نیو یارک ٹائمز میں 2 اگست کو ڈیوڈ بروکس کا مضمون ایک خط سے شروع ہوتا ہے: ’پچھلے پانچ برس کے عرصے میں، میں نے ایک کامیاب کاروبار کھڑا کیا ہے ۔ میں نے بہت محنت کی ہے، اور مجھے اپنی کامیابی پر فخر ہے ۔ مگر صدر اوباما مجھے بتا رہے ہیں کہ سماجی اور سیاسی قوتوں نے اس کاروبار کو کھڑا ہونے میں مدد دی ۔ مِٹ رومنی اسرائیل گئے اورفرمایا کہ یہ ثقافتی قوتیں ہیں، جو اقوام کی دولت میں کمی بیشی کی توجیہہ کرتی ہیں ۔ میرے پلے کچھ نہیں پڑرہا ۔ میری کامیابی، کس حد تک میری کامیابی ہے، اور میری کامیابی، کس حد تک خارجی قوقوں کی کامیابی ہے ۔‘
بروکس کے جواب کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے: جب آپ نوجوان ہوتے ہیں تو خود کو سپر مین تصور کرتے ہیں، جو سب کچھ کرسکتا ہے ۔ جب تیس چالیس برس کے ہوتے ہیں تو ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ کی طرح سوچنا شروع کردیتے ہیں ۔ اب آپ اپنے اختیار کے تخمینے کو گھٹا لیتے ہیں اور ان اداروں کو زیادہ اہمیت دینے لگتے ہیں، جن کے درمیان آپ زندہ ہوتے ہیں ۔ جب پچاس ساٹھ کی عمر کو پہنچتے ہیں تو آپ ایک ماہرِ عمرانیات بن جاتے ہیں، جو یہ سمجھتا ہے کہ افراد کے بجائے تعلقات زیادہ طاقت کے حامل ہیں ۔ اور ستّر اسّی کے پیٹے میں پہنچ کر آپ ایک قدیم تاریخ دان بن جاتے ہیں ۔ اب آپ کا ذہن دہائیوں اور صدیوں پر تیرنے لگتا ہے، اور آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کی ساخت اور کامیابی میں قدیم باشندوں کی قدیم روایات نے کتنا اہم کردار ادا کیا ہے ۔ مختصر یہ کہ جیسے جیسے بالغ نظری ترقی کرتی ہے، اور آپ کا تناظر وسیع تر ہوتا جاتا ہے، افراد کم طاقت ور، اور افراد پر خارجی قوتوں کا اثر کہیں زیادہ طاقت ور محسوس ہونے لگتا ہے ۔
بروکس نے اس خط میں اٹھائے گئے سوال کا جو جواب دیا ، کیا اس کا جواب یہی بنتا ہے۔آپ کے ذہن میں بھی یہی سوال آرہا ہو گا۔ میں نے بھی ایسا ہی سوچا۔ میراخیال ہے کہ سوال کچھ اور تھا، گوکہ بروکس کا جواب غلط نہیں، لیکن اس کا جواب ،سوال کا پورا درست جواب نہیں۔ سوال اصلاً سیاسی اور معاشی جہت کا حامل ہے : دولت ،افراد تخلیق کرتے ہیں ، یا حکومتیں۔ کاروبار ، افراد شروع کرتے ہیں؛ سرمایہ کاری، افراد کرتے ہیں؛ محنت مشقت افراد کرتے ہیں؛ خطرہ ، افراد مول لیتے ہیں۔یا حکومتیں۔جیسا کہ خط لکھنے والے نے پوچھا کہ محنت میں نے کی، اور اپنے کاروبار میں کامیابی حاصل کی، اور اب اوباما اور مِٹ رومنی مجھے بتا رہے ہیں کہ میرے کاروبارکو کامیاب تو حکومت نے بنایا ۔
پاکستان کی طرف واپس آتے ہیں ۔ یہاں بھی حکومت اور اہلیانِ حکومت سب یہ سمجھتے ہیں، پاکستانی شہری اگر محنت مشقت کرتے ہیں، کاروبار کھڑے کرتے ہیں، سرمایہ کاری کر کے خطرے اٹھاتے ہیں، اوریوں دولت، تخلیق کرتے ہیں تو یہ کامیابی، حکومت کی کامیابی ہوتی ہے، شہریوں کی نہیں ۔ پاکستان کے حوالے سے یہ سوال اٹھانا نہایت ضروری ہے، کیونکہ اس سوال کے جواب پر حکومت کی پالیسیوں کا انحصار ہوتا ہے ۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ دولت وہ تخلیق کرتی ہے، شہری نہیں، تو اس کی پالیسیاں بالکل مختلف ہوں گی، اور اگر حکومت یہ احساس رکھتی ہے کہ دولت، افراد یعنی شہری تخلیق کرتے ہیں تو اس کی پالیسیاں بہت مختلف انداز کی ہوں گی ۔ پہلی قسم کی پالیسیاں، پورے ملک کے کاروبار پر حکومت کا زیادہ سے زیادہ اختیار قائم کرنا چا ہیں گی، جبکہ دوسری نوع کی پالیسیاں شہریوں کو زیادہ سے زیادہ آزادی اور اختیار دینا چاہیں گی ۔ اور بالآخر، اسی چیز سے یہ فیصلہ ہوگا کہ ملک میں زیادہ دولت تخلیق ہو گی یا کم ۔ صاف بات ہے کہ اگرکاروبار پر حکومت کا کنٹرول زیادہ ہو گا تو دولت کم تخلیق ہو گی، اور حکومت کاکنٹرول کم ہو گا تو دولت بیش از پیش تخلیق ہو گی ۔
یہ کوئی اسّی کی دہائی کے آخری برسوں کی بات ہے کہ مجھے پہلی مرتبہ ایک دوست کے ہمراہ پشاورجانے کا موقع ملا تھا ۔ اورمیرے ذہن میں وہ تاثرات ابھی تک باقی ہیں ۔ ہم قصہ خوانی بازار کے ایک ہوٹیل میں ٹھہرے تھے، اورجیسا کہ مجھے پشاوری چپل پہننے کا بہت شوق تھا، ہم نے نفیس قسم کی چپل کی تلاش میں قریب قریب پورا پشاور شہر گھوم ڈالا تھا۔ اور یہاں جو چیز نہ دیکھنے کے باوجو د، خود چیخ چیخ کر یہ کہتی تھی کہ مجھے دیکھو، وہ تھا غربت کا پھیلاؤ ۔ اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ گلیوں بازاروں میں بہت کم بزرگ اور بچے ایسے ہوں گے، جو بھیک مانگتے نظر نہ آتے ہوں ۔ میں کانپ کر رہ گیا تھا ۔
جب تک میں پشاور نہ گیا تھا، تب تک میں جن پختونوں سے ملا تھا اور جتنا ان کو دیکھا تھا، اور ان کاجو مشاہدہ کیا تھا، اس کی بنا پر پختونوں کے بارے میں میرے ذہن میں جو تصور تشکیل پایا تھا، وہ بہت مختلف تھا، اور ابھی تک اسی طرح زندہ و توانا ہے ۔ میں نے انھیں بہت محنتی اور صاف گو پایا ۔ کوئی کام جتنا زیادہ محنت طلب ہوتا، اتنے ہی زیادہ پختون اس کام سے متعلق نظر آتے ۔ انھیں دنوں میں نے پختونوں کے بارے میں ایک نثری نظم لکھی تھی، جس میں انھیں سمجھنے کی سعی کی گئی تھی:
میں نے پٹھانوں کو محنت کرتے ہوئے دیکھا ہے
وہ جان لڑا کر جان مارتے ہیں
شاید وہ بے خبر ہیں کہ وہ انسان ہیں
یا پھر وہ خوب جانتے ہیں کہ انسان ہونا کیا ہے!
مگر اب میں نے جو کچھ پشاور میں دیکھا، وہ اس تصور کے بالکل الٹ تھا ۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ اتنے محنتی اور کاروباری بصیرت رکھنے والے لوگوں میں اتنی غربت، اتنی بے مائیگی، اور اتنی بے بسی کیوں ہے ۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ پختونوں کے اتنے محنتی ہونے کے باوجود پشاور جیسے شہر میں اتنی غربت کیسے چھا گئی ۔ اورمیں سمجھتا ہوں کہ ڈیوڈ بروکس سے جو سوال کیا گیا، میرا یہ سوال اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی شخص میں محنت ومشقت کا مادہ موجود ہو، کاروبار کی بصیرت بھی موجود ہو، لیکن وہ کاروبار میں ناکام ہو جائے ۔ تاہم، ایسا ہونا محالات میں سے ہے کہ کاروبار میں ناکام ہونے والوں کی تعداد اکثریت سے بھی زیادہ ہو جائے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ چند لوگ کاروبار میں ناکامی کا شکار ہو سکتے ہیں، اور اس ناکامی کی ذمے داری بھی ان پر ڈالی جا سکتی ہے، لیکن اگر اکثریت ناکام ہونے لگے تو پھر اس میں لوگوں کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ اس کی ذمے داری اوباما، مِٹ رومنی، آصف علی زرداری، راجہ پرویز اشرف، امیر حیدر ہوتی، اور حکومت کے وزیروں اور مشیر وں پر ڈَلنی چاہیے ۔ مراد یہ کہ غربت جتنا عام ہوگی، اس کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہو گا ۔
گذشتہ برس اور اس برس بھی مجھے کئی مرتبہ پشاور جانے کا موقع ملا، گو کہ یہاں اب وہ پہلے والا نقشہ موجود نہیں، مگر یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ کوئی انقلاب آ گیا ہے، شہریوں کا معیارِ زندگی بہت بلند ہو گیا ہے، اور ہر طرف خوشحالی لہرا رہی ہے ۔ تو کیا یہ جتنی تبدیلی آئی ہے، جتنا فرق اب دیکھنے میں محسوس ہوتا ہے، کیا اس کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہے ۔ یا یہ کہ کیا لوگوں نے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ یقینا ایسا نہیں ہے ۔
بلکہ جیسا کہ حالی نے کہا تھا: خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی / نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا ۔ تو او ل شرط تو خود شہریوں کا عزم و ارادہ ہوتا ہے، جو بہتری کے اس عمل کا محرک ثابت ہوتا ہے ۔ حکومت تو بہت بعد میں آتی ہے ۔ یوں بھی تو فرض کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی فرد اپنی حالت کو بہتر نہ بنانا چاہے، تو کیا حکومت صرف اپنی کوششوں سے اس کوخوشحال بنا سکتی ہے ۔ وقتی طور پر تو ایسا ہو سکتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ فرد محتاج بن کر رہ جائے گا ۔ حکومت یا دوسروں کی مدد کا عادی ہو جائے گا ۔ اورکیا دنیا میں کوئی ایسا فرد ہو گا، جو اپنی حالت اور زندگی کو بہتر نہ بنانا چاہے ۔ ہر فرد، ہر بشر میں یہ مادہ فطری طور پر موجود ہوتا ہے کہ وہ بہتر سے بہتر، اور خوب سے خوب تر کی جستجو میں سرگرداں رہتا ہے ۔
اگر ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ یہ فرد ہی ہیں، جو خود سوچتے ہیں، خود فیصلہ کرتے ہیں، خود کوئی کاروبار شروع کرتے ہیں، دن رات محنت کرتے ہیں، اور یوں دولت تخلیق کرتے ہیں، اوراپنی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ، اسی عمل میں دوسروں کی ضروریات بھی پوری کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔ بلکہ علمِ معاشیات کی تعریف ہی یہ کی جاتی ہے کہ ایک دوسرے کی باہمی ضروریات کو بہتر سے بہتر طورپر پوری کرنے کے انسانی طرزِعمل کا مطالعہ ۔ اب ذرا یہ سوچیں، جب ایک فرد کوئی کاروبار کرنے نکلتا ہے، کوئی کاروبار قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے مدد کہاں سے ملتی ہے ۔ یقیناً اپنے عزیزوں، دوستوں اور رفقا سے ۔ یہ مدد، مشوروں، مالی تعاون، وغیرہ، کی صورت میں ہوتی ہے ۔
جبکہ دوسری طرف نظر ڈالیں کہ جب کوئی عام فرد کاروبار شروع کرتا ہے تو اس میں حکومت کیا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے تو ہمیں صرف اورصرف رکاوٹیں نظر آتی ہیں ۔ ہر قدم پر حکومت کا کوئی محکمہ، کوئی شعبہ، کوئی حکومتی اہلکار، کوئی حکومتی کارندہ، کوئی رکاوٹ اٹھائے کھڑا نظر آتا ہے ۔ خواہ آپ کسی چھوٹے سے کاروبار سے تعلق رکھتے ہوں یا اس کے مالک ہوں، آپ کو اس بات کا تجربہ ضرور ہوا ہو گا کہ حکومت کن کن شکلوں، اور کس کس روپ میں آپ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے ۔ امریکی صدر، رونالڈ ریگن کا تو کہنا تھا کہ حکومت مسئلے کاحل نہیں، بلکہ خود مسئلہ ہے ۔ سوچیے ہمیں، شہریوں کو، کیسی حکومت درکار ہے ۔ ایک ایسی حکومت، جو خود شہریوں کے لیے مسئلہ بن بیٹھے، جیسی کہ موجودہ حکومت ہے ۔ یاایک ایسی حکومت، جو مسائل کے حل میں شہریوں کی دوست ثابت ہو! اور شہریوں کوزیادہ سے زیادہ دولت تخلیق کرنے کی آزادی دے!
آئندہ عام انتخابات ایسی حکومت کا فیصلہ کرنے کے لیے بہت اچھا موقع مہیا کر سکتے ہیں!
[یہ تحریر روزنامہ مشرق پشاور میں 9 ستمبر کو شائع ہوئی ۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں