پاکستان کے ستر سے زیادہ ٹی وی چینلز اور لاتعداد اخبارات اور جرائد، جس فکر و دانش کے نمائندہ ہیں، وہ مجموعی طور پر بھیڑ چال پر مبنی ہے ۔ ہاں، کبھی کبھی یہاں وہاں کچھ معقولیت کا مظاہرہ دیکھنے کو مل جاتا ہے ۔
کچھ ہفتے قبل جب مسلم لیگ (ن) کے خواجہ محمد آصف نے ایک پریس کانفرینس میں تحریکِ انصاف کے رہنما عمران خان پر کچھ الزامات عائد کیے تو تحریکِ انصاف کی طرف سے جوابی الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی ۔ کچھ دن یہ طرحی مشاعرہ خوب چلا ۔ میڈیا ئی علما کو موقع میسر آگیا، اور انھوں نے فتوے جاری کیے کہ لو، نوے کی دہائی کی سیاست پھر چل پڑی ۔ ہر طرف، یہ قضیہ تواتر سے دہرایا جانے لگا ۔ اور اسے خوب رگیدا بھی گیا ۔ بلکہ مختلف مواقع پر، جب بھی کوئی دو سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر کوئی الزامات لگاتی ہیں تو نوے کی دہائی کی سیاست کا یہ رٹارٹایا سبق ٹی وی چینلز اور اخبارات پر نشر ہونے لگتا ہے ۔ جیسے گذشتہ مہینوں میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہوتا رہا ہے ۔
اس ضمن میں ایک ضروری بات تو یہ ہے کہ یہ جونوے کی دہائی کی سیاست سے ڈرائے جانے کا معاملہ ہے، کیا اس میں کوئی ڈرنے والی بات ہے بھی یا نہیں ۔ نوے کی دہائی میں ہوا یہ کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں ایک دوسرے کے خلاف انتقامی سیاست کرتی رہیں ۔ مقدمات، گرفتاریاں، وغیرہ، اس انتقامی سیاست کا حصہ تھے ۔ یہاں یہ چیز بھی سوچنے اور کھوجنے والی ہے کہ پاکستان میں اس اتنقامی سیاست کی گنجائش کیسے نکل آتی ہے ۔ امریکہ، برطانیہ، اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں انتقامی سیاست کیوں جڑنہیں پکڑتی ۔
تھوڑا سا غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان ممالک میں احتساب اور جواب دہی کے ادارے موجود اور محرک ہیں ۔ پھر یہ کہ یہ ادارے آزاد اور خودمختار ہیں ۔ مزید یہ بھی کہ یہ اس طرح حکومتِ وقت کے اختیار میں نہیں ہوتے، جیسے” نیب“ (نیشنل ایکاؤنٹیبیلیٹی بیورو) بے چارہ، موجودہ حکومت کے شکنجے میں پھنسا ہواہے ۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ساٹھ پینسٹھ برسوں میں یہاں کوئی ایسااحتسابی ادارہ وجود میں آ ہی نہیں سکا ۔ جب بھی ایسے ادارے بنانے کی کوشش کی گئی، یا بنائے گئے، ان کے پیچھے حکومتِ وقت اور حکمران سیاسی پارٹی (اور اس کے اتحادیوں) کی اغراض اور مفادات صف باندھے کھڑے پائے گئے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کبھی خلوصِ نیت سے کوئی ادارہ بنانے کی کوشش کی ہی نہیں گئی ۔ یہی سبب ہے کہ یہاں انتقامی سیاست کی گنجائش ہمیشہ موجود رہی ۔ اور آج بھی موجود ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سیاست دان، جس پر کوئی الزام لگتا ہے، یا مقدمہ بنتا ہے، قطع نظر اس سے کہ یہ درست ہے یا غلط، وہ اسے سیاسی انتقام قرار دے کر خود کو بری بھی قرار دے لیتا ہے، اور وکٹری کا نشان بنا کر اپنی کمینی مسکراہٹ کو اس کے پیچھے چھپا بھی لیتا ہے ۔ عام شہریوں نے بھی یہی روش سیکھ لی ہے، اور وہ بھی الزامات اور مقدمات کو مخالفین کی کاروائی قرار دے کر خود ’نیک پروین ‘بن جاتے ہیں ۔
اس کی ذمے داری کسی اور پر نہیں، سیاسی پارٹیوں اور ان کے رہنماؤں پر آتی ہے ۔ وہ اپنا احتساب چاہتے ہی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ احتساب اور جواب دہی کو سیاست کا حصہ بنائے رکھتے ہیں ۔ انھیں اس کا فائد ہ ہی فائدہ ہے ۔ اگر احتساب کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ادارہ موجود ہو تو سیاست دان ہی نہیں، کسی کو بھی یہ جواز گھڑنے اور اپنے جرم کو اس کے پیچھے چھپانے کا موقع نہیں ملے گا کہ اسے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، یا یہ کہ یہ اس کے مخالفین کا پھیلا یا ہوا جال ہے، اور وہ ایک معصوم اور فرشتہ ہے ۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف کے درمیان الزامات کے حالیہ تبادلے میں یہ قضیہ بھی سامنے آیا کہ لیں بھئی پھر سے کیچڑ اچھلنا شروع ہو گیا ۔ کالموں اور کارٹونوں کے انبار لگ گئے ۔ اس اثنا میں ہر کسی کو اپنے سنبھالے ہوئے کیچڑ کے اچھالنے کا موقع بھی ہاتھ آیا ۔ مزید یہ کہ اس معاملے میں عدالت سے رجوع کرنے کی دھکمیاں بھی دی گئیں، تاہم، حسبِ معمول اور حسبِ روایت ابھی تک کسی عدالت کا دروازہ نہیں کھڑکا ۔ چلیں یہ ایک اچھی سیاسی ادا ہے کہ سیاسی کیچڑ ، اخبارات اور ٹی وی چینلز پر ہی اچھلتا ہے ۔ اور شاید اس سے یہ نتیجہ نکالنا اتنا غلط نہیں ہو گا کہ یہ کیچڑ، حقیقتاً کیچڑ ہی ہوتا ہے، محاورے والا کیچڑ نہیں ہوتا ۔
اب جہاں تک کیچڑ اچھلنے کا معاملہ ہے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ یہ کیچڑ اچھلنا چاہیے یا نہیں ۔ صاف بات ہے کہ اگر کیچڑ موجود ہے تو وہ اچھلے گا بھی، اور اسے اچھلنا بھی چاہیے ۔ فرض کریں یہ کیچڑ نہ اچھلے، تو ہم بے چارے عام شہریوں کو پتہ بھی نہ چلے کہ سیاسی پارٹیاں اور ان کے رہنما کیا گُل کھلا رہے ہیں ۔ اور جیسا کہ ذکر ہوا کہ یہاں احتساب کا کوئی آزاد اور خودمختار اداروہ وجود ہی نہیں رکھتا، جو یہ تحقیقات کرے کہ سیاسی پارٹیوں کے رہنما کن غیر قانونی اور غیر آئینی معمولات میں ملوث ہیں، تو باہمی کیچڑ اچھالنے کا یہی عمل رہ جاتا ہے، جس کے ذریعے اس کیچڑکی خبر (اور بدبو) پورے ملک میں پھیل سکتی ہے ۔ پھر، گذشتہ برسوں کے دوران ایک نیا امر یہ سامنے آیا ہے کہ ٹی وی چینلز پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندے ایک دوسرے کی کرتوتوں سے خود ہی پردہ اٹھانے لگے ہیں، اور یہ ٹاک شوزاس حوالے سے نہایت اہمیت کے حامل ہو گئے ہیں ۔ لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا ۔ یا جیسے دو طوائفیں اپنے راز سرِعام اچھال رہی ہوں!
میر ا خیال یہ ہے کہ یہ کیچڑ اچھلنا اس حوالے سے ایک مثبت عمل ہے ۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ جو لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ کیچڑ اچھلنا نہیں چاہیے، وہ سیاسی رہنماؤں کی پردہ پوشی کرنا چاہتے ہیں ۔ مراد یہ کہ کیچڑ کو چھپانا چاہتے ہیں ۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ سیاسی پارٹیاں اور سیاسی رہنما یہ کیچڑ بننے ہی نہ دیں، اور اپنے دامن اور گریبان کو صاف اور اُجلا رکھیں ۔ یہاں پھر وہی بات دہرانے کی ضرورت ہے کہ اگر ایک آزادا ورخودمختار احتسابی ادارہ موجود ہو تو وہ سیاسی پارٹیوں کے پچھواڑوں میں پانی کھڑا نہیں ہونے دے گا، اور یوں نہ تو وہاں کیچڑ بنے گی، نہ ہی پھر یہ کیچڑ اچھلے گی ۔
سیاسی پارٹیوں کے اس کیچڑ سے سبق سیکھا جا سکتا ہے، اور اسے سوسائیٹی میں پھیلنے سے روکا بھی جا سکتا ہے ۔ اول و آخر، اس کے لیے آزاد اور خود مختار اداروں کی اشد ضروت ہے؛ یوں سیاست دانوں یعنی سیاسی اشرافیہ کا اختیار و اقتدار، کمزور اور محدود ہو گا ۔ صرف احتساب اور جواب دہی کے لیے ہی نہیں، بلکہ اور بھی ایسے جتنے ادارے ہیں، جیسے کہ پیمرا (پاکستان الیکڑانک میڈیا ریگولیڑی اتھاریٹی)، اوگرا (آئل اینڈ گیس ریگولیری اتھاریٹی)، پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھاریٹی)، وغیرہ، یہ سب آزاد اور خود مختار ہونے چاہیئیں ۔ یوں، سوسائیٹی کے ہر پہلو پر سیاست کا غلبہ ختم ہوگا، سول سوسائیٹی اور شہری مضبوط ہوں گے، اور سیاست کا کیچڑ تحلیل ہونا شروع ہو جائے گا ۔
سو، سیاسی کیچڑ کو اچھلنے سے روکنا کوئی حل نہیں، حل ہے: احتساب کے لیے ایک آزاد اور خودمختار ادارہ!
[یہ تحریر روزنامہ مشرق پشاور میں 4 ستمبر کو شائع ہوئی۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں