جمعہ، 6 ستمبر، 2013

کیا پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو پکٹرے گی؟

غالب امکان یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کبھی ایسا نہیں کرے گی۔

کیوں؟ چند ممکنہ اسباب ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:

1-  تیسری دنیا میں، جہا ں قانون کی حکمرانی کا فقدان ہوتا ہے، وہاں سیاسی نوع کے قتل سیاسی جماعتوں کا ’’استحقاق‘‘ بن جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے قتل کی صورت میں ریاست کی جانب سے تحقیقات کا عمل خود بہ خود شروع ہو جائے اور اپنے انجام تک پہنچے، مگر سیاسی جماعتیں ایسا نہیں ہونے دیتیں، وہ خود اپنے رہنمائوں کے قتل کی تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ یہ ان کا ایک سیاسی حربہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے رہنما کے قتل کو ’’سیاسی اثاثہ‘‘ سمجھتی ہیں۔ جیسے کوئی ’’سیاسی سرمایہ‘‘ ہو، جسے وہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے سنبھال کر رکھنا چاہتی ہیں۔ اسے ’’سیاسی واؤچر‘‘کا نام بھی دیا جا سکتا ہے، جسے وہ مستقلاً کیش کرانے کی پوزیشن میں رہنے کے لیے اس قتل کی تحقیقات کو کبھی اپنے انجام تک نہیں پہنچنے دیتیں۔

یہ ’گورمینٹ کالج‘ کے زمانے کی بات ہے، ایک سیاسی جماعت کی طلبہ تنظیم بھی سٹوڈینٹس یونین کا انتخاب لڑ رہی تھی۔ یہ بات حیران کن تھی کہ اس کے بڑے امیدوار جب بھی کسی انتخابی اجتماع سے خطاب کرنے کے لیے آتے تو زخموں سے چور چور نہیں، بلکہ لدے پھندے ہوتے، یعنی ’’پٹیو پٹی‘‘ ہوتے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح ووٹرز کی ہمدردیاں آسانی سے حا صل ہو جاتی ہیں۔ سو، پیپلز پارٹی کی حکمت ِعملی بھی یہی معلوم ہوتی ہے۔

اعجازالحق کے تو اختیار میں نہیں تھا کہ وہ ضیاء الحق کے قتل کی تحقیقات کرواتے، مگر وہ بھی جہاں تک ہو سکا اس قتل کو کیش کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ تو ضیاء الحق کی لاش میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ کچھ اور عرصے تک زندہ رہتی، سو جلد ہی کام نپٹ گیا۔

2- دوسری بڑی وجہ جو پہلی وجہ سے جڑی ہوئی ہے، یہ ہے کہ فرض کریں عدالتی کمیشن بنتا ہے، یا کوئی اور کمیشن، تحقیقات ہوتی ہے اور قاتل جو بھی ہیں پکڑے جاتے ہیں، اورانھیں قرار ِ واقعی سزا مل جاتی ہے، تو کیا ہوا، بات تو ختم ہو گئی، کھیل انجام کو پہنچ گیا۔ پھر کیا رہ گیا، جس پر سیاست چمکائی جائے!

-3 تیسری وجہ اصل میں وجہ نہیں۔ یہ کچھ سازشی نظریے سے ملتی جلتی چیز ہے۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے، جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سازشیں بھی ہوتی ہیں، جو کامیاب بھی ہوتی ہیں اور ناکام بھی۔ لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر مرتضٰی بھٹو کے قتل تک، جہا ں تک قاتلوں کی بات ہے، تو بہت سے قیاسات مل جاتے ہیں، جواس فرد پر یا اس گروہ پر انگلی اٹھا تے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے بڑے سیاسی قتلوں کے معاملے میں سیاسی وارثوں کے علاوہ خود ’’قاتل‘‘ بھی کبھی اس عمل کو شروع نہیں ہونے دیتے، جو اگر قانون کی عملداری موجود ہو تو خود بہ خود شروع ہو جائے، یعنی تحقیقات اور ٹرائل کا عمل؛ اور یوں قصہ اپنے اختتام کو پہنچے۔

لہٰذا، امید یا خوف یہی ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قاتل کم از کم پیپلز پارٹی کے دور ِ حکومت میں پکٹرے جانے کا کوئی امکان نہیں۔ آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے!

اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اگر ملک میں قانون کی عملداری موجود ہو تو سیاست اور ریاست دونوں کی سمت درست ہو سکتی ہے!


[یہ تحریر سابقہ بلاگ ’’اردوبلاگ  سب کا پاکستان‘‘ پر 3 مئی 2010 کو پوسٹ کی گئی تھی۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں