔ ہم بے چارے”انڈیا مخالف“، یا پھر”امریکہ مخالف“ حب الوطنی کے گورکھ دھندے میں پھنسے رہتے ہیں۔ یہ ایسے بوجھ ہیں، جنھوں نے ہمارے دماغوں کو ماؤف کر دیا ہے۔

اصل میں ہم عام شہریوں کو اس فکری سیاست کا شکار بنا دیا گیا ہے۔ ہم بے چارے حب الوطنی کے گٹھڑ سر پر اٹھائے، اپنے حصے کے ٹیکس تو ادا کرتے ہی ہیں؛ ہمیں حکمران طبقوں، اشرافیہ، اور خواص کے حصے کے ٹیکس بھی ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ہم خود کبھی کسی ٹیکس چھوٹ سکیم سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ ہمارے لیے کوئی سکیم بنتی ہی نہیں۔ ہم پر ٹیکسوں کا بوجھ ہمیشہ بڑھتا ہی رہتا ہے۔ ہم پاکستان کے حکمران طبقات، اشرافیہ اور خواص کو دینے میں لگے رہتے ہیں۔ پاکستان کے نام پر ہم سے قربانیاں مانگی جاتی ہیں، پر ہمیں ملتا کچھ نہیں۔ ہمیں اپنی جان و مال اور عزت و وقار کا تحفظ تک نہیں مل پاتا۔

میں بھی ایک عام پاکستانی شہری ہوں۔ پاکستان نے مجھے کیا دیا، پہلی دفعہ مجھے اس سوال نے تب پریشان کیا، جب میں نے کالج جانا شروع کیا۔ سکول کے وقت اس لیے نہیں کہ ہم سکول بہت خوشی سے پیدل جایا کرتے تھے۔ (میں اب بھی پیدل چلنا پسند کرتا ہوں۔ ہمیں اس پیدل چلنے کے کلچر کا احیا کرنا چاہیے!) ہوا یہ کہ سکول گھر سے بہت قریب تو نہیں، پھر بھی قریب تھا (ہمیں اپنے بچوں کو قریبی سکولوں میں بھیجنا چاہیے، تا کہ انھیں سفر کی مشقت سے نجات ملے اور وہ پیدل چلنے کا لطف اٹھائیں اور تروتازہ بھی رہیں!)۔ جبکہ کالج خاصا دور تھا (پھر بھی میں کبھی بہ امرِ مجبوری اور کبھی اپنی مرضی سے پیدل بھی آ جایا کرتا تھا)۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا اس وقت بھی وہی حال تھا، جو نئی فلم کے پہلے شو پر سینیما ہال کا ہوتا تھا۔ تب فلمیں اور سینیما ہال سماجی زندگی کا بھر پور حصہ تھے۔

کالج جانا اور پھر گھر واپس آنا، ایک ایسا بوجھ تھا، جو اٹھائے نہ اٹھتا تھا۔ میں سوچتا تھا کسی ایک جگہ قائم ہو جاؤں، کالج یا گھر۔ خیال آتا تھا کہ کیا عام شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کرنا، حکومت کے لیے کوئی بہت بڑا کام ہے۔ جو حکومت، اپنے شہریوں کے لیے اتنا سا کام نہیں کر سکتی، اسے کیا نام دیا جائے۔ پاکستان نے مجھے کیا دیا، دوسری مرتبہ اس سوال نے مجھے تب ستایا، جب پہلی مرتبہ مجھے پاکستان سے باہر جانے کا موقع ملا۔ یہ بات نہیں کہ یہاں پاکستان میں ایسی چیزیں نہیں تھیں یا ختم ہو گئی تھیں کہ یہ سوال تنگ نہیں کرتا تھا۔ دراصل پاکستان میں رہتے رہتے آدمی، ایسی ایسی چیزوں کا عادی ہو جاتا ہے کہ اسے خود پر حیرانی بھی ہوتی ہے اور پریشانی بھی۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ جیسے جیسے پاکستان سے باہر جانے کے مزید مواقع ملے، یہ سوال بڑا اور اہم بنتا گیا: پاکستان نے مجھے کیا دیا۔ کہیں پاکستانیوں کی علاحدہ قطار بنوا دی جاتی۔ کہیں انھیں مشکوک نظروں سے دیکھا اور مشکوک ہاتھوں سے ٹٹولا جاتا۔ کہیں ایسا سلوک روا رکھا جاتا کہ اگر ممکن ہو تو ان کے ذہنوں اور دماغوں کو کھول کر ان کی تلاشی بھی لے لی جائے۔

باہر جا کر ہاتھ میں تھما ہوا پاکستانی پاسپورٹ کسی چھٹے ہوئے مجرم کا ”نامۂ اعمال“ محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان نے مجھے یہی کچھ دیا۔ باہر کی دنیا مجھ نامعلوم حقیر فقیر، بلکہ ہر عام پاکستانی شہری کو کیا جانے۔ وہ تو اسے ”پاکستانی“ کے طور پر شناخت کرتے ہیں۔ پاکستانی کی شناخت، ایک پاکستانی کو کیا دیتی ہے، جتنے پاکستانی بھی باہر گئے ہوں گے، وہ اس سے بخوبی واقف ہوں گے۔ ابھی پچھلے سے پچھلے برس ترکی جانے کا اتفاق ہوا۔ ترکی ان مسلمان ممالک میں سے ہے، جو پاکستانی مسافروں کے حوالے سے بہت ”دوستانہ“ سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے پاکستانی، جن کے پاسپورٹ پر امریکی یا برطانوی ویزا درج ہوتا ہے، انھیں ترک ایئر پورٹ پر ایک ماہ کا ویزٹ ویزا مل جاتا ہے۔ یہاں دو باتیں اہم ہیں۔ پہلی تو یہ کہ امریکہ اور برطانیہ نے اپنے شہریوں کو کیا دیا، سب کو پتہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ اور برطانیہ نے پاکستانی شہریوں کو بھی یہ عزت دلوائی کہ اگر ان کے پاس امریکی یا برطانوی ویزا ہے تو انھیں کئی اور ملکوں کا ویزا مل سکتا ہے۔ یعنی امریکی اور برطانوی ویزا ایک معیار کا درجہ رکھتا ہے۔

میں بھی اس زعم کے ساتھ کہ مجھے ایئر پورٹ پر ویزا مل جائے گا، اتا ترک انٹر نیشنل ایئر پورٹ پر اترا تو اچھی خاصی تسلی ہو گئی۔ ثابت ہوا کہ پاکستانی پاسپورٹ بھی ایک ”معیار“ ہے۔ ایمیگریشن کے لونڈوں نے سب پاکستانیوں کو، کچھ اور قومیتوں سمیت، جدا کر کے دور کھڑا کر دیا۔ اس بات کی کوئی تمیز نہیں تھی کہ کسے ویزا درکار ہے اور کون پیچھے سے ویزا لے کر آیا ہے۔ پاکستانی ”معیار“ نے امریکی اور برطانوں معیار کو نفی کر دیا۔ اس نفی کے عمل میں تین گھنٹے سے زیادہ کی مشقت شامل تھی۔ بے توقیری اور بے یار و مددگار ہونے کا احساس تو صدیوں پر محیط معلوم ہو تا تھا۔ ایک مسافرنے قانون کی زبان بولنے کی کوشش کی۔ کہا: میرے پاس تو ویزا ہے، مجھے کیوں جانے نہیں دیتے۔ ایمیگریشن کے لونڈے لال پیلے ہو گئے۔ انچارج لونڈا بولا: میرا ملک ہے، تمہارے پاس ویزا ہے یا نہیں، یہ میری مرضی ہے کہ میں تمہیں اپنے ملک میں داخل ہونے دوں یا نہیں۔

ایمیگریشن کے لونڈے نے درست کہا۔ جو ملک قانون کے تحت چلتے ہیں، افراد کی پسند اور ناپسند، یا ان کی مرضی، کے تحت نہیں، وہ معیار بنتے ہیں اور اپنے ہی نہیں، دوسرے ملکوں کے شہریوں کو بھی عزت دلواتے ہیں۔ جو ملک قانون کے تحت نہیں چلتے، بلکہ قانون کے تمسخر اور تماشے پر چلتے ہیں، حکمران اشرافیہ اور خواص کی خواہشات کے تحت چلتے ہیں، وہ نہ تو اپنے شہریوں کوعزت دے سکتے ہیں، نہ خود کوئی معیار بن سکتے ہیں۔ معیاروں کی نفی کا معیار ضرور بن جاتے ہیں۔ ایسے ملک تو اپنے شہریوں کو ایک بہتر اور آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں دے سکتے! یہاں ایک اوربات پر غور کرنا ضروری ہے۔ ملکی، سیاسی، سرحدی شناختوں سے اوپر بھی کچھ شناختیں موجود ہیں، جو آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتی ہیں۔ مگر اس کا انحصار اس عالمی قدر پر ہے، جو آپ کو یہ شناخت دیتی ہے۔ نیویارک ایئر پورٹ پر سیکیوریٹی نے پوچھا: آپ کیا کرتے ہو۔ میں نے کہا: رائیٹر ہوں۔ انھوں نے مجھے ہاتھ لگایا، نہ میرے سامان کو۔ پاکستان کے کسی بھی ایئر پورٹ پرآتے ہی اس قسم کی تمام قدریں پامال ہو جاتی ہیں۔ پاکستانی سرزمین پر قدم رکھتے ہی یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ ایک ایسے جزیرے پر اتر آئے ہیں، جہاں ہر اصول، ہر قدر، ہر قانون، ہر ضابطہ، انتہائی تکلیف دہ انداز میں سولی پر لٹکا ہوا ہے۔

اس مرتبہ واپسی پر،لاہور ایئر پورٹ پہلے سے بھی زیادہ ابتر نظر آیا۔ ”ترقی“ عیاں تھی۔ دنیا کے ہر ایئر پورٹ پر آپ نے لوگوں کو تختیاں اٹھائے دیکھا ہو گا۔ یہ سب کسی نہ کسی اجنبی مہمان کو لینے کے لیے آئے ہوتے ہیں۔ پاکستانی ایئر پورٹوں پر بھی ایسا ہوتا ہے، پر یہاں ایک اور طرح کے لوگوں کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ لوگ اجنبی مہمانوں کو لینے نہیں آئے ہوتے، بلکہ یہ اپنے واقف کاروں کو اس تکلیف سے بچانے کے لیے ایئر پورٹ کے اندرموجود ہوتے ہیں، جس کا تعلق ایمیگریشن کی قطار میں کھڑے ہونے اور پھر اپنا سامان چیک کروانے سے ہوتا ہے۔ لاہور ایئر پورٹ پر اس طرح کے افراد کی تعداد بہت زیادہ نظر آئی۔ بلکہ یہ بھی دیکھا کہ چند ملازم، مسافروں کو ورغلا رہے تھے کہ وہ انھیں تمام مشکلات سے نکال کر باہر لے جا سکتے ہیں۔ کچھ اور ملازم شکار تلاش کر رہے تھے اور جا جا کر سیکیوریٹی کو اس کی خبر دے رہے تھے۔ یعنی کون ایسا ہے، جسے تنگ ونگ کر کے ”بھتے“ کا بندوبست ہو سکتا ہے۔

بہت مایوس کن صورتِ حال ہے: کیا کیا جائے۔ پاکستان سے باہر جاؤ تو یہ سوال ستاتا ہے کہ پاکستان نے ہمیں عام شہریوں کو کیا شناخت دی۔ جب پاکستان واپس آؤ تو یہ احساس اور زیادہ شدید ہو جاتا ہے کہ پاکستان نے ہمیں عام شہریوں کو پاکستان کے اندر کیا دیا! آپ بھی اپنے تجربات اور اپنی زندگی پر نظر ڈالیے اور سوچیے آپ کو پاکستان نے کیا دیا!

[یہ کالم 2 فروری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں