پیر، 9 ستمبر، 2013

جعل ساز یا قانون ساز

پاکستان میں ”جرم“، ریاست، سیاست اور حکومت کے ساتھ لازم و ملزوم بن گیا ہے۔ جرائم پیشہ سیاست اور جرائم پیشہ حکومتوں نے پاکستان کو جرائم پیشہ ریاست بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس کی تازہ مثال بلوچستان کے انسپیکٹر جینرل پولیس نے مہیا کی ہے۔ انھوں نے حال ہی میں کالعدم جہادی تنظیموں کے رہنماؤں سے اپنی ملاقات کے حوالے سے، جو انھوں نے اپنی مرضی سے نہیں، بلکہ کسی حکم کی تعمیل کے لیے کی ہو گی، ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان روابط کا مقصد جہادی جنگجوؤں کو یہ یقین دلانا ہے کہ پاکستان ان سمیت ہر شہری کا ملک ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ قومی اور صوبائی اسیمبلیوں کے منتخب سیاست دان، اور نمائندہ بننے کے خواہش مند سیاست دان، اس کی سینکڑوں مثالیں مہیا کر چکے ہیں۔

جرم کی اس کہانی کی ابتدا 2002 میں ہوئی۔ جینرل مشرف کی آمریت اور اس کے پروردہ سیاست دانوں نے ایک قانون بنایا: قومی اسیمبلی اور صوبائی اسیمبلیوں کے ارکان کے لیے بی- اے کی ڈگری لازمی قرار دے دی گئی۔ اس کے پیچھے پاکستان میں برسوں سے موجود یہ تصور تھا کہ تعلیم یافتہ نمائندے بہتر کام کر یں گے، اور یوں کرپشن پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔ تعلیم پسندی کا یہ بخار مثبت نتائج پیدا کرنے کے بجائے، نہ صرف جرم کی درسگاہ، بلکہ جرم کی آماجگاہ بھی بن گیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ بخار اترنے کا نام نہیں لیتا۔ ابھی تک دانشور اور پڑھے لکھے لوگ اس بخار میں پھُنک رہے ہیں۔ کالم ”تعلیم پسندی کا کلیشے“ میں اس سے بحث کی جا چکی ہے۔

جیسے ہی بی- اے کی شرط کا نفاذ ہوا، جرائم کے ایک نئے سلسلے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ تاہم، اس میں گرمیِ رفتار اس وقت پیدا ہوئی، جب 2002 کے انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اصل ڈگری کمانے کے بجائے، سیاست دانوں نے ریڈی میڈ ڈگریوں کی طلب میں اضافہ کر دیا۔ پھر بھی بہت سے امیدوار انتخاب سے پہلے ہی نااہل قرار پا گئے۔ ایلیکشن کمیشن کے مطابق سیاست دانوں نے بیشتر جعلی ڈگریاں 2002 اور 2007 کے درمیان حاصل کیں۔ لیکن نقل کے لیے بھی عقل درکار ہے۔ یہ سیاست دان میٹرک اور انٹر میڈیٹ کیے بغیر بی- اے کر بیٹھے۔ چونکہ یہ سب سیاست دان ہیں، سو ان کے خلاف کوئی قانون حرکت میں نہ آیا۔ اور آتا بھی کیسے، ان کے خلاف ہر اقدام ”سیاسی انتقام“ کے زمرے میں آتا ہے۔

سو 2008 کے انتخابات جعلی ڈگریوں کے سیلاب میں بہہ گئے۔ ایلیکشن کمیشن کے مطابق ان انتخابات میں 9000 ہزار میں سے دوہزار امیدواروں کی ڈگریاں جعلی تھیں۔ وہ سیاست دان جو 2002 میں بی- اے کی ڈگری نہ ہونے کے سبب انتخاب نہیں لڑسکے تھے، 2008 میں انھوں نے جعلی ڈگری پرانتخاب لڑا۔ 9000 اہل امیدواروں میں سے کوئی 25فیصد، یعنی 2000 کے قریب امیدوار جعلی تھے۔ جیسا کہ 2008 میں بی- اے کی ڈگری کی شرط ختم کی جا چکی ہے، اب یہ سب 2013 کے انتخابات لڑنے کے لیے پھر تیار ہیں۔

ان اعداد و شمار کے ساتھ یہ حقائق بھی سامنے رکھنے چاہئییں کہ 2002، اور پھر 2008 کے انتخابات میں، جن امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی داخل کروائے، اور پھر اس کے بعد جتنے امیدواروں نے انتخاب لڑا، اور پھر جتنے امیدوار کامیاب ہوئے، اور جتنے امیدوار ناکام ہوئے، ان سب کی ڈگریوں کی تصدیق کا عمل شروع ہی نہیں ہوا۔ نہ ان کی جعل سازی کے جرم پر کوئی انگلی اٹھائی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جعلی ڈگریوں کے حامل جو امیدوار قومی اور صوبائی اسیمبلیوں میں پہنچے، وہ مجرم ہیں۔ بلکہ جن امیدواروں نے جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر کاغذاتِ نامزدگی داخل کروائے، اور انتخاب نہ لڑ سکے، یا ناکام ہو گئے، وہ سب بھی مجرم ہیں۔ جن اداروں، اور ان کے سربراہوں، اور جن حکام نے یہ ڈگریاں جاری کیں، وہ بھی مجرم ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب قانون کی دسترس سے باہر ہیں۔ یہ چیز نہ صرف 2002 اور 2008 کے انتخابات پر بلکہ اس وقت وجود میں آنے والی قومی اور صوبائی اسیمبلیوں، قائمہ اور دوسری کمیٹیوں، کابینہ، وزیروں، میشروں کے قانونی وجود کو مشکوک بناتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان جعلی ڈگریوں کے حامل نمائندوں کے سبب 2002 اور 2008 میں تشکیل پانے والی قومی اور صوبائی اسیمبلیوں میں کی جانے والی قانون سازی پر بھی حرف آتا ہے۔

اب ذرا دیکھتے ہیں کہ 2008 کے انتخابات کے بعد، جعلی ڈگریوں کے حوالے سے قانون کی دست اندازی کی کیا صورت رہی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اب تک قومی اسیمبلی کے صرف 56 ارکان کو جعلی ڈگری کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ 223 متکبر ارکان اپنی اسناد کی تصدیق سے انکاری ہیں۔ وہ خود کو کسی بھی قانون سے بالا اور ماورا سمجھتے ہیں۔ 19 ارکان کے جعلی ڈگری سے متعلق کیس تاخیر کا شکار ہیں۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود کہ جعلی اسناد کے کیس فوری طور پر فیصل کیے جائیں، مختلف ہائی کورٹوں میں متعدد مقدمات زیرِ التوا ہیں۔ بلکہ عدلیہ کی بحالی سے پہلے، جعلی ڈگری سے متعلق جو مقدمات زیرِ سماعت تھے، ابھی تک ان پر حکم نہیں سنایا گیا ہے۔

اس ضمن میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کا کردارشریکِ جرم سے کسی طرح مختلف نہیں۔ یہ بالکل وہی بات ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ بلی خود تو نہیں باندھے گی۔ ایک اور محاورہ بر محل ہے: بلی کودودھ کی رکھوالی پر بٹھانا۔ یاد کیجیے کہ جب جمشید دستی کی جعلی ڈگری کا کیس سپریم کورٹ میں سنا گیا۔ انھوں نے اپنی جعلی ڈگری تسلیم کی اور قومی اسیمبلی سے استعفیٰ دے دیا۔ یوں وہ ”قانون کی عدالت“ سے جان بچا کر ”عوام کی عدالت“ میں دوبارہ پیش ہو گئے، جہاں سے وہ دوبارہ قومی اسیمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ کسی عدالت نے جعلی ڈگری سے متعلق ان سے نہ کچھ کہا، نہ کچھ پوچھا۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو حکومت تو ہے ہی جعلی ڈگری والوں کی۔ جعلی ڈگری کے جرم میں کوئی معاملہ ابھی تک منطقی انجام تک نہیں پہنچا ہے۔ ایسے کتنے ہی مقدمات ابھی تک ہوا میں لٹک رہے ہیں۔

ایک اخبار کے مطابق جنوری میں لاہور ہائی کورٹ نے اسلامیہ یونیورسیٹی بہاولپور کو ایک سابق وفاقی وزیر کی جعلی ڈگری کے معاملے میں حکم سنانے سے روک دیا۔ ان وزیر پر یہ الزام تھا کہ ان کی بی- اے کی ”اصل“ ڈگری اس لیے مشکوک ہو جاتی ہے کہ ان کی انٹرمیڈیٹ کی سند جعلی ہے۔ مختلف عدالتوں میں 19 ارکان کے جعلی ڈگری کے مقدمات میں سے 7 کا تعلق قومی، 9 کا پنجاب، 2 کا سندھ، اور ایک کا خیبر پختونخوااسیمبلی سے ہے۔ ایک خبر کے مطابق جعلی ڈگری عطا کرنے والی یونیورسیٹیوں میں سندھ یونیورسیٹی، جامشورو، نمایاں مقام رکھتی ہے۔ قومی اور صوبائی اسیمبلیوں کے 1150 ارکان میں سے 108 ڈگریاں سندھ یونیورسیٹی نے جاری کیں۔ یہ ڈگریاں معمر ارکان نے 2002 اور 2005 کے درمیان حاصل کیں۔ حاجی غلام احمد بلور، وفاقی وزیر ریلوے نے، جو ستر کے پیٹے میں ہیں، اپنی بی- اے کی ڈگری 2005 میں حاصل کی۔ ایک طاقت ور حکومتی شخصیت کی ہمشیرہ نے اپنی ڈگری 2003 میں غیر معمولی مشکوک حالات میں حاصل کی۔

سندھ یونیورسیٹی اس حوالے سے بھی ممتاز ثابت ہوئی ہے کہ اس نے ڈگریوں کی تصدیق کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے معیار کو ماننے سے انکار کر دیا، اور 108 کی 108 ڈگریوں کو میٹرک اور انٹر میڈیٹ کی اسناد دیکھے بغیر اصل قرار دے ڈالا۔ سندھ حکومت زیادہ ”جعلی ڈگری پسند“ ثابت ہوئی ہے کہ اس نے دو قدم آگے بڑھ کر ایک ایسا قانون بنا دیا ہے، جس کی رو سے سندھ حکومت اپنا ہائیر ایجوکیشن کمیشن قائم کر ے گی، اور یوں وفاقی ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے بھی جان چھُٹ جائے گی، جو جعلی ڈگریوں کی تصدیق کا بااختیار ادارہ ہے۔ اب یہ ایک علاحدہ بات ہے کہ یہ صوبائی قانون، آئین سے، یا سپریم کورٹ کے احکامات سے متصادم تو نہیں۔ بہرحال، اس نے کم از کم فی الحال 108 مشکوک ڈگری کے حاملوں کو بریت بخش دی ہے۔

مختصر یہ کہ جعلی ڈگریوں کا یہ سارا معاملہ خود تو مشکوک ہے ہی، اس نے پاکستان میں تعلیم، تعلیمی اداروں، تعلیمی اسناد، تعلیمی نظام، انتخابات، قومی و صوبائی اسیمبلیوں، کابینہ، وزیروں، مشیروں، قانون سازی، اور لاتعداد چیزوں کو بھی مشکوک بنا دیا ہے۔ حکومت تو شریکِ جرم ہے، اس سے کیا توقع رکھی جائے۔ اعلیٰ اور زیریں عدالتیں، اور ایلیکشن کمیشن بھی جعلی ڈگریوں کی تصدیق اور جعل سازی کے جرم کی دست اندازی کے عمل کو تیزی سے بڑھانے سے محترز معلوم ہو رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں۔ قانون سازوں نے پاکستان کے شہریوں کے ساتھ بھی جعل سازی کی ہے اور تعلیم کے حصول کی ان کی پرخلوص کوششوں کو نفی کر دیا ہے۔ اگر جعلی ڈگری کی بنیاد پر قانون ساز بنا جا سکتا ہے تو اصلی ڈگریوں کی کیا حیثیت رہ جائے گی! اور اگر جعل ساز، قانون ساز بن جائیں گے تو قانون کی کیا حیثیت رہ جائے گی!

[یہ کالم 2 مارچ کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

روزنامہ مشرق سے کالم کی تصویری نقل:


اس ضمن میں ایک کارٹون بھی ملاحظہ کیجیے، جو 2 مارچ کو انگریزی اخبار، پاکستان آبزرور میں چھپا:


آئی جی بلوچستان کی ملاقات کی خبر بھی دیکھیے۔ یہ روزنامہ ایکسپریس میں 26 فروری کو چھپی:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں