یہ 1998 کی بات ہے کہ ایک کتاب کی تلاش کے سلسلے میں اردو بازار میں ’’دوست ایسوسی ایٹس‘‘ پر جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ کتابوں کے پبلشر اور تقسیم کار تھے۔ یہاں میں جناب ادریس اعوان کے ساتھ گیا تھا، جو خود ’’دارالکتاب‘‘ کے نام سے اردو بازار میں اشاعت کا کام کرتے تھے۔ ان دنوں ’’دوست ایسوسی ایٹس‘‘ کے انچارج جناب شعیب عادل ہوا کرتے تھے، جو اب ماہنامہ ’’نیا زمانہ‘‘ شائع کرتے ہیں۔ آہستہ آہستی ان سے اچھے مراسم ہو گئے۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے کسی اخبار وغیرہ میں لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انھوں نے جناب عطاالرحمٰن سے ملوا دیا، جو اس وقت روزنامہ ’’زندگی‘‘ کی ادارت کر رہے تھے۔ جناب مجیب الرحمٰن شامی چیف ایڈیڑ تھے۔ ایک دن جناب عطالرحمٰن سے ملاقات ہوئی، اور پھر میں باقاعدگی سے، ہر ہفتے ’’زندگی‘‘ کے لیے کالم لکھنے لگا۔
12 اکتوبر 1999 کو مارشل لگا۔ اور جب کچھ عرصے بعد ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ کو روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کا ہفت روزہ میگزین بنا دیا گیا، اور اس کا فارمیٹ بالکل تبدیل ہو گیا تو میرا کالم بھی بند ہو گیا۔
میں جناب شعیب عادل، اور جناب عطاالرحمٰن کا ہمیشہ ممنون رہوں گا۔ اور جناب ادریس اعوان کا بھی، جنھوں نے متعدد کتب کی تلاش میں غیرمعمولی تعاون کیا۔
روزنامہ ’’زندگی‘‘ میں شائع ہونے والا پہلا کالم ذیل میں نقل کیا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ آج بھی تازہ ہے، اور حالات سے مناسبت رکھتا ہے، کیونکہ نہ تو تھانوں کی حالت بدلی ہے، نہ نچلی سطح پر عدالتوں کی:
ایک ایف- آئی- آر کی قیمت
خدا نہ کرے آپ کے گھر چوری ہو جائے یا ڈاکہ پڑ جائے؛ یہ کوئی منحوس بول نہیں، بلکہ آج کی صورت حال میں حقیقت پسندانہ طرزِعمل کا اظہار ہے۔ یہ سانحہ، جو اب محض واقعہ بن کر رہ گیا ہے، کسی کے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ چوری ہو گئی یا ڈاکہ پڑ گیا، اس کے بعد آپ مصر ہوں گے کہ اس چوری یا ڈاکے کی ایف۔ آئی۔ آر بھی درج کروائی جائے۔ اکثر لوگ جن میں شاید چور یا ڈاکو بھی شامل ہوں، صرف اور صرف ایف۔ آئی۔ آر درج کروانے کے مراحل سے خوف کھانے کی بنا پر چوری یا ڈاکے سے بچنا چاہتے ہیں۔ یا چھوٹی موٹی چوری یا ڈاکے کو گول کر جاتے ہیں اور یوں قانون کے مجرم ٹھہرتے ہیں۔
بہر حال، آپ جی کڑا کر کے اور اپنی عزتِ نفس کو طاق میں رکھ کر متعلقہ ایس۔ ایچ۔ او کے دربار میں حاضری دیتے ہیں۔ وہ گشت پر ہے یا تفتیش پر گیا ہوا ہے۔ محرر یا کوئی اور اہلکار آپ سے اگلے روز آنے کے لیے کہتا ہے۔ آپ اگلے روز پھر پہنچتے ہیں۔ آپ کو زبانی گفتگو پر ٹال دیا جاتا ہے۔ حیلے بہانے سے آپ کو دِق کیا جاتا ہے کہ آپ ایف۔ آئی۔ آر درج کروانے سے باز آجائیں؛ یا یہ کہ چور یا ڈاکو کو خود تلاش کریں اور پھر تھانے آ کر اطلاع دیں۔
اب آپ سفارش کی تلاش میں بھی سر گرداں ہیں۔ اگر آپ اچھی بڑی سفارش ڈھونڈ لیتے ہیں اور وہ کارگر بھی رہتی ہے تو ایف۔ آئی۔ آر درج ہو جاتی ہے۔ بصورتِ دیگر آپ کے پاس دو راستے رہ جاتے ہیں: یا تو ایف۔ آئی۔ آر درج کروانے کی ضِد چھوڑ دیں یا پھر عدالت سے رجوع کریں۔
عدالت سے رجوع کرنا اتنا آسان نہیں کہ جی کڑا کیا، عزتِ نفس کو طاق میں رکھا اور درخواست لے کر دربار میں پیش ہو گئے۔ اس کے لیے اچھی خاصی رقم کی ضرورت ہے۔ آپ کو ایک وکیل کرنا ہو گا جو کم از کم پانچ ہزار روپے فیس تو لے گا ہی۔ درخواست کی تیاری پر بھی کچھ خرچ اٹھے گا۔ پھر یہ درخواست دائر ہو جائے گی کہ ایس۔ ایچ۔ او فلاں فلاں کو ایف۔ آئی۔ آر درج کرنے کی ہدایت کی جائے۔ (سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ کام اس کے فرائض میں شامل نہیں، جو دوبارہ ہدایت کی ضرورت پیش آتی ہے۔)
ایس۔ ایچ۔ او کو نوٹس جاری ہو گا۔ کچھ پیشیوں پر تو وہ روایتی حیلہ جوئی سے کام لے گا اور یوں کچھ دن یا ہفتے اور گزر جائیں گے۔ با لآخر وہ عدالت کے سامنے آ ہی جائے گا۔ عدالت اسے کہے گی، ’جاﺅ بچہ، ایف۔ آئی۔ آر درج کرو۔‘ وہ کہے گا، ’ٹھیک ہے مائی باپ‘ اورواپس اپنے تھانے چلا جائے گا۔ وہاں وہ آپ کو متعدد مرتبہ بلائے گا، آپ سے چوری یا ڈاکے کی تفصیلات کے بارے میں بار بار تفتیش کرے گا، کبھی آپ سے ملے گا، کبھی نہیں ملے گا، چکر لگوائے گا اور پہلے سے مختلف انداز میں ٹال مٹول کرے گا۔ آپ عاجز آ کر دوباہ اپنے وکیل کے پاس آئیں گے۔ ایک اور درخواست تیار ہوگی اور عدالت سے عرض کی جائے گی کہ وہ اپنے حکم پر عمل درآمد کروائے۔ عدالت دوبارہ ایس۔ ایچ۔ او کو بلوائے گی۔ وہ دوبارہ روایتی حربوں سے کام لے گا؛ اور آخرِ کار پیش ہو جائے گا۔ عدالت اسے ڈانٹ ڈپٹ کرے گی اور کہے گی، ’بچہ، ایف۔ آئی۔ آر درج کرو۔‘ وہ کہے گا، ’جو حکم مائی باپ۔‘ اس مرتبہ آپ امید رکھیں کہ وہ ایف۔ آئی۔ آر درج کر لے گا۔ لیکن یہ لُنج مُنج ٹوٹی پھوٹی ایف۔ آئی۔ آر ہو گی۔ کئی ہفتے یا مہینے کی باسی چوری یا ڈکیتی کی ایف۔ آئی۔ آر۔
لیکن اب ایک نیا امتحان شروع ہو جائے گا۔ پہلے آپ ایس۔ ایچ۔ او کے پاس تھانے جا کر حاضری دیتے تھے۔ اب ایس۔ ایچ۔ او یا تھانے کا کوئی اہلکار آپ کے گھر آ کر حاضری دے گا۔ اس پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں کہ قانون یا انصاف خود چل کر آپ کی دہلیز پر آ گیا ہے۔ یہ مرحلہ پہلے سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہو گا۔ آپ سو چیں گے کہ اس سے بہتر تو یہ تھا کہ آپ ہی تھانے کے چکر لگاتے رہتے کہ تھانہ آپ کے پاس نہ آتا۔
خیر، وقت کے ساتھ چوری یا ڈکیتی کا یہ واقعہ باقی حادثات اور سانحات کی طرح آپ کے ساتھ ساتھ پولیس کے ذہن (اورفائلوں) سے بھی محو ہو جائے گا۔ ہاں، آپ گاہے گاہے اس پر کڑھیں گے ضرور کہ ایک چوری یا ڈاکے کا نقصان، دوسرے ایف۔ آئی۔ آر کا خرچ۔ اور پھر آپ ایف۔ آئی۔ آر درج کروانے کی اپنی ضد پر پچھتائیں گے، اور سوچیں گے کہ چوری یا ڈکیتی کو روکنا تو آپ کے اختیار میں نہیں تھا، لیکن ایف۔ آئی۔ آر درج نہ کروانا تو آپ کے اختیار میں تھا، اور اس ضمن میں پولیس آپ کے ساتھ تعاون بھی کر رہی تھی، جسے آپ نے خود ٹھکرا دیا۔ یوں آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ایف۔ آئی۔ آر درج کروا کر حاصل بھی کیا ہوا۔ دس بارہ ہزار روپے مزید خرچ اُٹھ گیا۔
مگر ایک قانون پسند شہری ہونے کے ناطے کسی بھی ’غیرقانونی سر گرمی‘ کی ایف۔ آئی۔ آر درج کروانا آپ کی اخلاقی اور قانونی ذمے داری ہے۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ کسی بھی ’سانحے‘ کی ایف۔ آئی۔ آر درج کروانے کے لیے آپ کم از کم دس ہزار روپے بنک میں علیحٰدہ رکھ چھوڑیں۔ سمجھ لیں، یہ آپ کی بچت ہے۔ یہ ایک ایف۔ آئی۔ آر کی قیمت ہے۔
مزید برآں، یہ صورتِ حال بنکوں اور دوسرے مالیاتی اداروں کے لیے کاروبار کرنے کا ایک سنہری موقع مہیا کرتی ہے۔ وہ ایف۔ آئی۔ آر درج کراﺅ یا ایسے ہی کسی نام سے کوئی سکیم شروع کر سکتے ہیں، جو مختلف مالیت کی ایف۔ آئی۔ آر پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ آپ پانچ سو یا ہزار یا اس سے زائد روپے ہر ماہ جمع کروائیں اور مدت پوری ہونے پر آپ کی رقم منافعے سمیت آپ کو واپس مل جائے۔ اور اگر اس مدت کے دوران کسی بھی مرحلے پر آپ پر ایف۔ آئی۔ آر درج کروانے کی آفت آ پڑتی ہے تو متعلقہ ادارہ آپ کو مقررہ رقم فوراً ادا کر دے۔
حاصل یہ کہ آپ بھی مطمئن کہ ایف۔ آئی۔ آر درج کروانے کے بہانے آپ کی رقم اور ایف۔ آئی۔ آر کی ’’قیمت‘‘ محفوظ، اور مالیاتی ادارے بھی خوش کہ ان کا کاروبار اور چمک اٹھا۔
[یہ کالم 14مارچ 1999 کو مکمل ہوا، اور 21 تا 27 مارچ کے شمارے میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں