اتوار، 8 ستمبر، 2013

پرانے کالم: عدم تحفظ کا احساس

سمت کو ئی محفوظ نہیں ہے
قدم قدم پر خطرہ ہے
یکدم کچھ بھی ہو سکتا ہے
کوئی بھی آفت آ سکتی ہے

اک لمحہ بھی غافل ہونا
موت کو دعوت دے سکتا ہے

پھنکاریں، چنگھاڑیں ہیں
اور کلیجہ چیر کے رکھ دینے والی آوازیں

حشراتِ ارضی کا مسکن
اور درندوں کا ڈیرہ ہے

انسانوں کا نام نہیں
سانپ اور بچھو
ریچھ اور چیتے بستے ہیں

زہریلے خودرو پودوں سے اٹا ہوا ہے
شہر نہیں یہ جنگل ہے
پھونک پھونک کے پاﺅں رکھو
بچ بچ کے چلو!

ہمارے معاشرے میں عدم تحفظ کا احساس شدید ہوتاجا رہا ہے۔ لوگ ایک مطمئن اور آسودہ زندگی کا انداز اور مفہوم بھولتے جا رہے ہیں۔ اس صورتِ حال کا بڑا سبب لاقانونیت ہے۔ چونکہ قانون لوگوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے، لہٰذا، وہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی سہاروں پر انحصار کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ نئی نئی پناہ گاہیں تراشی جارہی ہیں۔ غیر قانونی اسلحہ اور قانون سے انحراف نہ صرف عام ہو رہا ہے، بلکہ ایک چلن بنتا جا رہا ہے۔ لوگ تحفظ کے لیے سرکاری و سیاسی حیثیت داروں سے تعلق قائم کرنا ضروری جاننے لگے ہیں۔ یا پھر وہ کسی سیاسی و مذہبی تنظیم یا جماعت میں شمولیت کو ناگزیر سمجھتے ہیں، یا خود کوئی تنظیم وغیرہ کھڑی کر لینے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ لیکن کروڑوں افراد میں سے کتنے لوگ ایسے ہوں گے، جو اس طرح کا تحفظ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد یقیناً کہیں زیادہ ہے، جو بے سہارا اور بے بس ہیں۔ کوئی ایم- این- اے، ایم- پی- اے، سینیٹر یا بڑا سرکاری اہلکار ان کا عزیز نہیں۔ پولیس افسران اور عدلیہ میں ان کی کوئی تعلق داری نہیں۔ ان کی اپنی کوئی نمایاں حیثیت نہیں۔ یہ عام شہری ہیں۔

ان عام شہریوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ چوروں، ڈاکوﺅں سے لے کر سرکاری اداروں کے اہلکار اور پولیس تک ان کے درپے ہے۔ حقیقتاً یہ لوگ لاقانونیت کا شکار ہیں۔ اس کا ثبوت کھلی کچہریوں میں پیش کی جانے والی درخواستیں اور فریادیں ہیں۔

پیشہ ور چوروں، ڈاکوﺅں، قاتلوں کی تعداد، پولیس اور سرکاری اہلکاروں سے بلاشبہ بہت کم ہے؛ اور موخرالذکر لوگ حکومت اور قانون کی دسترس میں بھی ہیں۔ اسی لیے انہیں قانون کے دائرے میں لانا قدرے آسان بھی ہے۔ یہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برت رہے ہیں اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں۔ مراد یہ کہ اگر یہ لوگ عام شہریوں کے لیے آسانیوں کے بجائے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں، اور انھیں اذیت سے دوچار کر رہے ہیں، تو ضروری ہے کہ ان سے عام نہیں بلکہ کسی خاص قانونی انداز میں نبٹا جائے۔ ایسے افراد کے لیے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ جس طرح ہم ایک خطیب سے، یا ایک منصف سے زیادہ راست بازی اور زیادہ دیانت داری کی توقع کرتے ہیں، اسی طرح ان افراد سے بھی فرائض کی بجاآوری کی زیادہ توقع بجا ٹھہرتی ہے اور کوتاہی کی صورت میں زیادہ باز پرس کی بھی۔

عام شہریوں میں تحفظ کا احساس بحال کرنے کے لیے ایسے افراد پر قانون کا فوری اور نتیجہ خیز نفاذ اشد ضروری ہے، جو قانون بناتے ہیں، جو قانون کے محافظ ہیں اور قانون نافذ کرتے ہیں۔ اس طرح اگر ان افراد کی کارکردگی میں کچھ بہتری پیدا ہو جاتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون کے دائرے سے باہر غیر قانونی سرگرمیوں اور لاقانونیت میں بھی کمی آ گئی ہے۔ اس بات کو عمومی طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی قانون بنانے والا، قانون سے رو گردانی کرتا ہے اور قانون کے محافظ اپنے فرائض کی بروقت ادائیگی کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والوں کی مدد سے اسے قرار واقعی سزا دے دیتے ہیں، تو یوں دوسروں کے لیے بھی ایک مثال قائم ہو جائے گی۔ یا خصوصی طور پر یہ کہ پولیس عام شہریوں کو تنگ کرنے کے بجائے قانون کے مجرموں کا نا طقہ بند کرنے پر مستعد ہو جائے گی اور اس طرح لوگوں کو ”قانونی“ اور ”غیر قانونی“، دونوں طرح کے غنڈوں سے تحفظ مل سکے گا۔

بلاشبہ، ہر حکومت لاتعداد مسائل و مشکلات سے دوچار ہوتی ہے، لیکن یقیناً ہر حکومت کی اولین ترجیح نہ صرف قانون کا ”بلاامتیاز“ نفاذ، بلکہ قانون کے مذکورہ بالا متعلقین پر قانون کا زیادہ کڑا نفاذ ہونی چاہیے۔ عام شہریوں میں احساسِ تحفظ کی بحالی کے لیے ’قانون کی موثر حکومت‘، ایک ناگزیر شرط ہے۔ اور اگر ایک حکومت لوگوں میں تحفظ کا احساس پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے، تو وہ بہت مدت کے لیے لوگوں کا دل جیت سکتی ہے۔ کیونکہ مطمئن زندگی کے لیے تحفظ کا احساس، غربت اور بے مائیگی کے احساس سے زیادہ اہم ہے۔ انسان غریبی کاٹ سکتا ہے، لیکن بے یقینی اور خوف کی فضا اسے رفتہ رفتہ ختم کر دیتی ہے، یا حیوان بنا دیتی ہے!

[یہ کالم 21 مارچ 1999 کو لکھا گیا اور ہفت روزہ ’’زندگی‘‘، شمارہ 11 تا 17 اپریل 1999 میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں