بدھ، 11 ستمبر، 2013

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ـ تردید کا تماشا

آج، اگلے روز ہی پاکستان ٹیلی کام اتھاریٹی کی طرف سے اخبارات میں گذشتہ روز شائع ہونے والی خبر کی تردید آ گئی ہے۔ مگر یہ واضح رہے کہ پاکستان میں بالخصوص ریاستی ادارے اور حکومت جن باتوں کی تردید کرتی ہے، وہ تردید بذاتِ خود ایک خبر بن جاتی ہے، کیونکہ اس میں اسی بات کو گھما پھرا کر کہنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کی تردید مقصود ہوتی ہے۔

یہ تردید ملاحظہ کیجیے:


[روزنامہ ’’جنگ‘‘ 31 اگست، 2013]

اس تردید میں سیل فون پیکیجز پر پابندی کی ذمے داری دوسروں پر ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی ہے، جن میں سپریم کورٹ، پارلیمان کی قائمہ کمیٹیاں، سینیٹرز، اور صوبائی و قومی اسیمبلیوں کے ارکان شامل ہیں۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ یہ سب ادارے اور خاص افراد، اخلاقی اقدار پر خود کتنا عمل کرتے ہیں۔ اور کیا انھیں یہ سوچنے اور دیکھنے کے علاوہ اورکوئی کام نہیں کہ لوگ کس وقت فون کر رہے ہیں، اور کس وقت پیغامات بھیج رہے ہیں۔

پاکستان میں اخلاقیات اصل میں دوسروں کی اخلاقیات پر نظر رکھنے کا نام ہے!

آج کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ہی ایک اور ’’مصالحے دار‘‘ گھڑی ہوئی خبر بھی درج ہے:


سوال یہ ہے کہ عاشقوں نے یہ شدید احتجاج کہاں کیا، اور یہ کونسے والدین ہیں، جنھوں نے نائیٹ پیکیجز کی بندش پر سکھ کا سانس لیا ہے۔ یہ خبر محض رپورٹر اور متعلقہ ایجینسی کے دماغ کی اختراع معلوم ہوتی ہے۔

اورجہاں تک والدین کی بات ہے، تو ایسے والدین کا کردار خود مشکوک ہے، جو اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت نہیں کر سکتے، اور انھیں ’’رات  کی مصروفیات‘‘ سے روک نہیں سکتے۔

تف ہے ایسے والدین پر جنھیں اپنی اولاد کی تربیت کے لیے ریاست اور حکومت کی طاقت درکار ہے!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں