پیر، 16 ستمبر، 2013

عرفان صدیقی اور حلوائی کی دکان

عرفان صدیقی کہنہ مشق کالم نگار ہیں۔ رائے بنانے اور پھر اس کے اظہار میں سنجیدگی کو ہاتھ سے نہیں دیتے۔

تاہم، بعض اوقات اور بعض مقامات پر ان کی اردو اُکھڑی اُکھڑی معلوم ہوتی ہے! اور کبھی کبھی ایسی کوتاہیاں منہ چڑاتی دکھائی دیتی ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ بات یہ ہے کہ جب کوئی لکھنے والا شہرت پا لیتا ہے اور بہت زیادہ پڑھا جانے لگتا ہے تو اس پر ذمے داری کا بوجھ اتنا ہی بڑھ جاتا ہے۔ اگر وہ غلط زبان لکھ رہا ہے، غلط دلائل دے رہا ہے، تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ غیرمحسوس انداز میں اپنے قارئین کی ’’غلط تربیت‘‘ کر رہا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ جب ہم کوئی کام کرتے ہیں تو ہمیں اس کی بنیادی شرائط اور تقاضے نظر انداز نہیں کرنے چاہیئیں۔ خواہ کوئی کالم لکھ رہا ہے، یا ناول، زبان سے بے توجہی برتنا قابلِ معافی نہیں ہو سکتا۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ غلطی ہر کسی سے ہو سکتی ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا غلطی کو باربار دہرایا جاتا ہے، یا اس کی تصحیح کر لی جاتی ہے۔

اب مجھے یاد نہیں رہا، عرفان صدیقی کا یہ کونسا کالم تھا، جس میں یہی غلطی موجود تھی، جس کا ذکر آج اس پوسٹ میں مقصود ہے۔

کل (15 ستمبر) کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ان کا جو کالم چھپا ہے، اس میں ایک مرتبہ پھر اسی غلطی کو دہرایا گیا ہے۔  بلکہ ان کے اس کالم کا عنوان ہی ’’حلوائی کی دکانیں‘‘ ہے۔

پہلے ان کا جملے ملاحظہ کیجیے:

’’دنیا بھر کی صف اول کی ایئر لائنز کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ایک ہوائی جہاز کے لیے ہر نوع کے عملے کی مجموعی تعداد ایک سو بیس افراد کے لگ بھگ ہے۔ پی آئی اے کے ایک علیل طیارے کے لیے سات سو افراد کا عملہ بھرتی کیا گیا ہے۔ حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ کے اس افسوسناک رجحان کے باعث پی آئی اے کو 36 ارب روپے سالانہ کے خسارے کا سامنا ہے۔‘‘


اردو کی کہاوت یا مثل ہے: حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ

آئیے ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں:

’’حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ۔ کہاوت۔ پرائے مال کو اپنا سمجھ کر صرف میں لانے یا غیر کا مال بیدریغ صرف کرنے کے موقع پر بولتے ہیں۔‘‘

’’نوراللغات‘‘:

’’حلوائی کی دکان دادا جی کی فاتحہ۔ مثل۔ پرائے مال کو اپنا سمجھ کر صرف میں لانے یا غیر کا مال بیدریغ صرف کرنے کے موقع پر بولتے ہیں۔ گرہ کا کچھ خرچ نہیں ہوتا۔‘‘

یعنی اس مثل میں نانا جی کا کوئی کام نہیں۔ حلوائی کی دکان ہو تو فاتحہ دادا جی کی پڑھی جاتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں