آئین وقانون اور ان کی پاسداری، افراد کے ذہنوں اور طرزِ عمل میں کیوں جاگزیں نہیں ہوتی، اس کی پاکستان سے بہتر مثال کہاں مل سکتی ہے ۔ بلکہ یہ ایک ایسا ملک ہے، جہاں عام فرد سے لے کر دانشور، میڈیا اوراشرافیہ تک، اور پھرحکمران طبقات تک، عملاً آئین اور قانون کا کوئی تصور موجود ہی نہیں ۔ کہنے کو یہاں آئین بھی ہے، جمہوریت بھی ہے، پارلیمان بھی ہے، اور دوسرے آئینی ادارے بھی موجود ہیں ۔ اور صوبائی اسیمبلیاں بھی وجود رکھتی ہیں ۔ تاہم، یہ سب مل کر بھی پورے ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا کوئی شائبہ پیدا کرنے میں ناکام ہیں ۔ محض ایک ادارہ ہے، یعنی موجودہ سپریم کورٹ، جو چیخ چیخ کر یہ یاد دلا رہا ہے کہ ملک میں آئین بھی موجود ہے، اور حکومتی معاملات اس کے مطابق چلنے چاہئیں ۔
اس بے آئینی اور لاقانونی احوال کے پختہ ہونے کی کل ذمے داری، سیاست دانوں اور حکمران طبقات پر عائد ہوتی ہے ۔ یہ آئین، قانون اور جموریت کو صرف انتخابات تک محدود سمجھتے ہیں، بلکہ انتخابات کو بھی شفاف اور صاف ستھرا نہیں رہنے دیتے ۔ سیاسی پارٹیاں انتخابات کو بھی آپس میں بانٹ لیتی ہیں ۔ جب یہ سیاست دان، انتخاب کے ڈھلے ڈھلائے مرحلے سے گزر کر اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ بس اب آئین اور قانون، دونوں پیچھے رہ گئے ہیں ۔ اخلاقیات تو یہ سیاست دان عرصہ ہوا تیاگ چکے ۔ ان سے یہ بارِ گراں اٹھنے سے رہا ۔
سیاست دان، مقتدر بنتے ہی، خود آئین اور قانون بن جاتے ہیں ۔ اس میں کوئی تمیز اور تفریق کی ضرورت نہیں، کوئی بھی سیاسی پارٹی اقتدارمیں آئے، یوں محسوس ہوتا ہے، پاکستان میں عہدِ مغلیہ کا کوئی دور بحال ہو گیا ۔ سو، بادشاہ سلامت ، آئین اور قانون کی عملداری قائم کرنے کی جگہ، شاہانہ رعایا پروری کے مظاہرے فرمانے لگتے ہیں ۔ چلیں یہ ”رعایا پروری“ گوارا ہو سکتی ہے، لیکن اس صورت میں کہ اس پر اٹھنے والا خرچ، بادشاہ سلامت خود اپنی جیب سے ادا کر رہے ہوں ۔ یہ عجب سینہ زوری ہے کہ رعایا پروری کا دعویٰ بھی ہے، اور اپنی جیب سے کچھ نکلتا بھی نہیں ۔ حتیٰ کہ جب صدر زرداری اجمیر شریف تشریف لے گئے اوروہاں جو دس لاکھ ڈالر کا نذرانہ دے کر آئے تو اس کا بار بھی حکومت کی جیب پر ہی پڑا، یعنی شہریوں کی جیبوں پر ۔ ان کی اپنی جیب ڈھیلی نہیں ہوئی، گو نام ان کا بنا ۔ ثواب پتہ نہیں کسے ملا، حکومتِ پاکستان کو یا صدرِ پاکستان کو، یا بے چارے ٹیکس دینے والوں کو!
چونکہ پاکستان میں موجود سب سیاسی پارٹیاں اور سیاست دان، ایک ہی طرزِ حکمرانی کے حامل ہیں، لہٰذا، کم از کم اس حوالے سے میں ان میں فرق کرنا، نہایت مشکل ہے ۔ یہ وفاق ہو، یا صوبہ سندھ، یا پنجاب، یا خیبر پختونخواہ، یا بلوچستان (ویسے کیا وہاں کوئی صوبائی حکومت وجود رکھتی ہے!)، سب کا طرزِ حکمرانی شاہانہ اور رعایاپرورانہ ہے، آئینی و قانونی قطعاً نہیں ۔ سب کے سب، دان کرنے میں بڑے فیاض ہیں ۔ اس طرزِ حکمرانی کو حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ کا نام دیا جا نا چاہیے ۔
صوبہ پنجاب تو ایسے طرزِ حکمرانی کی نمایاں مثال بن چکا ہے ۔ یہاں کے وزیرِ اعلیٰ کی رعایا پروری کے قصے زبان زد عام ہیں؛ گو کہ وہ خود کو ”خادمِ اعلیٰ“ کہلواتے ہیں ۔ بلکہ ان کی فیاضی اور دریا دلی اس حد تک جا پہنچی ہے کہ جلد ہی انھیں کو ئی ”تزک“ مرتب کرنی پڑے گی ۔ یا ہو سکتا ہے کہ کوئی ”شاہی وقائع نویس“ پہلے ہی اس کام پر مامور کیا جا چکا ہو، یا خود ہی مامور ہو گیا ہو ۔
پنجاب کے ”صوبہ دار“ کی رعایا پروری کا تازہ نمونہ چند روز ہوئے سامنے آیا ۔ رپورٹس کے مطابق، گذشتہ ہفتے خانگڑھ (مظفر گڑھ) میں دوعورتیں، جو ایک ”بڑے“ خاندان میں رشتہ مانگنے گئی تھیں، ان کی اس جرآت کو اس خاندان کے مرد حضرات نے اپنی توہین سمجھا، اور ان عورتوں کو برہنہ جسم گلیوں میں پھرایا اور اس کی وڈیو بھی بنائی ۔ جب یہ خبر میڈیا پر چلی تو وزیر اعلیٰ تک بھی پہنچی ۔ وہ فوراً، متاثرہ خاندان کے پاس گئے ۔ انھوں نے ان خواتین کو یقین دلایا کہ ملزمان سزا پائے بغیر نہیں رہیں گے، اور ان پر دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا ۔ انھوں نے متعلقہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو حکم دیا کہ ملزمان کو 48 گھنٹوں میں گرفتار کیا جائے، بصورتِ دیگر ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی ۔ وزیرِ اعلیٰ نے کما ل فیاضی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے متاثرہ خواتین کو پانچ لاکھ روپے کا چیک بھی دان کیا ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں ایک گھر بھی عنایت فرمایا ۔
انھیں دنوں اخبارات میں یہ خبر بھی شائع ہوئی ۔ (اس خبر بنانے کے فن سے پتہ چلتا ہے کہ میڈیا نے روزانہ کی بنیاد پر ”شاہی وقائع نویس“ کا کردار پہلے ہی بخوبی سنبھالا ہوا ہے۔) خبر کی سرخی کچھ اس طرح بنائی گئی: وزیرِ اعلیٰ کا دورہ ضعیف میاں بیوی کے لیے رحمت ثابت ہوا ۔ تفصیل میں بتایا گیا کہ خانگڑھ کے دورے کے دوران ایک ضعیف میاں بیوی نے وزیرِ اعلیٰ کو اپنی فریاد سنائی ۔ معلوم نہیں ان بے چاروں کو یہ موقع کیسے مل گیا ۔ خیر انھوں نے بادشاہ سلامت کو بتایا کہ قریباً چار بر س سے ان کی ملکیتی 9 مرلے اراضی، ایک قبضہ گروپ نے ہتھیائی ہوئی ہے ۔ اور عدالتی احکامات کے باوجود یہ قبضہ گروپ، جسے با اثر افراد کی پشت پناہی حاصل ہے، اسے خالی کرنے سے منکر ہے ۔ وزیرِ اعلیٰ کے حکم پر شام تک یہ اراضی قبضہ گروپ سے چھڑوا کر ان ضعیف میاں بیوی کے سپرد کر دی گئی ۔ اورانتظامیہ نے مسمار کی گئی دیوار کی تعمیر میں بھی مدد کی ۔
رعایا پروری کے اس شاندار مظاہرے پر ابھی وقت کی گرد نہ جمی تھی کہ ایک اور موقع دستیا ب ہوگیا ۔ پنجاب میں بی -اے کے نتائج کا اعلان ہوا تو خبر آئی کہ جس طالب علم، محمد محسن علی نے ٹاپ کیا ہے، وہ ایک ’غریب‘ گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور ایک تندور پر ملازم ہے ۔ وزیرِ اعلیٰ کی رگِ شاہانہ پھر پھڑکی، انھوں نے محسن سے ملاقات کی ۔ اسے دس لکھ روپے کا چیک عطا کیا، اورپنجاب حکومت کی طرف سے اس کی مزید تعلیم کے اخراجات اٹھانے کا اعلان کیا ۔ اور آشیانہ ہاؤزنگ سکیم میں اسے ایک گھر مہیا کرنے کا حکم بھی دیا ۔ انھوں نے اپنی نئی شرٹ اور ٹائی بھی محسن کو گفٹ کی ۔ انھوں نے عید کے بعد حافظ آباد اس کے گھر آ نے کا وعدہ بھی کیا تاکہ اس کے والدین کو مبارک باد دیں سکیں ۔
یہاں پنجاب میں شاہی دریا دلی کے یہ مظاہرے وفاق میں پیپلز پارٹی کی بادشاہی کی چولیں ہلانے کے لیے کافی تھے ۔ جواباً وزیر اعظم، راجہ پرویز اشرف نے بھی وفاقی شاہی خزانے کا منہ کھول دیا ۔ انھوں نے بھی محسن کے لیے دس لاکھ روپے کے ایوارڈ کا اعلان کیا ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ محسن کے تعلیمی اخراجات برادشت کرنے کا اعلان بھی داغا ۔ واضح رہے کہ یہ تمام دان اور وعدے حکومت کے سر پر کیے گئے ہیں، کہیں کسی ذاتی جیب پر کوئی بوجھ نہیں پڑا ۔ شہریوں کے پیسوں سے شہریوں پر عنایت! حکومت کی جادو کی چھڑی، اشرفیہ اور حکمران طبقات کو کیسے کیسے کھیل رچانے کے قابل بنا دیتی ہے ۔
اب ذرا رعایا پروری، فیاضی اور دریا دلی کے ان واقعات پر آئینی اور قانونی نظر ڈالتے ہیں ۔ وزیرِ اعلیٰ اور وزیرِ اعظم کو یہ اختیار کہاں سے مل گیا کہ وہ کسی ایک یا چند افراد پر حکومتی خزانے سے پیسے لٹانا شروع کر دیں ۔ کیا صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے آئینی چیف ایگزیکٹو کا آئینی اور قانونی وظیفہ یہی رہ گیا ہے کہ وہ ادھر ادھر جہاں پہنچ جائیں، جہاں چاہیں، وہاں ”شاہی“ خزانے سے اپنی فیاضی کو تسکین دیں ۔ کیا صوبے اور وفاق کے چیف ایگزیکٹو کا اولین فرض اپنے صوبے اور ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی اورعملداری قائم کرنا نہیں ۔ کیا ان کے لیے ملک میں لا اینڈ آرڈر کا قیام کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ کیا ان کے لیے شہریوں کو انصاف کی فراہمی اور ان کی جان ومال کا تحفظ کسی اور سیارے کی کہانیاں ہیں ۔ کیا وہ اسی طرح ادھر ادھر ٹاواں ٹاواں کسی شہری کو، جو ان کی نظرِ کرم کی رینج میں آجائے ، بس اسے نوازتے رہیں گے ۔ کیا آئین اورقانون انھیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں ۔ بڑی بڑی مستند جمہوریتوں سے کبھی ایسی کوئی خبر آئی ہے ۔ کیا امریکہ اور برطانیہ کے حکومتی خزانے خالی پڑے ہیں، یا وہاں کوئی ضرورت مند شہری باقی نہیں رہا، جس کے نام پر باراک اوباما اور ڈیوڈ کیمرون اپنی دریا دلی دکھا سکیں ۔ کیا انھوں نے کبھی امریکہ اور برطانیہ میں ٹاپ کرنے والے محسنوں پر حکومتی خزانہ لٹایا ہے ۔
مزید یہ بھی عیاں ہے کہ وزرائے اعلیٰ اور وزرائے اعظم اگر اپنے آئینی اور قانونی فرائض بخوبی ادا کر رہے ہوتے تو خانگڑھ جیسے واقعات پیش آنے کے امکانات میں قابلِ ذکر تخفیف ہو گئی ہوتی ۔ اور شہریوں کے ٹیکس میں سے انھیں دریا دلی دکھانے کا اختیار کہاں سے مل گیا ۔
اس قصے میں میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک، دونوں کا کردار ایک ایسے مشکوک فرد کا ہے، جس کی گواہی ضروری بھی ہے، اور جو جرم میں برابر کا شریک بھی ہے ۔ شاہی محل کے دروازے پرجو ”زنجیرِ عدل“ آویزاں ہے، یہ اسے ہلانے کا فریضہ انجام دیتا ہے ۔ لیکن بادشاہ سلامت کے بیدار ہونے اور پھر مظلوم رعایا پر ان کی کرم نوازی کو بالکل اسی طرح پیش کرتا ہے، جیسے شاہی وقائع نویس قلمبند کرتے تھے ۔ یہ حکومت کی آئینی اور قانونی ذمے داریوں اور اس سے غفلت کے زاویے کو شاہانہ رعایا پروری کے مخملیں پردوں میں چھپا دیتا ہے ۔
پھر یہ کہ جیسی حکومتیں، پاکستان کے شہریوں کو نصیب ہوئی ہیں، ان کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ میڈیا نہ ہو تو حکومتوں کی عملداری ختم ہو کر رہ جائے ۔ مراد یہ کہ حکومت کو یہ کیوں پتہ نہیں ہوتا، یا پتہ کیوں نہیں چلتا کہ اس کی عملداری میں کہاں، کیا ہو رہا ہے ۔ کیا اسے خانگڑھ جیسے واقعات کا تب ہی پتہ چلے گا، جب یہ واقعات میڈیا کی نظر میں آئیں گے ۔ خود حکومت کا وجود کس مقصد کے لیے ہے ۔
جہاں تک خانگڑھ کی دوعورتوں کا تعلق ہے تو ایسے واقعات پاکستان میں عام ہیں ۔ بلکہ ایسے واقعات تواتر سے واقع ہوتے رہے ہیں، اور اخبارات میں رپورٹ بھی ہوتے رہتے ہیں ۔ یہ 1984 کی بات ہے، نواب پور میں اسی نوع کا واقعہ پیش آیا تھا ۔ اتبے برسوں میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کیا کیا گیا ۔ ان بیس تیس برسوں میں حکومتی عملداری میں کیا بہتری آئی ۔ کچھ بھی نہیں ۔ آئے دن یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے، اور حکومت کے سرپر جوں نہیں رینگتی ۔ یہ آئین اور قانون کی حکمرانی ہے، یا شاہانہ طرزِ حکومت!
پہلا واقعہ اپنے دامن میں بہت سے سوالات سمیٹے ہوئے ہے ۔ کیا مظفر آباد میں کوئی انتظامیہ موجود نہیں ۔ کیا وہاں پولیس کا کوئی محکمہ موجود نہیں ۔ کیا اس واقعے کے وقوع میں کوئی وقت نہیں لگا ۔ کیا پولیس نے جو اپنے مخبر رکھے ہوتے ہیں، وہ صرف شراب کی موجودگی سونگھ سکتے ہیں ۔ یا پھر کہاں اور کس گھر میں کوئی مفروراور اشتہاری چھپا ہوا ہے، انھیں بس اس کی خوشبو آجاتی ہے ۔ یا پھر انھیں کہاں اور کس جگہ” فحاشی“ ہو رہی ہے، اس کا الہام ہو جاتا ہے ۔ ان مخبروں کو اس واقعے کی خبر کیوں نہ ہوئی ۔ اور وزیرِ اعلیٰ کی آمد سے پہلے مقامی انتظامیہ نے کیا اقدامات کیے ۔
پھر یہ کہ کیا وہاں کوئی ایسا فرد موجودنہیں تھا، جو پولیس کو اطلاع دیتا ۔ یہ بھی ایک پیچیدہ معاملہ ہے ۔ اگر کوئی پولیس کو کسی ایسے واقعے کی اطلاع دینے کا حوصلہ کر بھی لیتا ہے تو اول تو پولیس اسی کو دھر لیتی ہے ۔ پھر اس کے ساتھ وہ سلوک ہو تا ہے کہ وہ پولیس کو کبھی ایسے جرائم کی اطلاع دینے کا خطرہ بھی مول نہیں لیتا، جن کا نقصان خود اس نے اٹھایا ہوتا ہے ۔
مزید یہ کہ اگر اس واقعے کی بھنک اخباری نمائندوں اور ٹی وی چینلوں کو ہو سکتی ہے تو وہاں خانگڑھ کی مقامی انتظامیہ کو کیوں نہیں ہو ئی، شہریوں کی جان ومال اور ان کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا جس کی قانونی ذمے داری ہے ۔ چلیں یہ واقعہ ہو گیا ۔ موقع پر پولیس نہیں پہنچ سکی ۔ کیا بعد میں پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے اس ضمن میں کوئی قدم اٹھایا ۔ یہ وہ سوال ہیں، جن پر وزیرِ اعلیٰ کو غورکرنا چاہیے تھا، اور دیکھنا چاہیے تھا کہ ان کی انتظامیہ کیا کر رہی ہے ۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ کیا وہ خود جہاں نہیں پہنچ سکیں گے، وہاں شہریوں کو انصاف اور جان ومال، اور عزت و آبرو کا تحفظ نہیں ملے گا!
دوسرا واقعہ بھی اسی طرح سوالوں کی پنڈ ہے ۔ ضعیف میاں بیوی کی اراضی پر قبضہ گروپ قابض کیسے ہو گیا ۔ بلکہ اس سلسلے میں اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کے ہوتے ہوئے قبضہ گروپ وجود میں کیسے آ گئے ۔ اور پھر ان قبضہ گروپوں کو با اثر شخصیات کی پشت پناہی کیسے حاصل ہو گئی ۔ یہ با اثر شخصیات کون ہیں ۔ کیا یہ خودحکمرانوں کی پالی ہوئی جونکیں نہیں ۔ کیا یہ وہی نہیں، جو بھیڑیوں کے روپ میں حکمران بنے ہوئے ہیں ۔ ایک ایسی حکومت کے ہوتے ہوئے، جو آئین اور قانون کی عملداری سے سروکار رکھتی ہو، نہ صرف ایسے قبضہ گروپ، بلکہ ان کی پشت پناہی کرنے والی با اثر شخصیات کبھی وجود میں نہیں آ سکتیں ۔ وزیرِ اعلیٰ کو ان سوالوں پر توجہ دینی چاہیے ۔
جیسا کہ پہلے بھی بات ہوئی، اگر خانگڑھ میں مقامی انتظامیہ موجود ہے، تو وہاں یہ قبضہ گروپ کیا کر رہا تھا ۔ کیا یہ انتظامیہ یا اس کے ارکان خود اس قبضہ گروپ کے ارکان میں تو شامل نہیں ۔ یہاں پولیس اور عدالت کیا کر رہی تھی ۔ چلیں عدالت نے مذکورہ اراضی کو قبضہ چھڑوا کر اس کے اصل مالکان کے حوالے کرنے کا حکم دیا ۔ کیا انتظامیہ اس حکم پر عمل کروا سکی ۔ اور نہیں، تو کیوں ۔ پھر یہ کہ وہ انتظامیہ، جس نے وزیرِ اعلیٰ کے حکم پر چند گھنٹوں میں مقبوضہ اراضی کو قبضہ گروپ سے خالی کر وا لیا، وہ یہ کام پہلے کیوں نہ کر سکی ۔ کیا خانگڑھ کی مقامی انتظامیہ کے لیے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کا حکم، عدالت کے حکم سے زیادہ وقعت رکھتا ہے ۔ کیا خانگڑھ کی مقامی انتظامیہ کے خلاف توہینِ عدالت کی کاروائی عمل میں نہیں لائی جانی چاہیے ۔ اور مقامی انتظامیہ کے پاس ضعیف میاں بیوی کی اراضی کی دیوار دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے پیسہ کہاں سے آ گیا ۔ مزید یہ کہ خانگڑھ، بلکہ پورے پنجاب میں، ایسے کتنے شہری ہیں، جن کی زمینوں گھروں پر قبضہ گروپ قابض ہیں، اور وہاں کی انتظامیہ کیا کر ر ہی ہے ۔ وزیر اعلیٰ کو ان سوالوں پر متوجہ ہونا چاہیے ۔
یہ اور ایسے ہی لاتعدا د واقعات ہیں، اورپھر یہی شاہانہ طرزِ حکمرانی ہے، جو یہ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ پاکستان میں آئین اور قانون کی پاسداری شہریوں کے ذہنوں اور طرزِ عمل میں جاگزیں کیوں نہیں ہوتی ۔ کیوں یہ بے چارے شہری کھلی کچہریوں اور درباروں کے باہر قطاروں میں کھڑے اپنی عزت وآبرو لٹا اور عمریں گنوا دیتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، اور وزیروں اور مشیروں کی فوج کے روپ میں چھپے یہ شہنشاہ، بادشاہ، شہزادے، شہزادیاں، ان کے درباری، اور امرا و نوابین، اور ان سے جڑی اشرافیہ نے آئین، قانون، جمہوریت، پارلیمان اور تمام آئینی اور قانونی اداروں (سپریم کورٹ کو چھوڑ کر، جواس خلعت کو پہننے سے انکاری ہے) کو، میڈیا سمیت، شاہی خلعت میں لپیٹا ہوا ہے ۔ اس کا مکمل ثبوت ان کا شاہانہ طرزِ حکمرانی ہے ۔
یہ کبھی آئین اور قانون کو اپنا کام معمول کے مطابق نہیں کرنے دیں گے، کیونکہ اس طرح ان کی شاہی جاگیروں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔ ان کے اس اثر کو توڑنے کا پہلا قدم، جسے انھوں نے آئینی اور قانونی تحفظ دیا ہوا ہے، یہ ہے کہ شہری ان سے مطالبہ کریں اور ان پر دباؤ ڈالیں کہ صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، وزیروں، مشیروں اور تمام حکومتی اہلکاروں کے صوابدیدی اختیارات، اور ساتھ ہی ساتھ صوابدیدی فنڈز کا مکمل خاتمہ کیا جائے ۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ان جھوٹے جموری حکمرانوں کے شاہی طرز حکمرانی کا پہلا ستون خود بخود منہدم ہو جائے گا ۔
[یہ تحریر 16 اگست 2012 کو مکمل ہوئی، اور یکم ستمبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوئی ۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں