بدھ، 25 ستمبر، 2013

ڈاکٹر صفدر محمود اور حبیب جالب کے ایک مصرعے کی گت

اب آتے ہیں آج کے ’’جنگ‘‘ میں شائع ہونے والے کالموں کی طرف۔ ان سب کو پڑھنے کے لیے اور پھر ان پر رائے زنی کے لیے بہت وقت درکار ہو گا۔ سرسری انداز میں دیکھنے سے جو چیز فوراً نظر میں آئی، وہ ہے ایک کالم کا عنوان۔

عنوان یہ ہے: ’’زندہ ہیں، یہی بڑی چیز ہے پیارے‘‘

پہلے میں نے سوچا کہ یہ کتابت یا کمپوزنگ کی غلطی ہو گی۔ یہی دیکھنے کے لیے میں نے پورا کالم دیکھ ڈالا۔ کالم کے آخر میں یہ الفاظ درج ہیں:

’’زندہ ہیں، یہی بڑی چیز ہے پیارے‘‘     

کالم لکھنے والے ہیں ڈاکٹر صفدر محمود۔ یہ ایک نامی گرامی بیوروکریٹ رہے ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے محقق اور مورخ ہیں۔ انھیں ان کی تاریخی کتب پر ’’پرائیڈ آف پرفارمینس‘‘ بھی مل چکا ہے۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ’’صبح بخیر‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔

انھوں نے جس شعر کا ایک مصرع درج  کیا ہے، وہ شعر اس طرح ہے:

اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے

یہ حبیب جالب کی نہایت معروف غزل ہے۔ پوری غزل ملاحظہ کیجیے:

یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے
تابندہ و پائندہ ہیں ذروں کے سہارے

حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے

ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم
ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے

کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غمِ جاناں
کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے

یہ غزل شعروں کی تبدیلی کے ساتھ فلم ’’موسیقار‘‘ (1962) میں شامل کی گئی تھی۔ موسیقار رشید عطرے تھے۔ اس غزل کو سلیم رضا نے گا کر امر کر دیا۔

اس اعتراض پر کالم نگار یہ جواب دے سکتے ہیں کہ انھوں نے مصرعے میں تصرف کیا ہے۔ درست ہے کہ کسی شعر یا مصرعے میں تصرف کیا جا سکتا ہے، پر ایسا کرتے ہوئے اس شعر یا مصرعے کا وزن خراب نہیں کیا جاتا۔ اگر مذکورہ مصرعے میں تصرف ہی مقصود تھا تو اسے یوں ہونا چاہیے تھا: زندہ ہیں یہی چیز بڑی چیز ہے پیارے

پھر بھی میرا اعتراض اپنی جگہ قائم ہے۔ ’بات‘ کی جگہ ’چیز‘ سے مصرعے کے مطلب و معنی میں کوئی اضافہ نہیں ہو پاتا، بلکہ مصرعے کی گت بن جاتی ہے۔ یہ حبیب جالب اور شاعری کی روح دونوں کے ساتھ بد مذاقی بھی ہے!

[نوٹ: یہ پوسٹ 11 ستمبر کو شائع ہونے والی ایک طویل پوسٹ، ’’آج کااخبار اور پاکستان کی حالتِ زار‘‘ کا ایک حصہ ہے۔] 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں