جمعرات، 5 ستمبر، 2013

سویز مکتوب کوئی ایشو نہیں!

جب سے پیپلز پارٹی کا موجودہ دورِ حکومت شروع ہوا ہے، یہ ایک آسیب میں گرفتار ہے ۔ پہلے یہ آسیب معزول عدلیہ کی بحالی سے متعلق تھا، جب سے عدلیہ کی بحالی عمل میں آئی ہے، تب سے یہ آسیب ان کی عدم قبولیت کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جب سے اس بحال عدلیہ نے  این آر او کالعدم قرار دیا ہے، تب سے یہ آسیب مقابل کچھ زیادہ ہی ’پر تشدد‘ ہو گیا ہے ۔ اور پھر جب سے این آر او کے حکم پر عمل درآمد کی کاروائی شروع ہوئی ہے، تب سے تو یہ آسیب جیسے بوتل سے باہر آ گیا ہے، یا یوں کہہ لیں کہ اپنے آپے سے باہر ہو گیا ہے ۔ کہنے سے مراد یہ ہے کہ سویز مکتوب کا ایشو اصل ایشو نہیں ۔ یہ کوئی نئی پیش رفت نہیں ۔ اصلاً یہ وہی رویہ ہے، جو اول روز سے روبہ عمل تھا ۔ ہاں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس رویے میں تیزی اور شدت کی سطح بتدریج بڑھتی رہی ہے ۔ یہ رویہ ہے ایک آزاد عدلیہ کو برداشت نہ کرنے کا ۔

گذشتہ دنوں میں نے اسی حوالے سے یہ مضمون تحریر کیا تھا، جو ذیل میں نقل کیا جا رہا ہے ۔ یہ 20 اگست کو روزنامہ ’مشرق‘ پشاور میں شائع ہوا ۔

سویز مکتوب کوئی ایشو نہیں!

سویز مکتوب کا ایشو، حکومت، اس کے اتحادیوں، ملک میں موجود اس کے حواریوں، اور سب سے بڑھ کر موجودہ عدلیہ کے مخالفین کے لیے نعمت ِ غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔

جہاں تک عدلیہ کی بات ہے تو اس کے لیے سویز مکتوب کا لکھا جانا، قانون کی عملداری کا مسئلہ ہے ۔ محض مکتوب اور وہ بھی صدر آصف علی زرداری کے حوالے سے کوئی معاملہ نہیں ۔ ایک غیر قانونی مکتوب کی کالعدمی، قانونی مکتوب کا تقاضا کرتی ہے ۔ لیکن حکومت اسے سیاسی معاملہ بنا بیٹھی ہے ۔ سیدھی سی بات ہے کہ سیاسی فوائد کشید کرنے کے لیے ۔ طرح طرح کی حیل و حجت کی جا رہی ہے، جیسے کہ یہ کہ ہم گڑے مردے اکھاڑنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔

اور بے چارے اتحادیوں کامعاملہ تو یہ ہے کہ ہمارامطلب نکلنا چاہیے، باقی سب کچھ جائے جہنم میں ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اگر ایسی”خودسر“ عدلیہ کا بھی کچھ بندوبست ہو جائے تو اتحادیوں کے مزے ہی مزے ہیں ۔ لہٰذا، وہ ایک مرتبہ پھر نئے وزیر ِ اعظم کے ہمراہ سپریم کورٹ جانے کے لیے سر ِ تسلیم نیہوڑائے ہوئے ہیں ۔ اور جو کچھ کہا جائے گا، وہاں جا کر، وہ سب کچھ کرنے کے لیے کمر باندھے ہوئے تیار بیٹھے ہیں ۔

باقی رہے حکومت کے حواری، تو ان میں بھانت بھانت کے لوگ شامل ہیں ۔ اشرافیہ کے عاشق، اشرافیہ کے مرعوبین و متاثرین، اشرافیہ سے متمتع ہونے کے متمنی، جمہوریت کے ٹھیکدار، اشرافی جمہوریت کے فدائین، قانون کو اشرافی اختیار کے راستے کی رکاوٹ گرداننے والے، آئین کو دل سے نہ ماننے اور نہ تسلیم کرنے والے، اور انھیں قبیلوں کی مختلف شاخوں کی آل اولاد ۔ ان سب کی دلیل یہ ہے کہ جمہوریت کو چلنے دیا جائے ۔ یہ سب یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ بے مہارجمہوریت، بے مہار گدھا گاڑی کی طرح ہے، اور اسے بے مہار نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ اسی لیے قانون وجود میں آیا ہے، اور آئین کی بندشیں طے ہوئی ہیں ۔ بڑا سبب اس کا یہ ہے کہ جمہوریت ایک ایسی گدھا گاڑی نہیں، جس پر گھا س پھوس، یا کوئی عام سامان لد ا ہو، بلکہ اس پر سترہ اٹھارہ کروڑ شہریوں کی زندگی کا مقدر بندھا ہوا ہے ۔ سو، جمہوریت کی گدھا گاڑی کو ایک گدھے، یا متعدد گدھوں کے اختیار میں نہیں دیا جاسکتا ۔

رہے عدلیہ کے مخالفین تو وہ تو ہر جگہ موجود ہیں ۔ کیونکہ ایک ایسی سوسائیٹی، جہاں اشرافی طبقات، قانون اور آئین کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھتے ہوں، وہاں ایک ایسی عدلیہ کے لیے اپنی حیثیت منوانا، جوئے شیر لانے کے برابر ہو گا، جو ملک میں قانون کی حکومت کا قیام چاہتی ہے ۔ جیسا کہ ظاہر ہے، اور روزانہ ثابت بھی ہو رہا ہے، کہ اس عدلیہ کو کیا کیا سہنا پڑ رہا ہے، اور اسے کیسے کیسے زچ کیا جا رہا ہے ۔

اصل معاملہ ہے بھی یہی کہ ایسی عدلیہ، پاؤں نہ جما پائے ۔ یہ کہیں جڑ نہ پکڑنہ لے ۔ صاف بات ہے کہ اگر حقیقی معنوں میں ایک آزاد عدلیہ پاکستان کا مقدر بن گئی تو اشرافی طبقات کی شاہانہ جمہوریت کا کیا بنے گا ۔ غالباً پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کو بھی، اور اشرافی طبقات کو بھی پہلی مرتبہ ایسی جمہوریت کا ذائقہ چکھنا پڑ رہا ہے، جسے کسی حد تک آئینی جمہوریت، اور قانون کی حکمرانی کے تحت جمہوریت کا نام دیا جانا چاہیے ۔ اور اصلا ً یہی، حقیقی جمہوریت ہوتی ہے ۔ بے مہار جمہوریت، طاقتور کی جمہوریت ہوتی ہے، اور پاکستان میں طاقت و اختیار، اشرافی طبقات نے اپنی دسترس میں کیا ہوا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اس عدلیہ کے خلاف اشرافی طبقات کی جنگ، اسی وقت شروع ہو گئی تھی، جب پاکستان کے وکلا، سول سوسائیٹی اور بیدار ذہن شہری، پاکستان کی عدالت ِ عظمیٰ پر جینرل مشرف کے حملے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ اور اس تحریک کا اختتام، عدلیہ کی بحالی پر ہی ہوا تھا ۔ اس تحریک کی نمایا ں پہچان یہ تھی کہ اس کی باگ ڈور، کسی سیاسی پارٹی کے ہاتھ میں نہیں تھی، نہ ہی اس کا آغاز کسی سیاسی پارٹی نے کیا تھا ۔ سیاسی پارٹیوں کو ایسے کام ہضم نہیں ہوسکتے ۔ اور تحریک کے دوران سیاسی پارٹیوں کی شرکت، دکھاوے سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی تھی، کیونکہ انھیں، جب تک یہ اقتدارمیں نہ ہوں، شہریوں یا ووٹروں کے پیچھے چلنا پڑتا ہے ۔

بعد میں جو کچھ ہوا، اس سے بھی یہی عیاں ہوتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایک آزاد عدلیہ کبھی گوارانہیں کرتیں ۔ سو، وہی پیپلز پارٹی، جو عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں مجبوراً اپنے چار ورکرز بھیجا کرتی تھی، حکومت میں آکر عدلیہ کی بحالی سے مکر گئی ۔ یوں، ایک منتخب حکومت میں بھی عدلیہ کی بحالی، ایک جلتا ہوا ایشو بنی رہی، جیسے کہ ابھی تک جینرل مشرف کی آمرانہ حکومت کا دور دورہ ہو ۔

غالب امکان یہی ہے کہ یہ سیاسی حربہ ہی تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے عدلیہ کی بحالی کو اپنا کر اپنی پالیسی کا حصہ بنا لیا ۔ اس طرح، عدلیہ کی بحالی کی تحریک کو سیاسی حمایت میسر آ گئی، جو اس کی کامیابی کے لیے ناگزیر تھی ۔ اوربالآخر عدلیہ کی بحالی کا معجزہ واقع ہو گیا ۔ اگر مسلم لیگ (ن) یہ بیڑہ نہ اٹھاتی تو پیپلز پارٹی عدلیہ کو کبھی بحال نہ کرتی ۔ یہی وہ نکتہ ہے، جو آج بھی عدلیہ کی طرف پیپلزپارٹی کے رویے کو واضح کرتا ہے ۔ اورمیں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ سویز مکتوب کوئی ایشو نہیں ۔ پیپلز پارٹی جانتی ہے کہ یہ خط لکھے جانے سے منی لانڈرنگ کے مقدمات کونسا آج ہی کھل جائیں گے ۔ پھر پیپلز پارٹی یہ بھی جانتی ہے کہ اگر آئندہ حکومت، پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں ہوتی، تو یہ مکتوب تو لازما ً لکھا جائے گا ۔ لہٰذا، سپریم کی تمام کی تمام مخالفت کا منبع، یہ سویز مکتوب نہیں، بلکہ ایک آزاد عدلیہ کے وجود کو برادشت نہ کرنا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی جان توڑ کوشش یہ ہے، اور جب تک اس کی حکومت ہے، تب تک اس کی یہی کوشش رہے گی کہ کسی طرح سپریم کورٹ کو زیر کر لیا جائے ۔ سپریم کورٹ کی عمارت کے اندر جو آزاد منش جج بیٹھے ہیں، ان کی جگہ حمید ڈوگروں کو بٹھا دیا جائے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی اگر اس میں ناکام رہتی ہے تو پورے گھر کو ہی آگ لگانے کا فیصلہ نہ کر بیٹھے ۔ ایک آزاد عدلیہ کے خلاف، اس کا اشرافی اور سیاسی عناد ایک نہ بجھنے والی آگ کی طرح ہے ۔

ایک اور بات آج ہی سمجھ لینی چاہیے کہ اگر آئندہ انتخابا ت میں پیپلز پارٹی مرکز میں حکومت نہیں بنا پاتی، اور اسے حزب ِ اختلاف میں بیٹھنا پڑ تا ہے تو اس کی ساری کی ساری سیاست کا دارومدار، آزاد عدلیہ کو نیچا دکھانے، اور اس کی تباہی پر ہو گا ۔ یہی سبب ہے کہ سویز مکتوب کوئی ایشو نہیں ۔ ایشو، آزاد عدلیہ کا وجود ہے، جو دل ِسیاستداں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے ۔

[یہ مضمون 5 اگست، 2012 کو مکمل ہوا، اور 20 اگست کو خاص مضمون کی حیثیت سے روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔ یہ پوسٹ پہلے 25 اگست، 2012 کو انگریزی بلاگ ـ نوٹس فرام پاکستان‘‘ پر شائع ہوئی۔] 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں