پیر، 9 ستمبر، 2013

ایک اور عظیم دھوکہ

[نوٹ: یہ تحریر ’’اردو بلاگ ـ سب کا پاکستان‘‘ کے لیے 26 دسمبر 2011 کو لکھی اور پوسٹ کی گئی۔ تحریکِ انصاف کے مظہر کے بارے میں آج بھی میری رائے یہی ہے!]

پاکستان کے شہریوں کے ساتھ ایک اور عظیم دھوکہ ہونے جا رہا ہے!

پہلا عظیم دھوکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی صورت میں شروع ہوا تھا، اور ابھی تک جاری و ساری ہے۔ اور پاکستان کے شہریوں کی ایک معتدبہ تعداد ابھی تک اس دھوکے سے باہر نکلنے پر راضی نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کی بنیاد 1967میں رکھی گئی تھی۔ جو خواب اس وقت پاکستان کے شہریوں کو دکھائے گئے تھے، وہ آج تقریباً پینتالیس سال بعد بھی پورے نہیں ہوئے ہیں ۔ پورے ہونے کی بات تو چھوڑیں، ان کا عشر ِ عشیر بھی شرمندہ ءتعبیر نہیں ہوا۔ ہاں، اس عرصے میں کیا ہوا، بہت سے مہم جو لیڈر بن گئے ۔ نہ صرف لیڈر بن گئے بلکہ پیسے والے اور صاحب ِ حیثیت بھی بن گئے ۔ ان کے گھر بھرے گئے ۔ کاروبار جم گئے ۔ مگر پاکستان کے شہری وہیں کے وہیں ہیں ۔ انھیں پارٹی اور اس کی حکومتوں نے کیا دینا تھا، انھیں با عزت طریقے سے زندہ رہنے کا حق بھی نہیں مل سکا ۔ ان کے ساتھ جو کچھ 1967 میں، اور اس سے پہلے ہو رہا تھا، وہی کچھ آج بھی ہو رہا ہے ۔

 اب دوسرا دھوکہ پاکستان تحریک ِ انصاف کی شکل میں سامنے آرہا ہے ۔ وہی خواب دکھائے جا رہے ہیں ۔ یہ ہو جائے گا ۔ وہ ہو جائے گا ۔ بس یہ کہا، وہ ہو گیا ۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔ پل کے پل میں ٹھیک ہو جائے گا ۔ کیسے ہو گا ۔ کیونکر ہوگا ۔ کچھ پتہ نہیں ۔ دھوکہ دینے والوں کو بھی پتہ نہیں ۔ دھوکہ کھانے والوں کو بھی پتہ نہیں ۔ دھوکہ کھانے والوں کی تو جیسے نظر باندھ د ی گئی ہے ۔ دکھانے والے جو دکھا رہے ہیں، وہ وہی دیکھ رہے ہیں ۔ کوئی یہ نہیں پوچھ رہا ۔ کیا ہو گا ۔ کیسے ہو گا ۔ کون کرے گا ۔ کیسے کرے گا ۔ کیونکر کرے گا ۔

لوگ پھر سے وہی پرانا دھوکہ کھانے کے لیے تیار نظر آرہے ہیں ۔ جوق در جوق تحریک ِ انصاف کے جلسوں کی زینت بن رہے ہیں ۔ کسی کی دکان سجا رہے ہیں ۔ کسی کے خواب پورے کررہے ہیں ۔ بہت بھولے ہیں یہ لوگ ۔ مجھے ان پر ترس نہیں آرہا، بلکہ اس دن اور اس وقت سے ڈر لگ رہا ہے، جب یہ سب خواب چکنا چور ہو ں گے ۔ پھر کیا ہوگا؟ جب اس ملک میں لاکھوں کروڑوں شیشے یکدم ٹوٹیں گے تو کتنی کرچیاں اور کہاں کہاں بکھریں گی ۔ اور کون کون زخمی ہوگا ۔ کب تک زخمی ہوتا رہے گا ۔ یہ زخم کبھی بھریں گے بھی یا نہیں ۔ لاکھوں کروڑوں شیشے ٹوٹنے کی صدائیں کہاں کہاں تک بازگشت پیدا کریں گی ۔ کتنے کانوں کے پردوں کو پھاڑیں گی ۔ کتنے کلیجے چیریں گی ۔ بہت خوفناک منظر ہو گا ۔ موت کے منظر سے بھی خوفناک منظر ۔  لیکن کوئی بھی تیا ر نہیں، یہ منظر سوچنے کے لیے ۔ یہ منظر تخئیل میں دیکھنے کے لیے ۔

میری یہ باتیں، یا اور دوسرے لوگ جو ایسی ہی باتیں کہہ رہے ہیں، ان کی باتیں کون سنے گا، بلکہ مجھ سمیت ان سب کو کوسا جائے گا ۔ ہدف بنایا جائے گا ۔ بس ایک دھن سوار ہے ۔ جیسے ایک نوجوان کہیں محبت کر بیٹھتا ہے اور شادی کرنے پر اتارو ہے ۔ اسے لاکھ سمجھائیں، وہ سمجھ پا کر نہیں دے گا ۔ وہ اپنی ضد پوری کر کے رہے گا ۔ یا اپنی ضد ویاہ کر رہے گا ۔ کرلینے دیں، اسے اپنی ضد پوری۔ ویاہ لینے دیں، اسے اپنی ضد ۔ دیکھیں ہنی مون کتنے دن کا ہوتا ہے ۔ پر ابھی تو تاریخ بھی نہیں ملی ہے ۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک!


آخری الفاظ یہ کہنا چاہوں گا کہ پہلا عظیم دھوکہ ایک ”عوامیتی فاشزم“ (پاپولِسٹ فاشزم) کی صورت میں آج تک بھگتا جا رہا ہے ۔ یہ دوسرا عظیم دھوکہ جس کا منہ متھا ’’لبرل فاشزم‘‘ سے ملتا جلتا لگ رہا ہے، دیکھیں کب تک بھگتنا پڑے!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں