جب اشرافی طبقات، ریاست پر قابض ہوجائیں، جیسا کہ پاکستان میں ہوا ہے، تو وہ زندگی کے ہرشعبے پر اپنا غلبہ قائم کر لیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں، افراد کا ہر وہ گروہ، جو خود کو کسی نہ کسی طور، اشرافیہ کے ساتھ منسلک سمجھتا ہے، زندگی کا یہی اسلوب اختیار کر لیتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ مراد یہ کہ ایسے گروہ، جہاں اورجس شعبے میں بھی موجود ہیں، اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں۔ وہ خود کو ایک ایسا گروہ تصور کرتے ہیں، جو مافیا کی طرح بند اور مکمل ہے۔ یہ گروہ باہر سے ربط تو رکھتے ہیں، تاہم، باہر سے آنے والی کسی چیز یا کسی فرد کو قطعاً قبول نہیں کرتے۔ اس بیچ اہم بات یہ ہے کہ ایسا کرنے کے لیے قریب قریب ہر گروہ، ریاست کی طاقت کو استعمال کرتا ہے۔
پاکستان میں ثقافت کے شعبے میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ نہ صرف یہ کہ چند گروہوں نے ثقافت پر قبضہ کیا ہوا ہے، بلکہ وہ اپنا غلبہ مسلسل قائم رکھے ہوئے ہیں۔ مجھے یہ چیز قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ اپنے کریئر کی ابتدا میں کچھ عرصہ میں نے پی ٹی وی میں کام کیا۔ وہاں رہتے ہوئے یہ بات سمجھ آئی کہ اشرافی گروہ مختلف شعبوں پر اپنا غلبہ کیسے قائم رکھتے ہیں۔ اڑھائی برس کی سروس میں جو کچھ نظر آیا، اسے چند جملوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ چند ایک گھرانے، چند گروہ اور چند شخصیات تھیں، جو پی ٹی وی پر اجارہ رکھتی تھیں۔ آپ کہیں گے کہ پروڈیوسر تو مختار ہوتا ہو گا۔ ہرگز نہیں۔ تھوڑا بہت کہیں نہ کہیں اس کے لیے جگہ نکل آتی ہو گی؛ وگرنہ جس طرح کا نظام قائم تھا، اس میں وہ بے چارہ بےبس تھا۔ اکثر اور تقریباً سب کچھ اوپر سے، یا باہر سے ہدایت ہوتا تھا۔ ان میں مصنف سے لے کر اداکار تک، اکثر کے نام اور کام شامل ہوتے تھے۔
یہی فضا تھی، جس کے سبب مجھ سے اکثر پوچھا جاتا، آپ کس کی سفارش پر یہاں پہنچے۔ جب میں بتاتا کہ اپنی سفارش سے، تو کوئی بھی نہ مانتا۔ جب بھی کوئی نیا مصنف، یا نیا اداکار، یا نیا گلوکار وارد ہوتا، اس کے بارے میں چہ میگوئیاں ہوتیں کہ وہ کس کا چہیتا ہے، اس کے پیچھے کون ہے۔ صرف ڈرامے، موسیقی، اور دوسرے تفریحی پروگرام ہی نہیں، بلکہ پی ٹی وی میں، میں نے ہر پروگرام کے لیے کھینچا تانی ہوتے دیکھی، جس میں مذہبی پر وگرام بھی شامل تھے۔
ایک منظر مجھے آج بھی نہیں بھولتا۔ یہ پی ٹی وی سینٹر لاہور کے باہر مین گیٹ کا منظر ہے۔ وہاں نوجوان اور دوسرے بہت سے گائیکی، موسیقی اور اداکاری کے شوقینوں کا ایک جمگھٹا موجود ہوتا تھا۔ یہ سب قسمت آزما ہوتے تھے، اور اس امید پر وہاں جمع رہتے تھے، کوئی انھیں اندر بلا لے، کوئی انھیں موقع دے دے۔ اپنی سروس کے دوران، جن لوگوں کو باہر کھڑے دیکھا، ان میں سے کوئی اِکا دُکا ہی ہو گا، جسے میں نے، جب تک میں وہاں تھا، اندر کسی پروگرام میں جلوہ گر ہوتے دیکھا ہو۔ ہاں، پی ٹی وی چھوڑنے کے بعد، جب کبھی یہ چینل دیکھتا اور کہیں کوئی شناسا چہرہ نظر آجاتا تو میں سوچتا، چلیں اس کی بھی سنی گئی۔
پی ٹی وی میں کبھی کبھی آڈیشن کا چرچا بھی ہوتے دیکھا۔ یعنی نئے ٹیلنٹ کی تلاش۔ تاہم، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کوئی ایسا ٹیلنٹ نظر آیا ہو، جس کا نصیب کسی آڈیشن کے نتیجے میں کھُلا ہو۔ وہی چند چہرے، کوئی بھی پروگرام ہو، سکرین پر چھائے ہوئے تھے۔ اپنے بچپن کا ایک احساس بہت گہرا ہے۔ ایک مرتبہ گرمیوں میں آسمان پر گرد کی خبر نہیں کتنی تہیں جم گئی تھیں کہ آسمان نظر ہی نہیں آتا تھا۔ انگریزی فلسفی برکلے کے ماننے والے تو آسمان کی موجودگی کا پورا انکار کر سکتے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ گرد کے ایک گنبدِ بے در میں بند ہیں۔ نہ ہوا چلتی تھی، نہ گھٹن ختم ہوتی تھی۔ جب میں پی ٹی وی کے بارے میں سوچتا ہوں تو اس کی سکرین بھی اسی گرد سے ڈھکے آسمان جیسی معلو م ہوتی ہے۔ کچھ مخصوص چہرے تھے، جو اس سکرین پر چپکے ہوئے تھے۔ میں نے بارہا نئے پروگرام شروع ہوتے دیکھے۔ لیکن ہر پروگرام میں ہِر پھِر کر وہی شکلیں نمودار ہو جاتیں۔ جیسے بچوں کے کھیل کے بلاکس ہوتے ہیں، ان سے وہ نئی سے نئی چیز تو بنا سکتے ہیں، مگر بلاکس بدل نہیں سکتے۔
میرے خیال میں پی ٹی وی میں خرابی یہ تھی کہ اس پر چند گروہ اور شخصیات نے اجارہ داری قائم کی ہوئی تھی۔ نئے ٹیلنٹ کولانے کے لیے ”آڈیشن“ کا طریقہ موجود تھا، لیکن اسے مفلوج بنا دیا گیا تھا۔ یہی خرابی آج بھی موجود ہے۔ گو کہ اب نئے چینلز کھل گئے ہیں، پر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہی گروہ، وہی شخصیات اور وہی چہرے، نئے چینلز پر براجمان ہو گئے ہیں۔ ان نئے چینلز کو کوئی مقابلہ درپیش نہیں، اور یہ اسی لیے باہر کے چینلز کو پاکستان میں نہیں آنے دیتے، جیسا کہ گذشتہ کالم ”ثقافتی منافقت“ میں بیان ہوا۔ یہ انداز پاکستانی سوسائیٹی کا طریقہ بن گیا ہے کہ یہاں کسی بھی شعبے میں نئے آنے والوں کے لیے کوئی طریقہ موجود نہیں۔ اگر کوئی طریقہ موجود ہے تو وہ نئے ٹیلنٹ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ یعنی میرٹ پر مبنی کوئی طریقہ موجود نہیں!
اس کی مثال انڈین ٹی وی چینلز ہیں، جہاں ٹیلنٹ کو میرٹ پر پرکھا جاتا ہے۔ یوں سوسائیٹی کی انتہائی نچلی سطح سے بھی ایک بہترین گلوکار، ایک باکمال ڈانسر سامنے آ سکتا ہے۔ انڈیا میں ٹیلنٹ کی تلاش کو ایک مقام حاصل ہے، اور وہاں یہ چیز ادارے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جبکہ پاکستان میں اس پر ابھی تک گروہوں اور شخصیات کا اجارہ قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ثقافت اور فنون پر انحطاط طاری ہے۔ کسی بھی شعبے پر نظر ڈالیے، یہی اشرافی تسلط کا بحران، اسے اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ ان تمام شعبوں کے ساتھ وہی کچھ بیت رہا ہے، جو پاکستانی فلم انڈسٹری کے ساتھ گزر چکا ہے۔ نہ کوئی مقابلہ تھا، نہ کوئی چیلنج۔ لالی ووڈ کے پاس کوئی آئینہ نہیں تھا، اسے نظر ہی نہ آسکا کہ اس کی شکل کے ساتھ کیا قیامت گزر چکی ہے۔
آج پھر وہی قصہ دہرایا جا رہا ہے۔ گذشتہ کچھ مہینوں سے مختلف چینلز پر ترکی ڈرامے، اردو میں ترجمہ کر کے دکھائے جا رہے ہیں۔ ان سے میں ایک ڈرامہ ”عشقِ ممنوع“ بہت مقبول ہوا۔ سو، ہاہا کار مچ گئی، اور یہ مہم شروع ہو گئی کہ پاکستانی ڈرامے کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ 2 دسمبر کو انگریزی اخبار ”دا ایکسپریس ٹریبیون“ میں ایک فیچر شائع ہوا ہے ۔ اس کی تھیم یہی ہے کہ ترکی ڈراموں سے پاکستانی رائیٹر، پروڈیوسر اور اداکار خوف زدہ ہیں؛ ان ڈراموں سے ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان نمودار ہو گیا ہے۔
چند بڑے ناموں کی رائے ملاحظہ کیجیے۔ مصنف سید محمد احمد فرماتے ہیں: ’ ان ترکی ڈراموں کی نسبت، آپ فن کے بارے میں جتنا بھی مضحکہ خیز اور ناسمجھ ہو سکتے ہوں، کم ہے؛ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ یہ چلتا ہے، تو وہ دن دور نہیں، جب عریاں فلمیں اردو میں ترجمہ ہو کر آن ایئر آ جائیں گی۔‘ یہ مصنف کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ ترکی ڈراموں پر پابندی لگنی چاہیے۔ اداکار اورپروڈیوسر، ہمایوں سعید کچھ زیادہ ہی مایوس ہوگئے ہیں: ’اگر یہ ڈرامے باقاعدگی سے نشر ہونے لگے تو پھر پاکستانی ڈراموں کے ناظرین ختم ہو جائیں گے۔‘ معروف اداکار، طلعت حسین کچھ محتاط ہیں، مگر پریشان وہ بھی ہیں: ’یہ ڈرامے ایک زیادہ لبرل مسلم سوسائیٹی دکھاتے ہیں، جسے ہمارے ناظرین دیکھنا اور محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان پروگراموں کو پاکستان میں دکھانے کی اجازت دے دینی چاہیے؟ یقیناً نہیں۔ جب تک پاکستانی ڈرامے ترجمہ کر کے ترکی میں نہیں دکھائے جاتے، تب تک بالکل نہیں۔‘
نتیجہ یہ کہ ریاست کو ترکی ڈراموں پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ یا پھر ترکی حکومت سے کہنا چاہیے کہ پاکستانی ڈراموں کو ترکی میں دکھانے کے لیے قانون بنایا جائے۔ بات یہ ہے کہ اگر پاکستانی ڈراموں میں جان ہو تی تو یہ آج صرف ترکی نہیں، دنیا کے اور بہت سے ملکوں میں دکھائے جا رہے ہوتے۔ یہی کمینگی، اشرافی کمینگی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف فاشسٹ ہے، بلکہ پاکستانی شہریوں کو اچھی تفریح سے محروم بھی رکھنا چاہتا ہے۔ یہ چند گروہ اور چند شخصیات، پاکستانی ثقافت پر اپنی اجارہ داری اور غلبہ قائم رکھنے کے لیے پاکستانی ثقافت کو پسماندہ رکھنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ ثقافت، آزاد ماحول میں تخلیق پاتی ہے، اسے آزادی ضرور چاہیے، مگر دوسری ثقافتوں سے تحفظ نہیں۔ ثقافت پر ہرطرح کی اجارہ داری ختم ہونی چاہیے!
[یہ کالم 8 دسمبر کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں