منگل، 10 ستمبر، 2013

بنگلہ دیش کا بلوچستان

کئی سال پہلے لاہور ہائی کورٹ میں ایک سیاسی رہنما کے خلاف یہ مقدمہ پیش ہوا تھا کہ انھوں نے مشرقی پاکستان کی علاحد گی کا ذمے دار فوج کو ٹھہرایا ہے، اور یوں آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ بس جو بے چارہ چھری کے نیچے آ جائے۔ انھوں نے اپنے الفاظ واپس لیے، معافی مانگی، تب جا کر جان بخشی ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں کثیر تعداد میں لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ سیاست دان تو بالخصوص یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ میں ایسا نہیں سمجھتا، اور اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ میں کسی کی (یعنی فوج) کی صفائی دینا چاہتا ہوں یا کسی (یعنی سیاست دانوں) کو ملوث کرنا چاہتا ہوں۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہمیں حالات کو درست طور پر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور حقائق سے نظر نہیں چرانی چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ذمے داری کی خانہ بند ی کر سکیں، اور یہ دیکھ سکیں کہ آئینی و قانونی اور سیاسی و اخلاقی ذمے داری کا تعین کیونکر کر ہو سکتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں تمام سیاسی اور ریاستی معاملات کے ضمن میں آخری ذمے داری سیاست دانوں پر آتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ آئینی طور پر بااختیار حکمران ہوتے ہیں، اور فیصلہ سازی کا آخری حق ان کے پاس ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنے اس حق کو استعمال نہیں کرتے تو یہ ان کا قصور ہے۔ جیسے وہ ہمیشہ یہ رونا روتے رہتے ہیں کہ وہ حکمران تو تھے، مگر ان کے پاس اختیار نہیں تھا۔ مضمرانہ طور پر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اصل اختیار ایسٹیبلِشمینٹ یعنی قائمیہ کے پاس تھا۔ تو آپ سے کس نے کہا تھا بے اختیاری کی حکومت کے ساتھ لپٹے لیٹے رہیں۔ اگر ایسی ہی بے اختیاری تھی تو آپ کو فوراً استعفیٰ دے کر حکومت چھوڑ دینی چاہیے تھی، اور اپنے ووٹروں کے پاس آ جانا چاہیے تھا؛ وہی ووٹرز جنھوں نے اپنے ووٹ کی طاقت سے آپ کو بااختیار حکمران بنا کر حکومت میں بھیجا تھا۔ اصل میں یہ بے چارے سیاست دان ، اقتدار کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ یہ سیاسی طفیلیت پر پلنے والے کیڑے ہیں۔ انھیں اقتدار بھیک میں بھی مل جائے تو سینے سے لگا لیں گے۔ اس معاملے کی تفصیل کے لیے میری کتاب، ”پاکستان میں ریاستی اشرافیہ کا عروج“ دیکھی جا سکتی ہے۔

لہٰذا، سیاست دانوں کا اپنے اختیار کو استعمال نہ کرنا، اور اپنی اس بے عملی کے لیے حیلے بہانے تراشنا بھی ان کی سیاست کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ یہاں کوئی بھی اپنی ذمے داری قبول نہیں کرتا۔ ہر ایک، سب کو یا ہر دوسرے کو مجرم ٹھہراتا ہے۔ یوں تو ذمے داری کا معاملہ قیامت تک طے نہیں ہو سکتا۔ ملک میں آئین اور قانون بنانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اختیار کے ساتھ ذمے داری کا تعین بھی ہو جائے۔ جن لوگوں کو آئینی اور قانونی فرائض کا مختار بنایا جاتا ہے، ان پر ذمے داری خود بخود عائد ہو جاتی ہے۔ جیسے اس وقت نیب کے جو سربراہ ہیں، نیب جو کچھ بھی کر رہا ہے، ان تمام اقدامات کی آئینی ذمے داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ جب وہ نیب کے سربراہ نہیں رہیں گے، تب اگر وہ کہیں کہ وہ بے اختیار تھے تو یہ سراسر حیلہ سازی ہو گی، اپنی ذمے داری سے بچنے کے لیے۔ پاکستان میں اکثر بیوروکریٹوں اور بریگیڈیئروں، جینرلوں کا ریٹائر ہونے کے بعد یہی مشغلہ ہے۔

جہاں تک سیاسی و اخلاقی ذمے داری کی بات ہے تو ان دونوں کا تعین مشکل ہوتا ہے۔ ایک سطح پر تو یہ آئینی اور قانونی ذمے داری کا جزو ہوتی ہیں، اور دوسری سطح پر نہیں ہوتیں؛ یوں سمجھ لیں کہ آزاد حیثیت کی حامل بھی ہوتی ہیں۔ مراد یہ کہ آئینی و قانونی ذمے داری کے ساتھ ،اخلاقی ذمے داری خود بخود عائد ہو جاتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ کسی کو آئینی یا قانونی ذمے داری عطا ہو تو اسے اخلاقی ذمے داری سے بری الذمہ قرار دے دیا جائے گا۔ مزید یہ کہ اگر کوئی فرد آئینی و قانونی ذمے داری کا حامل نہ ہو تو بھی اخلاقی ذمے داری تو اس کے ساتھ ہمیشہ موجود رہتی ہے۔

اس وقت صدر آصف علی زرداری کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ زیرِ سماعت ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں اور ملک کے سربراہ بھی، یعنی وہ بیک وقت دو عہدوں کے حامل نہیں ہو سکتے۔ گو کہ آئین میں ایسی کوئی دفعہ موجود نہیں، تاہم، یہ ایک سیاسی اور اخلاقی معاملہ ہے۔ سیاسی روایت یہ رہی ہے کہ ملک کے سربراہ کو، جو فیڈریشن کا نمائندہ ہوتا ہے، غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ سربراہ کے عہدے کا اخلاقی تقاضا بھی یہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ہر بات اور ہر بات کی ہر تفصیل آئین میں درج نہیں ہو سکتی۔ آئین بنیادی طور پر ایک اخلاقی دائرے کے اندر ہی با معنی ہوتا ہے، اس دائرے سے باہر یہ بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔ اس وقت یہی ہو رہا ہے؛ آئین کو بے معنی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سیاسی اور اخلاقی ذمے داری کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جا رہا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے لیے خود آئین کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ یہ سوچ اور انداز نہایت غیر آئینی، غیر سیاسی اور غیر اخلاقی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی اور اخلاقی ذمے داری کا احساس وہی کرتے ہیں، جو احساسِ ذمہ داری کے حامل ہوتے ہیں۔ وگرنہ لوگ اپنے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کے لیے سیاست اور اخلاقیات کا سہارا لیتے ہیں، اور غیر سیاسی اور غیر اخلاقی اقدامات کے لیے آئین اور قانون کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ کسی بھی صورت کوئی ذمے داری قبول نہیں کرتے۔

اس کالم کی تمہید طویل ہو گئی۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی آخری ذمے داری سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ آئینی و قانونی جرم، اور سیاسی اور اخلاقی گناہ سیاست دانوں کے نام لکھا جانا چاہیے۔ جیسا کہ خود اس وقت کے واقعات کا سلسلہ بتاتا ہے کہ یہ 1970 کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے تنازعات ہی تھے، جن کا تصفیہ نہ ہو سکا اور مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ حقائق یہ ہیں کہ 1970 کے عام انتخابات میں مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی، اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی؛ جبکہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ تنہا پارٹی تھی، جس نے قریب قریب تمام نشستیں جیتی تھیں۔ ایسے میں لیگل فریم ورک کے تحت جوانتخابات ہوئے، ان کے نتائج کے مطابق حکومت بنانے کا حق عوامی لیگ کو ملنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ حق اسے نہیں دیا گیا، یعنی اس پارٹی کو جس نے مشرقی پاکستان کے شہریوں کا قطعی مینڈیٹ حاصل کیا تھا۔ یہ حق تلفی تھی، جو بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی۔ اس معاملے میں کل ذمے داری پیپلز پارٹی پر عائد ہوتی ہے، جس نے عوامی لیگ کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا۔

اس ضمن میں کچھ باتیں خود بولتی ہیں، اور ابھی تک چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی ہیں کہ ہمیں سنو، اور سمجھو کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کس نے بنایا۔ لیکن پاکستان کے سیاسی مکالمے میں یہ باتیں، صدا بصحرا بنی ہوئی ہیں۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو ایک سیاسی مدبر ہوتے، سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرتے، حُبِ اقتدار کی شدت کو ذرا اعتدال میں لاتے، دل بڑا کر کے عوامی لیگ کا حکومت بنانے کا حق تسلیم کرتے، اور مجیب الرحمٰن کے ساتھ حکومت بنانے میں تعاون کرتے تو بنگلہ دیش آج بھی مشرقی پاکستان ہوتا۔ نیتوں کی پردہ پوشی مشکل ہوتی ہے، اس وقت کے اخبارات نکال کر دیکھیے۔ جو کچھ اس سانحے پر لکھا گیا ہے، اس پر نظر ڈالیے، واضح ہو جائے گا کہ مشرقی پاکستا ن کے شہریوں کے مینڈیٹ کو کیسے، کیوں اور کس نے پامال کیا۔

اُس وقت عوامی لیگ پر، اُس کے رہنماؤں پر طرح طرح کے الزام عائد کیے گئے۔ انھیں غدار اور پاکستان دشمن قرار دیا گیا، اور بعد میں وہاں فوج کشی کر دی گئی۔ آج بلوچستان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ اسی طرح کے الزام لگائے جا رہے ہیں، اور اسی انداز کی فوج کشی ہو رہی ہے۔ ہر ذمے دار شہری کو تشویش لاحق ہے کہ کیا بلوچستان میں حالات بنگلہ دیش بننے کی طرف تو نہیں جا رہے۔ کچھ چیزوں سے ان اندیشوں کو تقویت بھی ملتی ہے: جیسا کہ جب جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو بلوچستان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؛ اور آج جبکہ وہاں حالات پھر قابو سے باہر ہو رہے ہیں تو پیپلز پارٹی ہی برسرِ اقتدار ہے۔ بلکہ بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی کی ہی حکومت ہے۔ یہ کیسی حکومت ہے، اور کہاں تک کامیاب ہے، بلوچستان میں ہر لمحہ خراب تر ہوتے حالات اس کی گواہی خود دے رہے ہیں۔

پانچ سال ہونے کو آرہے ہیں، اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے باقی مسائل کی طرح بلوچستان کے بحران کے تصفیے کے لیے بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور اپنا گھر بھرنے میں لگی ہوئی ہے، اور جس طرح متعدد معاملات میں سپریم کورٹ کو دخل در معقولات کا مجرم بننا پڑا، اس معاملے میں بھی سپریم کورٹ، ایک بڑی امید بن کر سامنے آیا ہے۔ یقیناً آج میڈیا میں بھی ایک ایسا با ضمیر حصہ موجو د ہے، جو اس بڑی امید کو توانا بنا رہا ہے۔ یہ دونوں کوشش کرر ہے ہیں کہ حکومتِ وقت کو جگائیں، اسے اپنی ذمے داری کا احساس دلائیں، تاکہ حالات اس سمت میں نہ جانے پائیں، اقتدار کی بھوک میں جس طرف مشرقی پاکستان کو دھکیل دیا گیا تھا!

[یہ کالم 6 اکتوبر 2013 کو روزنامہ مشرق پشاورـ اسلام آباد میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں