یہ تحریر ایک گذشتہ پوسٹ، ”ہنداور سندھ تہذیبیں، اور سیاست کے لیے مذہب کا استعمال“ سے جڑی ہوئی ہے ۔
جیسا کہ میرا خیال ہے، اور یقینا ہر کسی نے، جو تیز نظر رکھتا ہو گا، یہ مشاہدہ کیا ہو گا، اور جیسا کہ سیموئیل جانسن نے حُب الوطنی کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ایک غنڈے کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے، تو اسی طرح، تاریخ بھی ان دانشوروں، اہل ِ ادب، رہنماؤں، برادریوں، ٹکڑیوں، قوموں، اور ایسے ہی داخل کی طرف مرتکز افراد اور گروہوں کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے، جو خود کو بالخصوص، ایسے معاشروں، قوموں، اورتہذیبوں کے ہاتھوں کسی نا انصافی کا شکار سمجھتے ہیں، جو ایک طرف، معیشت، سیاست، فلسفے، سائنس، سپورٹس، وغیرہ، میں، اور دوسری طرف، ترقی، سماجی تعیشات، ٹیکنالوجی، وغیرہ، میں ان سے پیش قدم ہوتے ہیں ۔
بلکہ اس سے بڑھ کر میرا خیال یہ ہے کہ اس متذکرہ بالا ہجوم کی موجودگی میں تاریخ اپنا سچا وجود، یا جواز پانے سے محروم رہی ہے ۔
لہٰذا، کچھ نئے نعرے وضع کیے جا سکتے ہیں: تاریخ کو اپنا سچا وجود حاصل کرنے دو! تاریخ کو مظلوموں کے بوجھ سے چھٹکارا پانے دو!
کیا تاریخ کا یہ سچا وجود، کسی اور گروہ کے ہاتھوں اس کے استحصال کا ایک اور جواز تو نہیں، تاکہ یہ گروہ اس سے فائدہ اٹھا سکے؟
میرا خیال ہے، نہیں! اور بہ ایں سبب میں نے اس پوسٹ کو ”تاریخ کی مہم“ کا نام دیا ہے ۔
میرے نزدیک، تاریخ ایک دلدل ہے، اور ایک تصویر (پینٹنگ) بھی ۔
ایک مورخ یا تاریخ کا قاری، اس دلدل میں دھنس بھی سکتا ہے، اوراس تصویر کی زیادہ سے زیادہ تفصیلات حا صل بھی کر سکتا ہے ۔ میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں: یہ ایک مسلسل تصویر ہے ۔ اس تصویر میں یہاں وہاں کچھ قطعے شکستہ یا غیر واضح ہو سکتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر یہ تسلسل اور تواتر کی حامل ہے؛ اور یہاں اس بات کا اضافہ کرنا ضروری ہے کہ جیسے ہم کہتے ہیں، اور یہ چیز ناگزیر بھی ہے کہ ہمیں اس انسانی سیارے کو بچانا ہے: اس تصویر کو جاری رکھا جائے! (ٹو بی کانٹینیوڈ!)
اور اس بات کا انحصار، مورخ اور تاریخ کے قاری کے رویے پر ہے کہ وہ تاریخ کو کس طرح دیکھتے ہیں؛ مزید، اس کا دارومدار تاریخی منصوبے کی نوعیت پر بھی ہوتا ہے کہ آیا ان کے لیے تاریخ ایک دلدل ثابت ہو گی یا ایک تصویر ۔
اگر وہ تاریخ کی مہم پر نکلتے ہیں، یعنی تاریخ لکھنے یا تاریخ پڑھنے کی مہم پر نکلتے ہیں، اور ان کا مقصد یہ ہے کہ چند مخصوص ”اصول“ دریافت کیے جائیں، جو ان کے حالیہ وجود، یا ان کے متصورہ وجود کے طورطریقوں کو جواز عطا کریں گے، اور ان کا یہ متصورہ وجود ماضی سے متصل بھی ہو سکتا ہے؛ تو وہ لازماً اس دلدل میں پھنس جائیں گے ۔
اور اگر وہ اس مقصد کے ساتھ اس سفر پر نکلتے ہیں کہ وہ اس تصویر کی زیادہ سے زیادہ تفصیلات جان سکیں، تو وہ اپنے مقام پر مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہیں گے، اور اپنے حالیہ وجود کو کسی اور وجود یا کسی متصورہ وجود کے ساتھ تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے ۔
یہاں یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ متصورہ وجود کے لیے مواد یا ساز وسامان، تاریخ سے اکٹھا کیا جاتا ہے، اور بالعموم یہ متصورہ وجود مستقبل کی کسی جہت کا حامل نہیں ہوتا ۔ یا اگر اس میں مستقبل کی جہت پائی جاتی ہے، جیسا کہ موجودہ متشدد مذہب پسند دعویٰ رکھتے ہیں، تو یہ ایک ایسے متصورہ وجود پر مشتمل ہوتی ہے، جسے تصویر کے موجودہ حصے پر منطبق کیا جانا ہوتا ہے ۔
میں یہ قطعا ً نہیں کہہ رہا کہ جیسے ’X‘ تاریخ کہیں موجود ہے، جسے ہمیں ڈھونڈ نکالنا ہے؛ مراد یہ کہ ایسی کوئی تاریخ وجود رکھتی تھی، اور ہمیں اسے دریافت کرنے کی ضرورت ہے ۔ میرا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم اپنی پسند یا خواہش کے مطابق تاریخ لکھنے میں آزاد ہیں؛ یا تاریخ کو جیسی صورت چاہیں، اسے اس طرح کی شکل دینے میں آزاد ہیں ۔ یا جیسا کہ ”مظلوم قومیں یا برادریاں“ یہ چاہتی ہیں کہ تاریخ ایسی ہو، یا ایسی نظرآئے ۔ میں تو محض یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اس تصویر کو زیادہ سے زیادہ تفصیلات کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اس تصویر کو زیادہ سے زیادہ تفاصیل کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت کیوں ہے؟
میں یہ جواب نہیں دینا چاہوں گا کہ اس تصویر کے تسلسل اور تواتر کو برقرار رکھنے کے لیے ۔ میرا یہ مطلب قطعا ً نہیں ۔
جو کچھ میں کہنا چا ہتا ہوں، یہ ہے: یہ ایک مسلسل ومتواتر تصویر ہے، اور ہم اس تصویر کے اندر زندہ اور چل پھر رہے ہیں (گو ہم اس سے پرے جانے کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں)، اور کیا اس بات کا گمان بھی کیا جا سکتا ہے کہ ہم اس تصویر کی سطح کے ایک ایسے ٹکڑے پر زندہ اور چل پھر رہے ہوں، جو ٹوٹا پھوٹا اور شکستہ حال ہو ۔
یہاں میرے ذہن میں ”جراسِک پارک“ کا ایک منظر پھر نے لگا ہے ۔ جب ڈائینو سار گاڑی کو نیچے کھائی میں گرا رہے ہیں، جس میں ان کا بچہ بند ہے، تو عورت کے پاؤں جس شیشے پر ٹکے ہوئے ہیں، اس میں دراڑیں پڑچکی ہیں اور ٹوٹنے والا ہے، اور اگر عورت گرتی ہے تو وہ سیدھی کھائی میں جا گرے گی ۔
کیا ایسی سطح پر انسان زندہ رہ سکتا ہے!
اور جیسا کہ یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے: یہ غیر شکستہ اور مسلسل تصویر ہماری زندگی کے لیے کیوں ضروری ہے ۔
میرا جواب یہ ہو گا: جہاں تک زندگی کی دوسری صورتوں کا تعلق ہے، جو عقلی وجود کی خام سطح پر زندہ ہیں، ان کے لیے تو اس تصویر، یا اس کے تسلسل یا اس کی شکستگی کے بارے میں مشوش ہونا قطعاً ضروری نہیں ۔ تاہم، عقل کے حامل انسانوں کے لیے، یاعقلی شعور کی اونچی سطح کی صورت ہائے حیات کے لیے، یہ چیز ناگزیر ہے کہ اس مسلسل تصویر کے اندر ان کی زندگی ایک مسلسل وجود کی حامل رہے ۔
مجھے کارل پاپر کی ایک بات یاد آتی ہے کہ ہمارے اذہان، قید خانوں کی طرح ہیں،اور ہم ان سے فرار اختیار نہیں کر سکتے ۔ ہاں، ہم ان کی حدوں کو توسیع دینے میں آزاد ہیں ۔ اور ہمارے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ ہم اپنے ذہنوں کی چار دیواری کو جتنا کشادہ کر سکتے ہیں ، کرتے رہیں، اورجتنا پھیلا سکتے ہیں، پھیلاتے رہیں ۔
میں سمجھتا ہوں تاریخ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے ۔ ہم اس تصویر کو نظر انداز نہیں کر سکتے؛ یا اپنی خواہشات، یا تقاضوں کے مطابق اسے تبدیل نہیں کر سکتے ۔ ہاں، ہم اس تصویر کو زیادہ سے زیادہ تفصیلات کے ساتھ جانیں اور دیکھیں، اس چیز میں ہم آزاد ہیں ۔
اس ضمن میں ایک مرتبہ پھر رومیلا تھاپر پر نظر ڈالنا مناسب ہوگا:
سوال: کیا یہ کہنا مبنی بر انصاف ہو گا کہ آپ کے تجزیے کی بنیادیں تاریخی مادیت پر رہی ہیں؟
جواب: میں اسے اتنا سادہ نہیں کہہ سکتی ۔ میرا خیال ہے کہ جس نے بھی بیسویں صدی میں تاریخ لکھنے کا کام کیا، اسے تاریخی مادیت کو سنجیدگی سے لینا پڑا ہوگا ۔ آپ اسے تسلیم کرتے ہیں یا نہیں، یہ ایک دوسرا معاملہ ہے ۔ اگر آپ اسے مسترد کرتے ہیں، توانھیں یہ جاننا ہو گا کہ کیوں ۔ میں نے جزواً تاریخی مادیت سے اثر قبول کیا ہے، جزواً فرانسوی تقویمی مکتب ِ تاریخ سے، بین الشعبہ جاتی کام سے، اور خود اپنے خیالات سے اثر قبول کیا ہے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ انڈیا میں مارکس وادیوں اور دوسروں اور لبرل مورخوں کے درمیان مباحثے سے بہت سے تصورات نے جنم لیا ہے ۔ لہٰذا، تاریخ بدل گئی ہے ۔
[ص: 109، وائسز آف سینیٹی: ہار بِنگرز آف پیس، (آرکیٹائپس، ہینرش بول سٹفٹونگ) دسمبر2008، لاہور]
جیسا کہ رومیلا تھاپر کا کہنا ہے، مورخوں کو ہمیشہ اپنے آلات ، اپنی منہاجیات کوتیز کرتے رہنا چاہیے؛ اسی طرح، تاریخ کے قارئین کو بھی اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ تاریخ کے اند ر سے ایسا کچھ برآمد نہیں کیا جاسکتا، جو کسی کمیونیٹی یا قوم کو کوئی شناخت دے سکے، یا ماضی سے اخذ کی گئی کوئی متصورہ شناخت دے سکے، جسے تصویر کے اس حصے پر چسپاں کیا جا سکتا ہو، جو مستقبل سے تعلق رکھتا ہے ۔
تاریخ جو کچھ کرتی ہے، وہ محض زیادہ سے زیادہ سے تفصیلات اکٹھی کرنا ہے، تاکہ تصویر زیادہ واضح ہواور زیادہ قابلِ فہم ۔ اور یوں زیادہ مسلسل بھی ۔
اور یہی وہ چیز ہے، جس میں تاریخ (تصویر) اپنے مستقلا ً بار بار لکھے جانے اور مستقلا ً بار بارپڑھے جانے کا جواز پاتی ہے ۔
سو وہ لوگ تاریخ کی دلدل میں دھنس چکے ہیں، جوتصویر کے کسی ایک قطعے کو تصویر کے کسی دوسرے قطعے پر چسپاں کرنے پر بضد ہیں، اور وہ تصویر کے اس قطعے کی تفصیلات سے واقفیت بھی نہیں رکھتے ۔ افسوسنا ک بات یہ ہے کہ یہ لوگ تصویر کے کلی نظارے کی تمنا سے بھی عاری ہیں، اور اس تصویر کے اندر زندہ بھی ہیں ۔ وہ تصویر کو پھاڑتے ہیں، اپنی پسند کا ٹکڑا لے کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں،اور پھر اس بات کو اپنی زندگی کا مشن قراردے لیتے ہیں کہ وہ تصویر کو اپنی پسند کے رنگ استعمال کر کے نئے سرے سے بنانا چاہتے ہیں، جبکہ وہ دلدل میں دھنسے ہونے کے ساتھ ساتھ کلر بلائنڈ بھی ہیں!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں