جمعہ، 6 ستمبر، 2013

زندگی سے محبت کی تاریخ

خیال کریں کہ قدیم انسان زندگی کو کیسے سمجھتا، اور اس کے بارے میں کیا تصور رکھتا ہو گا۔ زندگی کی قدر و قیمت کا احساس پیدا ہونے میں کچھ وقت تو لگا ہو گا۔ پہلے پہل تو اسے اپنے وجود کو زندگی سے علاحدہ کر کے سمجھنے میں مشکل پیش آئی ہو گی۔ جیسے حیوان زندہ تو ہوتے ہیں، مگر زندگی کا ادراک نہیں رکھتے۔ کچھ اسی طرح کی صورت ابتدائی انسانوں کے ساتھ رہی ہو گی۔ پھر جوں جوں عقل و شعور کو ترقی ملی، انسان خود کو ایک زندہ ہستی کے طور پر جاننے اور پہچاننے لگا ہو گا۔ اب وہ خود ایک زندہ وجود بھی ہو گا، اور ایک شعوری وجود بھی، جو اس زندہ وجود کو دیکھ سکتا ہو گا، سن سکتا ہو گا، محسوس کر سکتا ہو گا، اور اس زندہ وجود پر حیران بھی ہوتا ہو گا۔ اب وہ خود اپنے وجود کو تصور کر سکتا ہو گا۔

یہ سوچنا اتنا محال نہیں کہ انسا ن کو موت کا احساس کب اور کیسے ہوا ہو گا۔ ابھی جب تک وہ اپنے وجود کو علاحدہ محسوس کرنے کے قابل نہیں تھا، تب تک موت آتی ہو گی، اور گزر جاتی ہو گی۔ پر اس مرحلے پر بھی یہ کچھ نہ کچھ اثرات تو چھوڑ جاتی ہو گی۔ جیسے جانوروں میں موت کے تاثرات سے متعلق تحقیقات کی گئی ہیں۔ ان میں سے ہاتھیوں کے بارے میں خاصی معلومات موجود ہیں کہ وہ کس طرح ایک دوسرے کی موت کو محسوس کرتے اور کس طرح اور کب تک اس کا دکھ مناتے ہیں۔ (اس ضمن میں ایک کتاب، ”جب ہاتھی اشک بہاتے ہیں - حیوانوں کی جذباتی حیات“ اہم ہے۔) کچھ ایسا ہی واقعہ ابتدائی انسانوں کے ساتھ پیش آیا ہو گا۔ کسی کے مرنے پر، یا کسی ایسے ساتھی کے مرنے پر جو بہت قریب اور پاس رہا ہو، عجیب سی حالت ہو جاتی ہو گی، اور ایک بے چینی اور ناآسودگی تنگ کرتی ہو گی۔ جہاں تک مرنے والے کا تعلق ہے، تو اسے جانکنی کے ساتھ ایک عجیب حیرانی گھیر لیتی ہو گی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

سو ہوا یہ ہو گا کہ جب کوئی مرتا ہو گا تو پہلے تو یہ چیز سمجھ ہی نہیں آتی ہو گی۔ لیکن یہ بات اتنا قرینِ قیاس نہیں۔ ابتدائی انسانوں نے حیوانوں کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھ لیا ہو گا۔ وہ یہ جانتے ہوں گے کہ جس طرح ایک عرصہ زندہ رہ کر، یا کسی حادثے کا شکار ہو کر حیوان مر جاتے ہیں، اسی طرح موت، انسا ن کے ساتھ بھی لگی ہوئی ہے۔ اپنی زندگی گزار کر انسان بھی مر جاتا ہے، زندہ نہیں رہتا۔ پوری عمر گزار کر قدرتی موت مرنے والے انسانوں سے بھی، اس نے بہت کچھ سیکھا ہو گا۔ اور پھر جیسا کہ ابتدائی انسان کی زندگی محفوظ و مامون نہ تھی، بلکہ ہر لمحہ خطرے کا شکار رہتی تھی، تو ابتدائی انسان نے اس حادثاتی، ناگہانی موت سے بھی موت کے بارے میں خاصا کچھ جان لیا ہو گا۔ یعنی یہ کہ انسان کی زندگی یوں بھی ختم ہو سکتی ہے۔

تاہم، موت کے مظہر نے ابتدائی انسان کو جو کچھ سکھایا، اس میں سے نہایت اہم چیز، خود زندگی ہے۔ یعنی موت، زندگی کو ختم کر دیتی ہے۔ مراد یہ کہ زندگی ایسی چیز ہے، جو ختم ہوجاتی ہے، اور جو چیز اسے ختم کرتی ہے، وہ موت ہے۔ مطلب یہ کہ موت نے زندگی کے احساس کو دوچند کیا ہو گا۔ یوں ابتدائی انسان نے یہ جاننے کی کوشش بھی کی ہوگی کہ کیا کیا ہے، جو موت کا پیش خیمہ اور سبب بن سکتا ہے، اور اس سے کیسے بچا جائے۔ یہ زندگی سے محبت کا پہلا سبق تھا۔ کن جانوروں اور قدرتی مظہرات سے بچنا چاہیے۔ کیا چیزیں خوراک بن سکتی ہیں، اور کیا چیزیں نہیں۔ کیا چیزیں زہریلی اور زندگی کو ختم کرنے والی ہیں۔ بیماریاں کیا ہیں، اور کیسے پیدا ہوتی ہیں۔ کیا چیز، کس بیماری کا علاج ہے۔ کس بیماری میں، کس چیز سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اور ایسے ہی لاتعداد سبق، جو زندگی سے محبت کا نتیجہ تھے۔ مراد یہ کہ یوں انسان نے زندگی کو زیادہ محفوظ بنانے کی سعی کی۔

اس ضمن میں یہ نکتہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ زندگی سے محبت، انسان کی فطرت میں ہے۔ بالکل اسی طرح، جیسے یہ محبت، حیوانوں میں بھی موجود ہے۔ زندگی سے اس نوع کی محبت کو جبلت کہا جا سکتا ہے۔ اس مفہوم میں یہ محبت نہیں۔ محبت، وہ ربط و جذبہ ہے، جو عقل و شعور کے حامل انسان کا خاصہ ہے۔ یہ محبت، حیوانوں میں مفقود ہے۔ حیوان تو جبلتاً زندہ رہتے ہیں، اور یہ جبلت ہی ہے، جو انھیں ہرحال میں زندہ رہنے کی جد و جہد میں منہمک رکھتی ہے۔ عقل و شعور کے ارتقا کے بعد انسان، اس دور سے بہت آگے نکل آ یا ہے۔ گو کہ اس میں زندہ رہنے کی جبلت موجود ہے، تاہم، اس نے زندگی کو ایک علاحدہ اور ایک آزاد قدر کے طور پر سوچا، سمجھا اورجانا ہے۔ اس کی قدر و قیمت پہچانی ہے، اور اس سے محبت کرنا سیکھا ہے۔ اسے قابلِ قدر سمجھا اور سمجھنا سیکھا ہے۔ وہ عقلی اور شعوری طور پر زندہ رہتا ہے، یا اس اندازمیں زندہ رہنے کی تگ و تاز سے معمور رہتا ہے۔

زندگی سے انسان کی یہی محبت ہے، جس نے اسے اتنا کچھ کرنا سکھایا۔ اس نے یہ دنیا بنائی، جو آج فطری دنیا سے بالکل جدا اورمختلف ہے، گو کہ وسیع تر فطری دنیا کا حصہ ہے۔ اسے سماج اور معاشرے کا نام بھی دیا جاتا ہے، مگریہ کلی طور پر ایک انسانی دنیا کہلانے کی مستحق ہے۔ پھر یہی نہیں، وہ تمام چیزیں، جن کی مدد سے یہ انسانی دنیا تخلیق ہوئی ہے، وہ سب کی سب، دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ ، زندگی سے انسان کی محبت کا ثبوت بھی ہیں۔ ان میں علوم، سائینس اور ٹیکنالوجی سرِفہرست ہیں۔ ان چیزوں نے انسان کے لیے ایک نہایت محفوظ دنیا تعمیر کی۔ ذرا سوچیے کہ قرونِ وسطیٰ میں انسان کی اوسط زندگی 34 برس تھی، جبکہ آج کی دنیا میں یہ ساٹھ برس، اور ترقی یافتہ دنیا میں کہیں زیادہ ہے۔ یوں انسان کی بنائی ہوئی دنیا نے اس کی زندگی کوطوالت، سکون اور آسودگی سے ہمکنار کیا۔ اس انسانی دنیا کو محض جبلت کا کمال قرار نہیں دیا جا سکتا؛ وگرنہ جبلت پر زندہ رہنے والے حیوانوں نے بھی اپنی کوئی دنیا تخلیق کر لی ہوتی۔ جبکہ انسانوں نے نہ صرف ایک اپنی سی دنیا تراشی، بلکہ اپنی زندگی سے حظ اور تلطف اٹھانے کے لیے لاتعداد سامان بھی ایجاد کیے۔ جیسے کہ ادب، فنون، وغیرہ۔

اس تگ و تاز کے بیچ، انسان کو ایک اور تذبذب نے آتش پا بنائے رکھا۔ وہ اس دنیا کو سمجھنا بھی چاہتا تھا۔ اور اس زندگی کو بھی، جو اس دنیا میں اسے ملی تھی۔ دیکھا جائے تو خود انسان کی یہی زندگی اس کے لیے آگ بھی تھی، جو اسے انگاروں پر لٹائے رکھتی تھی، اور پانی بھی، جو اس آگ کو ٹھنڈا کرتا رہتا تھا۔ یعنی یہ راحت بھی تھی اور اضطراب بھی۔ یوں اس نے اپنی زندگی اور دنیا کو جاننے سمجھنے اور ان کی توجیہہ کرنے کے لیے نت نئے نظریات اور فلسفے وضع کیے۔ پھر ان نظریات اور فلسفوں پر اپنی زندگی کو داؤ پر لگانے لگا۔ ان کی ”سچائی“ پر اپنی زندگی دینے اوردوسروں کی زندگی لینے لگا۔ یوں جو چیز زندگی کی محبت سے برآمد اور اخذ ہوئی تھی، وہ خود زندگی سے زیادہ قابلِ قدر بن گئی۔ پھر ایسے ایسے نظریات اور فلسفے گھڑے گئے جو زندگی کو رد کرنے لگے۔ یہ نظریات اور فلسفے، زندگی کو مستردکرنے، اورموت کو قبولیت بخشنے لگے۔ زندگی کے مقابلے میں موت اعلیٰ تر قدر ٹھہری۔ یعنی یہ کہ ”موت کی محبت“، ”زندگی کی محبت“ پر غا لب آ گئی۔

آخر میں، زندگی سے محبت کی اس تاریخ کے حوالے سے ایک بات کا اظہار ضروری ہے۔ انسان نے بہت مشکل اور صبر آزما مرحلوں سے گزر کر زندگی کی قدرو قیمت کو جانا، اس کی نایابی کو پہچانا، اور اس کی دستیابی کو ایک رحمت گردانا۔ اس کی مثال وہ زریں قول ہیں، جو زندگی کے بارے میں وضع کیے گئے۔ جیسے کہ زندگی ایک بار ملتی ہے۔ یا یہ کہ اگر آپ نے اچھی زندگی گزاری تو آپ نے دو زندگیاں گزاریں۔ مگر انسان، بالخصوص، پسماندہ اور ترقی پذیر دنیا کا انسان، ان باتوں کا احساس کرنے اور یوں زندگی سے محبت کرنے سے قاصر ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے عاری ہے کہ انسان نے جو یہ میلہ سجایا ہے، وہ زندگی کا حاصل بھی ہے اور زندگی کو ایک نئی جہت اور نئے معنی بھی عطا کرتا ہے۔ وہ زندگی، جسے انسان نے صدیوں کی کٹھنائیوں کے بعد زیادہ محفوظ، زیادہ آسان، زیادہ آسودہ حال، زیادہ خوبصورت، اور زیادہ زندہ رہنے کے لائق بنایا ہے، وہ اسی زندگی کو ارزاں سمجھنے لگا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے زندہ انسانوں میں زندگی کی محبت ماند پڑ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس میں زندگی کا قصور ہے، یا انسانوں کا!


[یہ کالم 22 دسمبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں