جمعہ، 6 ستمبر، 2013

درباری میڈیا، درباری ایکسپرٹس

بہت سی باتیں متعدد وجوہات کی بِنا پر ناقابلِ فہم ہوتی ہیں۔ بہت سی باتیں اس لیے ناقابلِ فہم ہوتی ہیں کہ ان کے پیچھے جو وجوہات کارفرما معلوم ہوتی ہیں، وہ بودی ہونے کے ساتھ ساتھ مروج سماجی سیاسی گراوٹ اور پست اخلاقی سطح کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہیں۔

گزرے کل یعنی 27 دسمبر کو جس طرح پاکستان میں ایک مرتبہ پھر کم سِن سیاست (کم سِن سیاست کی کہانی: 1857 سے 2012 تک) کی بنیاد رکھی گئی ہے، اور ابھی تک اس پر جو لیپا پوتی کی جا رہی ہے اور جو بیل بوٹے کاڑھے جا رہے ہیں، وہ ناقابلِ فہم چیزوں کے اسی زمرے میں آتی ہے، جس کا ذکر اوپر ہوا۔

پیپلز پارٹی کے سیاسی پلیٹ فارم (ویسے کیا یہ سایسی پلیٹ فارم رہ بھی گیا ہے یا نہیں!) سے بلاول بھٹو زرداری کا لانچ کیا جانا، اور پیپلز پارٹی کے تجربہ کار اور برگزیدہ لیڈروں کا اس پر صاد کہنا، اور ہم نوا بننا، سیاسی گراوٹ اور اخلاقی پستی کی نشاندہی کرتا ہے۔

دیگ کا ایک چاول کھا کر دیکھیے، ذائقے کا اندازہ ہو جائے گا۔  وفاقی وزیرِ اطلاعات و براڈ کاسٹنگ، قمرالزمان کائرہ فرماتے ہیں: بلاول پیدائشی لیڈر ہے۔

کون کون پیدائشی طور پر کیا کیا ہے، پاکستانی سیاست ان رازوں کو ہمیشہ نہایت بے رحمی سے عریاں کرتی رہی ہے، اور کر رہی ہے۔

یہ تو سیاست دان ہیں، ان بے چاروں کی سیاسی، یا پھر کسی اور نوع کی مجبوریاں ہیں کہ یہ درباری سیاست دان بنے ہوئے ہیں۔ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں، شہزادہ کم سِن ہے، یا عمر رسیدہ۔ انھیں مطلب ہے تو دربار سے وابستہ رہنے سے۔

مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ میڈیا بے چارے کو کیا ہو گیا ہے۔ گو کہ یہ بات ہمیشہ عیاں رہی ہے کہ اس کا ایک معتد بہ حصہ اشرافیہ اور ریاستی اشرافیہ کا مراثی بنا رہتا ہے، مگر اس 27 دسمبر کو کم سِن سیاست کے لانچ پر تو یہ تمام حدوں کو پھلانگ گیا ہے۔

اگر پاکستانی میڈیا کی کوئی اخلاقیات اور کوئی ضابطۂ اخلاق ہے، بلکہ اسے بھی بھول جائیے؛ اگر اس میں پیشہ ورانہ اہلیت کا کوئی معیار وجود رکھتا ہے، اور پیشہ ورانہ دیانت داری کا کوئی تصور موجود ہے، تو درباری میڈیا کو ایک سوال پر ضرور غور کرنا چاہیے: کیا ’’بلاول بھٹو زرداری‘‘ کا سیاسی لانچ پاکستان کی سیاست کا بہت بڑا واقعہ ہے؟ کیا یہ غیرمعمولی سیاسی اہمیت کا حامل واقعہ ہے؟ اور کیا اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر جو کوریج دی گئی اور دی جا رہی ہے، یہ واقعہ اس کا مستحق ہے؟ یا یہ کوریج محض درباری واہ واہ کا درجہ رکھتی ہے۔

میڈیا سے کچھ آگے چلتے ہیں۔ پاکستان میں ٹی ـ وی چینلوں کی فراوانی کے ساتھ یہاں ایک نئی مخلوق نے جنم لیا۔ یہ سیاسی تجزیہ کار، اور ایکسپرٹس ہیں۔ تاہم، ان میں سے بیشتر کی رائے اور تجزیے سننے سے پتہ چلتا ہے کہ ان سے زیادہ سیاسی فہم اور زیادہ مہارت، سیاست کے ان تجزیہ کاروں میں پائی جاتی ہے، جو تھڑوں، ہوٹلوں اور بیٹھکوں میں بیٹھے سیاست کی چیر پھاڑ کر رہے ہیں۔

جیسا کہ ان سیاسی تجزیہ کاروں اور ایکسپرٹس کی مخلوق کا جنم ٹی ـ وی چینلوں کا محتاج ہے، سو ان کی زندگی کی بقا کا انحصار بھی ان ٹی ـ وی چینلوں پر ان کی نمود و نمائش کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ان سے موقع بے موقع، ہر معاملے پر ماہرانہ رائے لی جا سکتی ہے، شرط صرف یہ ہے کہ ان کا نام اور چہرہ، اخبار میں یا ٹی ـ وی کی سکرین پر چمکتا رہے۔

کم سِن سیاست کے لانچ کے حوالے سے ان کی رائے کا اہمتام بھی کیا گیا۔ مگر حیران کن امر یہ ہے کہ ان سے ایک ایسے معاملے پر رائے، بلکہ ماہرانہ رائے لی گئ ہے، جو کسی بھی صورت کسی ماہرانہ رائے، بلکہ کسی بھی رائے کا متقاضی نہیں۔

ایک کم سِن اور نو آموز کی گفتگو کیا معنی رکھتی ہے۔ اس میں کیا مفہوم مخفی ہو سکتا ہے۔ اس کی کیا سیاسی اہمیت ہو سکتی ہے۔ جبکہ یہ بھی واضح ہو کہ یہ گفتگو مصنوعی اور کسی اور کی لن ترانی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح ہو کہ یہ کسی نوٹنکی میں سوانگ بھرنے والے کسی کردار کے مکالمے اور گفتگو سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔

مگر ان تجزیہ کاروں اور ماہرین نے اس گفتگو میں سے مفہوم و معنی بھی برآمد کیے ہیں، اور اس کی سیاسی اہمیت بھی کھود نکالی ہے۔

پاکستان کو مبارک ہو، اس کے پاس درباری تجزیہ کاروں اور ایکسپرٹس کا ٹیلنٹ وافر موجود ہے!

آج کے ’’دا نیوز‘‘ اور ’’جنگ‘‘ (28 دسمبر، پرنٹ ایڈیشن) میں یہ سٹوری ملاحظہ کی جا سکتی ہے:

یہ دونوں نیوز آئیٹم  خود پڑھیے!




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں