پیر، 9 ستمبر، 2013

وزارتِ عظمیٰ کے تمنائی

سیاست دان تو بدنام ہیں، اور صحیح بدنا م ہیں۔ وہ صرف نام کے، یا نام کے لیے بدنام نہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے: بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ بلکہ سیاست دانوں نے کام ہی ایسے کیے، اور کیے ہی جا رہے ہیں ، جنھوں نے ان کی شہرت ایسی بنا دی۔ یہاں تک کہ بدنامی ان کے گلے کا طوق بن چکی ہے۔ وہ عہدے، رتبے، حیثیت، مرتبے، اور اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کے ٹیکس کے پیسے کے بھوکے مشہور ہیں۔ وہ جھوٹ بولنے میں طاق ہیں۔ جعل سازی کے گُرو ہیں۔ آئین کو توڑنے مروڑنے کے کاریگر ہیں۔ قانون کو پامال کرنے کے کھلاڑی ہیں۔ اس قبیل کی کی کونسی صفات ہیں، جنھیں ان سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے کرتوتوں کے سبب پاکستان میں لفظ، ’’سیاست“ کا مفہوم بالکل بدل گیا ہے۔ سیاست کا مطلب بن گیا ہے: جھوٹ، فریب، دغابازی، بدعہدی، مکاری، اور لوٹ مار؛ اور ان کے ساتھ آئین دشمنی، قانون دشمنی بھی جوڑ لیجیے۔ سیاست دانوں کی بدولت ایک نیا لفظ بھی وجود میں آ گیا ہے۔ یہ ہے: سیاستی۔ یعنی ایسا شخص، جو ساز باز کرنے کا ماہر ہو، فریب اسے اپنا کام نکالنا جانتا ہو، جھوٹ کا جال بچھا کر اپنا الو سیدھا کر سکے۔

اس چارج شیٹ میں ایک اور بڑے جرم کا اضافہ ضروری ہے۔ یہ سیاست دان ہی ہیں، جنھوں نے زندگی کا یہ چلن عام کیا۔ یہ استاد اور گرو بنے، اور عام شہریوں نے ان سے زندگی کا یہ چلن سیکھا اور اختیار کیا۔ وہی بات ہے کہ پانی، اونچائی سے نشیب کی طرف بہتا ہے۔ سیاست دانوں نے عام شہریوں کو بھی سیاست دان بنا دیا۔ یعنی پاکستان کی سماجی زندگی میں سے سچائی رخصت ہو گئی، اور اس کی جگہ سیاست، براجمان ہو گئی۔ یعنی جھوٹ، تخت پر چڑھ بیٹھا۔ ہر شخص، وہ کہیں بھی ہو، سیاست کا دامن تھامے ہوئے ہے، اور سچائی سے کوسوں دور چلا گیا ہے۔ مختصر۱ً یہ کہ پاکستانی زندگی، سیاست زدہ زندگی بن گئی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر جو المیہ واقع ہوا، وہ یہ ہے کہ زندگی کا یہ انداز، قریب قریب ہر شہری کی سوچ، فکر اور طرزِعمل میں اس طرح پیوست ہو گیا ہے کہ کوئی بھی شخص یہ سوچنے کے قابل نہیں رہا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ ہر کوئی بغیر سوچے سمجھے یہ سیاست آمیز، سیاست زدہ زندگی گزارے جا رہا ہے۔

اس طرزِ حیات اور اندازِ فکر کی تازہ مثال آج کل خود کو بڑی بے رحمی سے بے نقاب کر رہی ہے۔ یہ مثال اس بات کا ثبوت بھی دے رہی ہے کہ سیاست زدہ سوچ کتنی گہرائی تک اور کہاں کہاں سرایت کر چکی ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا باقی نہیں بچا ہے، جہاں سیاست نے انتہائی باشعور اور تعلیم یافتہ افراد کے طرزِ حیات اور اندازِ فکر کو منفی اثرات کی چکی میں نہ پیسا ہو۔ عام شہری ہی نہیں، پڑھے لکھے ماہرِ معاشیات، جج، صحافی، یعنی وہ لوگ جنھیں ایک طرح سوسائیٹی کے ”ضمیر“ کا نام دیا جا سکتا ہے، سیاست نے ان سب کوایک ایسے سانچے میں ڈھال دیا ہے کہ وہ آداب و اطوار، اخلاقیات، اصول واقدار، عزتِ نفس، حِسِ انفرادیت، وقر و توقیر، قدر و منزلت، اس قسم کی سب چیزوں سے بے بہر ہ محسوس ہونے لگے ہیں۔ وہ بھی سیاست دانوں کی طرح عہدے، رتبے، حیثیت، اور مرتبے کے تمنائی بنے پھر رہے ہیں۔

جب سے موجودہ حکومت کی آئینی مدت کے اختتام اور نگران سیٹ اپ کی نامزدگی کا چرچا شروع ہوا، تب سے میڈیا میں متعدد نام پھِرنے لگے۔ یعنی نگران وزیرِ اعظم، اور پھر نگران صوبائی وزرائے اعلیٰ کے نام۔ یہ سب نام بے ضابطہ انداز میں سامنے آئے تھے۔ یہ صرف ماہرین اور صحافیوں کی معلومات کا پھل تھے۔ پھر باقاعدہ تجویز ہونے والے نام سامنے آنے لگے۔ کچھ نام حزبِ اختلاف کی طرف سے اور کچھ حزبِ اقتدار کی طرف سے سامنے آئے۔ ان میں ریٹائرڈ ججوں کی تعداد زیادہ تھی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان پر کتنا اعتماد کیا جا رہا ہے۔ جب یہ نام باضابطہ انداز میں سامنے آ گئے، تو میں ایسی کسی خبر کے انتظار میں رہا کہ کوئی تردید کرے گا کہ نامزدگی سے پہلے اس سے اجازت نہیں لی گئی۔ میں سوچتا رہا کہ کسی طرف سے یہ کہا جائے گا کہ مجھ سے تو پوچھا نہیں گیا اور میری اجازت کے بغیر میری نامزدگی کیسے ہو گئی۔ پر ایسا کچھ نہ ہوا۔ ہاں، جس اندازمیں نامزدگیوں کا یہ سلسلہ چل رہا تھا، اس سے بھی یہ مترشح نہیں ہوتا تھا کہ جن افراد کی نامزدگی کی گئی ہے، ان سے پیشگی اجازت لی جا چکی ہے۔ ایسی کوئی خبر بھی نظر نہ آئی۔ اس سے دو مطلب اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جن افراد کو نامزد کیا گیا، ان سب سے اجازت لے لی گئی ہو گی، گوکہ کہیں کسی خبر میں اس بات کا اشارہ نہیں ملا۔ دوسرے یہ کہ جتنے بھی افراد کو نگران وزیرِ اعظم، یا نگران وزیرِ اعلیٰ کے لیے نامزد کیا گیا، غالباً وہ سب کے سب اپنی نامزدگی پر خوش تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے یہ سب پردہ اٹھنے کے منتظر تھے کہ کب ان کا نام سکرین پر نمودار ہوتا ہے۔

سو، جب یہ نام سامنے آ گئے، تو ان پر رائے زنی شروع ہوئی۔ پہلے ایک ریٹائرڈ جج کے بارے میں خبریں چھپیں کہ ان کا نام ایک بڑے کاروباری نے مختلف فریقین کی رضامندی کے بعد تجویز کا حصہ بنوایا تھا۔ پھر ایک مذہبی سیاسی پارٹی کے قائد نے فرمایا کہ ان ریٹائرڈ جج کے نام پر نوے فیصد اتفاق ہو چکا تھا۔ اس پر اخبارات میں لے دے بھی ہوئی۔ اور ہندی کی چندی کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جس پارٹی نے ان کا نام تجویز کیا تھا، اسی نے ان کا نام واپس لے لیا۔ یہ خبریں چھپ رہی تھیں، اور پشیمانی مجھے ہو رہی تھی کہ کیا جج حضرات، نگران وزیرِ اعظم بننے کے ایسے تمنائی ہیں کہ وہ اخبارات میں اس طرح اپنے نام اچھلنے دیں گے۔ پر یہ سب کچھ ہوا، اور ان کا نام مٹا دیا گیا۔ اسی طرح، جیسے ہی ایک مایہ ناز ماہرِ معاشیات کا نام نگران وزیرِ اعظم کے لیے سامنے آیا تو ان کے بیانات اخبارات کی زینت بننے لگے کہ وہ نگران وزیرِ اعظم بن کر کیا کیا کریں گے اور کیسے کریں گے۔ پنجاب کے نگران وزیرِ اعلیٰ کے لیے ایک نامور صحافی کا نا م تجویز ہوا، اور جب ان سے ٹی وی پر اس بارے میں پوچھا گیا تو ایسا کچھ کہنے کے بجائے کہ ان سے تو کسی نے نہیں پوچھا کہ وہ نگران وزیرِ اعلیٰ بننے پر راضی بھی ہیں یا نہیں، انھوں نے خاموش رضا مندی کا عندیہ دیا، اور کہا کہ وہ اس بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ یعنی جب وہ نگران وزیرِ اعلیٰ بن جائیں گے تو دیکھا جا ئے گا۔


[یہ کارٹون 24 مارچ کو انگریزی روزنامے دا فرنٹیئر پوسٹ میں شائع ہوا۔]

اب ایلیکشن کمیشن نے نگران وزیرِ اعظم کی نامزدگی کر دی ہے، اور انھوں نے حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ خیبر پختونخوا، سندھ، اور بلوچستان میں نگران وزرائے اعلیٰ پہلے ہی حلف اٹھا چکے ہیں۔ پنجاب کا معاملہ ابھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ مگر میرا ذہن ان نامزد اشخاص کی سوچ اور فکر کو سمجھنے میں گُم ہے، جن کے نام نگران وزیرِ اعظم، اور صوبائی وزرائے اعلیٰ کے لیے سامنے آئے، پر قرعۂ فال ان کے نام نہ نکل سکا۔ سوال یہ ہے کہ یہ باعزت اور با وقار لوگ اس قطار میں کیوں کھڑے ہوئے، اور وہ بھی اس انداز میں کہ (غالباً) ان سے پوچھے بغیر انھیں اس قطار میں کھڑا کر دیا گیا۔ پہلے ان کے نام پر انگلیاں اٹھائی گئیں، اور پھر انھیں نکال باہر کیا گیا۔ کیا وزارتِ عظمیٰ اور وزارتِ اعلیٰ، ایسا ہی کوئی بڑا مرتبہ ہے، جس کے لیے ایسے بڑے لوگ اپنے نام پر بٹہ لگوا سکتے ہیں: ہاں تو بھی جھول عظمیٰ وزارت کا جھولنا / جو چیختے ہیں چیخنے دے اپنا کام کر۔ کیا یہ سب اشخاص لاٹری نکلنے کے منتظر تھے، جبکہ انھوں نے لاٹری کا ٹکٹ خریدا ہی نہیں تھا! تو کیا پاکستان کے اعلیٰ ترین دماغ ابھی تک ”لاٹری“ کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں!


[یہ کالم 26 مارچ کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں