پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی مسائل کی نوعیت انتہائی حیران کن ہے۔ آئیے ذرا اخبارات کے آئینے میں پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ، مثلاً، پاکستان کے اہم ترین مسائل کونسے ہیں۔ گذشتہ ہفتے کے آغاز میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری نہ صرف لاہور وارد ہوئے، بلکہ یہاں قیام پذیر بھی رہے۔ انھوں نے فرمایا: ’میں نے وعدہ کیا تھا کہ لاہور میں بیٹھوں گا۔ اب میں نے لاہور میں ڈیرہ جما لیا ہے، اور یہ وعدہ پورا ہو گیا۔‘ انھوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا: ’ہم کسی کو برا بھلا کہنے کی سیاست نہیں کرتے۔ بولنے کا کیا فائدہ۔ ہم عملی اور تکنیکی طور پر کام کرتے ہیں۔‘ اس ضمن میں اگلے روز اخبارات نے یہ خبر شائع کی کہ میڑو بس کی افتتاحی تقریب کے موقعے پر نوازشریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’وہ کسی پر تنقید نہیں کرنا چاہتے۔ اللہ تعالیٰ ”انکو“ بھی ہدایت دے۔‘
انہی دنوں، ایک اور موقعے پر صدر زرداری نے کہا: ’لاہور میں گھر بن گیا ہے۔ اب انشاء اللہ لاہور آنا جانا لگا رہے گا۔‘ اس اثنا میں اخبارا ت میں یہ رپورٹیں شائع ہوئیں کہ صدر زرداری کے سٹاف کی جانب سے گذشتہ دو روز میں چار مرتبہ پاکستان مسلم لیگ (ن) سے رابطے کے باوجود صدر زرداری اور نواز شریف ملاقات طے نہیں ہو سکی۔ صدر زرداری، نواز شریف کے بھائی عباس شریف کی وفات پر تعزیت کے لیے رائے ونڈ جانا چاہتے تھے۔ اخبارات کے مطابق صدر زرداری کی لاہور آمد کے بعد صدر کے اے- ڈی- سی سمیت صدارتی سٹاف نے مسلم لیگ (ن) کے اکابرین سے رابطہ کیا اور صدر زرداری کی جانب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ عباس شریف مرحوم کی تعزیت کے لیے آنا چاہتے ہیں، جس کے جواب میں یہ کہا گیا کہ ہم اس کے بارے میں بعد میں بتائیں گے۔
صدر زرداری کی نواز شریف سے ملاقات کی اس خواہش کے حوالے سے اخبارات اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ خیال بھی سامنے آیا کہ مسلم لیگ (ن) یہ سمجھتی ہے کہ انتخابات سر پر ہیں اور اس وقت صدر زرداری کی نواز شریف سے ملاقات کا نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہو گا۔ پھر اس ملاقات سے اس الزام کو تقویت ملے گی کہ پانچ سال سے حکومت اور حزبِ اختلاف مل کر چل رہے ہیں۔ ان تجزیات کے جواب میں بلاول ہاؤس کے ذرائع کے حوالے سے یہ رپورٹیں شائع ہوئیں کہ صدر زرداری، نواز شریف کے ساتھ صرف تعزیت کے لیے رائے ونڈ جانا چاہتے تھے؛ اس میں کسی سیاسی فائدے کا کوئی پہلو پیشِ نظر نہیں تھا۔ بلکہ تعزیت کے لیے رائے ونڈ جانا، صدر زرداری کے ایجینڈے میں پہلے دن سے شامل تھا۔ جس دن صدرزرداری لاہور آئے، نواز شریف اسی روز نوشہرو فیروز چلے گئے۔ اخبارات نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ صدر زرداری اس روز بھی رائے ونڈ جانا چاہتے تھے، جس دن لاہور میٹرو بس سروس کا افتتاح ہوا، اور نواز شریف اس افتتاح کے باعث مصروف رہے۔ پھر اگلے روز نواز شریف جلسۂ عام سے خطاب کے لیے رحیم یار خان چلے گئے۔
اخبارات نے ان خدشات کا اظہار بھی کیا کہ چونکہ نواز شریف، صدر زرداری سے ملنے سے گریزاں ہیں، اس لیے وہ اپنی مصروفیات لاہور سے باہر رکھ رہے ہیں۔ پھر اخبارات نے بلاول ہاؤس کے ذرائع کے حوالے سے یہ بھی بتایا کہ جب تک صدر زرداری کو رائے ونڈ آنے کی دعوت نہیں ملے گی، وہ اس وقت تک رائے ونڈ نہیں جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کے حوالے سے یہ رپورٹیں سامنے آئیں کہ انہیں صدر زرداری کے تعزیت کی غرض سے رائے ونڈ جانے سے متعلق تاحال کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ان ذرائع کا یہ کہنا بھی تھا کہ دونوں جماعتوں کے لیے سیاسی ملاقات ضروری نہیں۔
انہی دنوں اخبارات نے بتایا کہ نواز شریف لاہور میں بریگیڈیئر انعام (ریٹائرڈ) کی وفات پر ان کے اہلِ خانہ سے تعزیت کے لیے گئے۔ وہاں انھوں نے میڈیا سے بات چیت بھی کی۔ ایک سوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا: ’صدرآصف علی زرداری نے میاں عباس شریف کی وفات کے دس دن بعد فون کر کے تعزیت کر لی تھی۔‘ تاہم ، اخباری رپورٹوں کے مطابق انھوں نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا کہ آصف علی زرداری اور ان کے درمیان رابطے کی راہ میں مسائل حائل ہیں۔ اس کے اگلے ہی دن اخبارات نے یہ رپورٹیں شائع کیں کہ صدرزرداری نے بلاول ہاؤس لاہورمیں ملاقاتیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’نواز شریف نے میری طرف سے اپنے بھائی عباس شریف کی وفات پر تعزیت کے لیے ملاقات کی خواہش قبول نہیں کی۔ حالانکہ میں ہی وہ شخص ہوں، جس نے جینرل مشرف کے ہاتھوں نواز شریف کو تختۂ دار پر لٹکنے سے بچایا۔ جینرل مشرف، نواز شریف کو سزا دلوانے کا فیصلہ کر چکے تھے اور وہ اس کے لیے فوج کا پلیٹ فارم استعمال کر رہے تھے۔‘
اس موقعے پر صدرزرداری نے مزید کہا: ’جینرل پرویز مشرف نے طیارہ سازش کیس میں نواز شریف کو سزا دلوانے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے اس وقت کے جج جسٹس (ریٹائرڈ) رحمت حسین جعفری پر بہت دباؤ ڈال رکھا تھا۔ جیل میں نواز شریف سے میری دوستی ہو چکی تھی۔ عدالت میں پیشی پر ان سے ملاقات ہو جاتی تھی۔‘ صدر زرداری نے تفصیلات سے پردہ اٹھاتے ہوئے میڈیا کو بتایا: ’میں تو جیل میں بیٹھ کر بھی اگر کچھ کہہ دیتا کہ ایسا ہو گا تو وہ ہوتا تھا۔ میرا جسٹس (ریٹائرڈ) رحمت حسین جعفری کے ساتھ تعلق تھا۔ جب مجھے بھنک ملی کہ نواز شریف کو سزائے موت سنانے کے لیے جینرل مشرف کا جج رحمت حسین جعفری پر بہت دباؤ ہے تو اس پر میں نے فوری طور پر رحمت حسین جعفری کو پیغام بھیجا کہ کسی صورت ایسا فیصلہ نہ کرنا۔ اگر آپ سندھ کے بیٹے ہیں تو کسی دباؤ میں فیصلہ نہ کرنا اور ایسا فیصلہ نہ کرنا، جس کے اثرات ہم پہلے ہی آج تک بھگت رہے ہیں۔ نواز شریف کے خلاف فیصلہ میرٹ پر کرنا۔ جس پر رحمت حسین جعفری نے سزائے موت نہ سنائی۔‘
ابھی پاکستان کی ان دو بڑی پارٹیوں کے درمیان پاکستان کے اہم مسائل کے حوالے سے مذکورہ بالا ”مذاکرات“ جاری تھے کہ ا ن میں ایک اور اہم معاملے کا اضافہ ہو گیا۔ پاکستان کے اہم مسائل سے متعلق ہونے والی گفتگو میں پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنا بیٹ اڑا دیا۔ انھوں نے رابطۂ عوام مہم کے سلسلے میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، گوجرہ اور کمالیہ میں کئی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’حکومت کی بدحواسی ظاہر کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کرپٹ حکمرانوں کی بداعمالیوں پر سووموٹو نوٹس لے لیا ہے۔ اور قوم کو بہت جلد لٹیروں سے نجات حاصل ہونے والی ہے۔‘ انھوں نے مزید ارشاد فرمایا: ’ہم ایک نیا پاکستان بنانے کے لیے نکلے ہیں۔ ایک ہی گیند سے نواز شریف اور زرداری کو آؤٹ کر دوں گا۔‘
پاکستان کے شہریوں کو اپنے حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں کا مشکور، بلکہ ہمیشہ مشکور رہنا چاہیے کہ وہ پاکستان کو درپیش اہم سیاسی مسائل سے بے خبر نہیں؛ اوران پر پوری تندہی اور سنجیدگی سے متوجہ ہیں۔ شہریوں کو پاکستانی میڈیا کا بھی احسان مند رہنا چاہیے کہ وہ نہ صرف ان اہم مسائل کی نشاندہی کرتا ہے، بلکہ ان پر فرض شناسانہ توجہ بھی مرکوز رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں، پاکستان کے شہریوں کو یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ دو بڑی پارٹیاں اور ان کے رہنما، صدر زرداری اور نواز شریف ملاقات کے جس مسئلے پر غور و فکر کر رہے ہیں، اس پر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بحث کی جائے۔ پورے پاکستان میں سیمینار، ورکشاپس، اور مذاکرے بھی منعقد کیے جائیں، جن میں صدر زرداری اور نواز شریف ملاقات کے مسئلے پر کھل کر بحث کی جا سکے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ طویل دورانیے کے پروگرام تیار کرے، جو اس ملاقات کے مسئلے پر ماہرین کے نقطۂ نظر کو سامنے لائیں۔ سول سوسائیٹی تنظیموں کو بھی متذکرہ بالا مسئلے کے حوالے سے پریس بریفنِگ، کارنر میٹنگز، واک، وِجل، اور اسی طرح کی دوسری سرگرمیاں منظم کرنی چاہئییں۔ خود میرا خیال ہے کہ جب تک نواز شریف اپنے بھائی عباس شریف کی وفات کی تعزیت کے لیے، صدر آصف علی زرداری کو رائے ونڈ نہ بلائیں، تب تک یہ تمام سرگرمیاں، ایک تحریک کی صورت میں، جاری رہنی چاہیئیں! اتنے بڑے مسئلے کے حل کے لیے یک جان ہو کر کوشش کرنا تمام پاکستانیوں کا قومی فریضہ ہے!
[یہ کالم 20 فروری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں